فکر و نظر

کیا مودی حکومت نے پھر ثابت کیا ہے کہ اس سے اتفاق نہ کرنے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا؟

گزشتہ  ایک مہینے میں ہی اکثریت سے دوبارہ اقتدار میں آئی نریندر مودی حکومت نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ اپنی تنقید کے تئیں  صبروتحمل  کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

Photo: Ahdieh Ashrafi/Flickr CC 2.0

Photo: Ahdieh Ashrafi/Flickr CC 2.0

گزشتہ تقریباً ایک مہینے میں، یعنی حکومت کی تقریب  حلف برداری کے بعد سے چند واقعات رونماہوئے

– ای ڈی نے صحافی راگھو بہل کے خلاف مبینہ منی لانڈرنگ کا ایک مقدمہ دائر کیا ہے۔

– سیبی یعنی Securities and Exchange Board of Indiaنے این ڈی ٹی وی کے پرموٹرس رادھیکا رائے اور پرنئے رائے کے خلاف ایک حکم نکال‌کر ان کو دو سال تک اقتصادی بازار میں کوئی لین دین کرنے سے منع کر دیا اور ان کو ان کے ٹیلی ویژن چینل کے ڈائریکٹر کی کرسی سے ہٹا دیا ؛

– سی بی آئی نے معروف وکیل آنند گروور اور ان کے ذریعے چلائے جانے والے این جی او -دی لائرس کلیکٹیو کے خلاف غیر ملکی فنڈ منظور کرنے کے اصولوں کی خلاف ورزی کے لئے ایک ایف آئی آر دائر کیا۔

– اور پولیس افسر سنجیو بھٹ کو ایک 30 سال پرانے معاملے میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

اتر پردیش میں آدتیہ ناتھ حکومت نے ریپر ہارڈ کور کے خلاف وزیراعلیٰ اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے چیف موہن بھاگوت کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے الزام میں سیڈیشن  کا معاملہ درج کیا۔اس سے پہلے صحافی پرشانت کنوجیا کو یوپی کے وزیراعلیٰ کے خلاف سوشل میڈیا پرپوسٹ کرنے کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا، جو  فی الحال ضمانت پر ہیں۔

ہارڈ کور یوکےمیں ہیں، اس لئے پولیس ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکی ہے۔ لیکن اگر وہ ہندوستان میں ہوتیں، تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتیں۔پہلے تین معاملوں میں کارروائی آزاد حکام اور اداروں کے ذریعے کی گئی اور ان میں حکومت کا براہ راست کردار نہیں ہے۔

ای ڈی، سیبی اور سب سے بڑھ‌کر عدلیہ کو حکومت کے براہ راست  کنٹرول  سے آزاد تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ مطلب نکالنا غلط ہوگا کہ ان کو ایک خاص طرح کی کارروائی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی ۔ نہ ہی یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ان کو کسی مبینہ جرم یا بدانتظامی کے لئے الزامات کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔لیکن اس کے ساتھ ہی سچائی یہ بھی ہے کہ بہل، رائے  اور بھٹ، الگ الگ طریقوں سے نریندر مودی اور ان کی حکومت کے ناقد رہے ہیں۔ جہاں تک بہل کا سوال ہے، تو شروع میں وہ مودی حکومت کے حمایتی ہوا کرتے تھے، لیکن بعد میں انہوں نے حکومت کی پالیسیوں کی شدید تنقید شروع کر دی۔

این ڈی ٹی وی ایک غیر جانبدارانہ اور متوازن چینل ہے اور کچھ مواقع پر یہ رائٹ ونگ  کے تئیں تھوڑی نرمی برتتے بھی دکھا ہے، لیکن اس کو کافی دوستانہ اور ڈھول-تاشے بجانے والے کی طرح نہیں دیکھا جاتا ہے۔اور جہاں تک بھٹ کا سوال ہے، تو وہ 2002 میں گجرات میں مودی کے کردار کو لےکر لگاتار سوال اٹھاتے رہے ہیں۔رائے اور بہل پر کارروائی کرنے میں سیبی اور ای ڈی نے قابل ذکر تیزی کا ثبوت دیا ہے اور بھٹ کے معاملے میں گجرات کے عدلیہ  نظام نے 2001 سے 2016 تک ہوئے 180 دیگر معاملوں میں سے کسی ایک میں بھی ایسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے-ان معاملوں میں ایک بھی پولیس اہلکار کو قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔

ہارڈ کور کی بات کریں، تو ان کے پوسٹس ضرورت سے زیادہ تنقیدی اور یہاں تک کہ قابل اعتراض اور توہين آميز کہے جا سکتے ہیں، لیکن وہ کسی بھی طرح سے سیڈیشن کا معاملہ نہیں ہے۔ہندوستان کے آئین کے مطابق سیڈیشن کی تعریف بے حد جامع ہے، لیکن اس میں استثنیٰ بھی ہے-صرف حکومت کی تنقید کرنا کسی کی گرفتاری کی بنیاد نہیں ہو سکتی ہے۔اگر ایسا ہوا تو صحافی اور کئی دیگر لوگ سلاخوں کے پیچھے ہوں‌گے۔ (حالانکہ، یہ دیکھتے ہوئے کہ میڈیا کا ایک بڑا حصہ حکومت کے آگے سرنگوں ہے، یہ بہت بڑی بات نہیں کہ تنقید کو بھی ایک دن ملک مخالف اور سیڈیشن قرار دیا جائے)۔

ایسے کئی اہتمام ہیں جس کے تحت یوپی حکومت یا خود یوگی آدتیہ ناتھ کور پر مقدمہ کر سکتے تھے، لیکن ان کی پولیس نے سیڈیشن کا الزام لگا دینے کو ہی زیادہ مناسب سمجھا، جو کہ آج کل سرکاری ایجنسیوں کا من پسند ہتھیار بن گیا ہے۔ریگولیٹری ایجنسیوں، حکومتوں اور یہاں تک کہ عدالتوں کے ذریعے جرائم یا غلطیوں پر اتنی تیزی کے ساتھ اٹھایا گیا سخت قدم یہ اشارہ دیتا ہے کہ اب انتظامیہ سے کسی مروت کی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ سیبی کے پاس کارپوریٹ کی بے قاعدگی کے سیکڑوں معاملے ہیں-ہمارے اخبار پرموٹروں، کمپنیوں اور میوچول فنڈز کے ذریعے عوامی جائیداد کے ساتھ دھوکہ دھڑی کی خبروں سے بھرے رہتے ہیں-لیکن ان کے خلاف شاید ہی کبھی کوئی کارروائی ہوتی دکھتی ہے۔

ای ڈی نے بہل پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے 2 کروڑ سے کچھ زیادہ پیسے میں لندن میں ایک اپارٹمنٹ خریدا(اتنے پیسے میں ممبئی میں ایک بہت چھوٹا فلیٹ ہی خریدا جا سکتا ہے)۔بہل کی بیوی کا کہنا ہے کہ ٹیکس رٹرن میں اس کا اقرار کیا گیا تھا۔ یہ ٹیکس-پوچھ تاچھ کے ایک عام معاملے جیسا ہے اور اس میں شاید ہی ایسا کچھ ہے کہ اس پر ای ڈی کے کان کھڑے ہو جائیں۔لیکن یہ صرف ایجنسیوں کے دوہرے معیارات کا معاملہ نہیں ہے-بڑی مچھلیوں کا سستے میں چھوٹ جانا ہندوستان کی عوامی زندگی کی اتنی ہی تکلیف دہ حقیقت ہے، جتنا کہ آزاد سمجھی جانے والی ایجنسیوں میں حکومت کی مداخلت-سپریم کورٹ سی بی آئی کو پنجرے میں بند طوطا کہہ چکا ہے اور ہر نظریے کی حکومتوں نے ماضی میں اس کا استعمال کیا ہے۔

لیکن شہریوں کے لئے تشویش کی  بات یہ ہے کہ اب حکومت کے ناقدین پر چن-چن‌کر کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ہمارے سیاستداں سوشل میڈیا پر تنقید کو لےکر کافی حساس ہو گئے ہیں اور اس معاملے میں بی جے پی اکیلی نہیں ہے۔لیکن بی جے پی حکومتیں جتنے جوش کے ساتھ ایسے معاملوں میں جو زیادہ سے زیادہ مذمت کرنے والی یا توہین آمیز کہی جا سکتی ہیں، سیڈیشن کے قانون کا استعمال کرتی ہیں، وہ ڈرانے والا ہے۔جنوری میں آسام میں بی جے پی قیادت والی حکومت نے معروف قلمکار ہرین گوہین کے علاوہ دو اور لوگوں پر متنازعہ شہریت بل کے خلاف تبصرہ کرنے کے لئے سیڈیشن کا الزام لگادیا۔

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب پالیسیوں کی تنقید کو بھی سیڈیشن کے طور پر دیکھا جائے‌گا؟ کیا حکومت کے خلاف لکھنے اور بولنے والے ماہر تعلیم، سماجی کارکنان اور صحافیوں کو حراست، قید اور اس سے بھی بڑھ‌کر مجرمانہ جرم کو ثابت کرنے کا سامنا کرنا پڑے‌گا؟یہ ایک ڈرانے والا خیال ہے۔ ان اقدام  سے ایک ڈر کا ماحول بننا لازمی ہے۔ بولنے اور اظہار رائے کی آزادی پر لگام لگانے کے لئے کوئی قانون منظور کرانے کی ضرورت نہیں ہے-میڈیا پہلے ہی اقتدار کے سامنے بچھ چکا ہے اور سہلائے جانے کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ مؤثر عوامی شخصیات ویسے بھی کوئی اختلاف کرنے سے کافی ہچکچاتے ہیں۔زمینی سطح پر عقیدہ، کھانا یا بس کسی خاص مذہب کے ہونے کی وجہ سے لوگوں کا پیٹ پیٹ کر قتل کیا جا رہا ہے۔ اور جو بھی اپنی آواز بند رکھنے سے انکار کر دیتا ہے، اس کو قانون کے ڈنڈے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی کو بھی فیس بک پوسٹ یا کسی ٹوئٹ کی وجہ سے پولیس کے ذریعے دھر لیا جا سکتا ہے۔

موجودہ اقتدار نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ اپنی تنقید کے تئیں صبروتحمل  کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ایک ایسی حالت میں جب بی جے پی مرکز میں دوسری بار اکثریت کے ساتھ واپس آ گئی ہے، کئی ریاستی حکومتوں پر اس کا کنٹرول ہے، حزب مخالف صدمے میں ہے اور اپنی ہی پھسل رہی زمین بچانے کی جدو جہد کر رہی ہے، بی جے پی عدم اتفاق رکھنے والوں اور عدم اطمینان کا اظہا رکرنے والوں پر کارروائی کرنے میں کوئی وقت نہیں گنوانے والی ہے۔راجناتھ سنگھ نے یہ خبردار کیا تھا کہ سیڈیشن پر ایک نیا قانون بنایا جائے‌گا جو اور بھی سخت ہوگا-یہ کوئی انتخاب کے وقت کی کوری تقریر نہیں تھی۔ بحث کرنے والے ہندوستانیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں چھوڑی جائے‌گی-ہر کسی کو نظام کے آگے سر جھکانا ہوگا۔