خبریں

بہار میں ڈاکٹروں کے 57 فیصد اور نرسوں کے 71 فیصد عہدے خالی

بہار حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے یہ جانکاری دی ہے۔ حال ہی میں چمکی بخار کی وجہ سے ریاست میں 150 سے زیادہ بچوں کی موت ہو چکی ہے۔

بہار کے وزیراعلی نتیش کمار (فوٹو : پی ٹی آئی)

بہار کے وزیراعلی نتیش کمار (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دماغی بخار جیسی سنگین بیماری سے جوجھ رہے بہار میں صحت خدمات کو لےکر ہوئے چونکانے والے انکشاف میں ریاستی حکومت نے منگل کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ حکومت کے ذریعے چلائے جا رہے  ہیلتھ سینٹروں میں منظور شدہ 12206 عہدوں کے لئے صرف 5205 ڈاکٹر ہی تعینات ہیں۔سپریم کورٹ میں دیے  گئے حلف نامہ میں ریاستی حکومت نے کہا کہ حکومت کے ذریعے چلائے جا رہے ہاسپٹل اور ہیلتھ سینٹر میں منظور شدہ 19155 نرسوں کے مقابلے صرف 5634 نرس ہی تعینات ہیں۔

عدالت نے 24 جون کو ریاستی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ ریاست میں صحت خدمات، غذائیت اور صفائی کو لےکر ایک ہفتے میں موجودہ حالات  سے اس کو واقف کرائے۔مظفرپور میں دماغی بخار سے 100 سے زیادہ بچوں کی موت کے بعد عدالت نے یہ ہدایت دی تھی۔اس بیماری کے تناظر میں ریاستی حکومت نے کہا کہ کل 824 معاملے سامنے آئیں ہیں اور کل 157 اموات ہوئی ہیں۔ اس میں حالانکہ کہا گیا کہ یہ نہیں معلوم  کہ دماغی بخار سے ہوئی موت کے 215 معاملوں میں سے 24 اس بیماری سے ہوئی ہیں یا نہیں۔

بہار حکومت نے کہا کہ ریاست میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے بالترتیب : 57 اور 71 فیصد عہدے خالی ہیں۔مظفرپور ضلع میں سب سے زیادہ اب تک 117  لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ بھاگل پور، مشرقی چمپارن، ویشالی، سیتامڑھی اور سمستی پور سے اموات کے معاملے سامنے آئے ہیں۔

واضح ہوکہ دماغی  بخار کا دائرہ اثر بہت پھیلا ہوا ہےجس میں انفیکشن بھی شامل ہے اور یہ بچوں کو متاثر کرتا ہے ۔ یہ سنڈروم وائرس اور بیکٹیریا کی وجہ سے ہوسکتے ہیں ۔ ہندوستان میں عام طو رپر جو وائرس پایا جاتا ہے  اس سے جاپانی بخار ہوتا ہے ۔ وزارت صحت کے اندازے کے مطابق چمکی بخار کے 5 سے 35 فیصدی معاملے جاپانی بخار وائرس کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔

غور طلب ہے کہ مظفر پور میں دماغی بخار کا پہلا معاملہ 1995 میں سامنے آیا تھا۔وہیں ایسٹ یوپی میں بھی ایسے معاملے اکثر سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس بیماری کے پھیلنے کا کوئی خاص پیمانہ تو نہیں ہے لیکن زیادہ گرمی اور بارش کی کمی کی وجہ سے اکثر ایسے معاملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔اس کے بعد سے ہر سال مسلسل اس کا قہر جاری رہا ہے۔لیکن اس بیماری کی اصل وجوہات کی پڑتال اب تک نہیں ہو سکی ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)