فکر و نظر

کانگریس متحد رہ پائی تو اس کے لیے بڑے مواقع ہیں     

اگر کانگریس پرینکا گاندھی کی قیادت میں خود کو بی جے پی  کے مضبوط متبادل کے طور پر پیش کر دیتی ہے تو 2022 اور 2024 میں اس سے اچھے نتائج کی امید باندھی  جا سکتی ہے۔

فوٹو: بہ شکریہ ٹوئٹر

فوٹو: بہ شکریہ ٹوئٹر

کانگریس کی صدارت سے راہل کا استعفیٰ اس  پارٹی کے لیے بہت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ آج کی صورتحال میں کانگریس اگلے دو سال تک قائم رہی اور اس میں کوئی بڑی توڑ پھوڑ نہیں ہوئی تو اس کی واپسی کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔ 2019 کے لوک سبھا چناؤ کے بعد اتر پردیش و بہار کی علاقائی پارٹیوں میں بھاری اتھل پتھل ہوئی ہے۔ اگر کانگریس پرینکا گاندھی کی قیادت میں خود کو بی جے پی  کے مضبوط متبادل کے طور پر پیش کر دیتی ہے تو 2022 اور 2024 میں اس سے اچھے نتائج کی امید باندھی  جا سکتی ہے۔

راہل شروع سے ہی میدانِ سیاست میں کچھ ناموزوں سے تھے۔ غیر رسمی سے، کبھی منمانی کرنے والے بھی، گستاخانہ حد تک بےباک، ایسے سادہ لوح کہ بے ساختگی کے ساتھ کانگریس کے معاملات طے کرنا چاہتے تھے۔ وہ پارٹی کی حدود جلد ہی سمجھ گئے تھے اور وقت کے ساتھ چلنے کے لیے اٹھائے جانے والے کسی بھی اصلاحی قدم میں پارٹی کے ذمہ داروں کی بے رغبتی بھی بھانپ گئے تھے۔ تاہم 2006 سے 2013 کے بیچ راہل کو پارٹی کا جنرل سکریٹری بنایا گیا، اس کے بعد انہیں نائب صدر کے عہدے پر ترقی دی گئی، تب بھی وہ ایک مصلح اور پارٹی کی موجودہ پوزیشن برقرار رکھنے کے خواہشمند رہنما  کے طور پر متذبذب رہے۔

یہ وہ وقت تھا جب ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیر اعظم تھے اور انہوں نے کئی بار راہل گاندھی کو اپنی کیبنیٹ میں کوئی وزارت دینے کا آفر کیا۔ لیکن راہل نے منموہن سنگھ کا آفر قبول نہیں کیا اور اس طرح ایک اچھا موقعہ گنوا دیا۔ سرکار میں وزیر بننے کے بجائے انہوں نے پارٹی لیڈر کی حیثیت سے کام کرنے کو ترجیح دی۔ ادھر کانگریس کے پرانے کھلاڑی اپنے اپنے کھیل میں لگے تھے، جبکہ راہل پارٹی میں احتساب و شفافیت لانے کے لیے غیر سیاسی ماہرین سے صلاح مشورہ کرتے رہے۔ سونیا گاندھی نے کانگریس کے معاملات سے دوری بنا رکھی تھی۔ بیٹے سے فطری انسیت اور کانگریس کی وراثت میں خاندان کی خدمات سے اپنے جڑاو کے چلتے پھر بھی وہ کچھ دور تک ساتھ چلیں۔ سب کو سادھ لینے کی صلاحیت نے سونیا کو لمبے وقت تک کانگریس کا کام کاج چلانے میں کافی مدد کی۔ انہوں نے سب کی بات سن کر اتفاق رائے قبول کرنے اور صاف صفائی، سخت کارروائی یا مضبوط قدم اٹھائے جانے سے گریز کرنے والا جاپانی طریقہ اپنایا۔

2011 سے 2013 کے بیچ دوران علالت اے کے انٹونی، احمد پٹیل و سشیل کمار شندے پر ان کے انحصار نے راہل میں جوجھنے یا وار کرنے کی صلاحیت کو کم کیا۔ اس معنی میں سونیا کے ذریعے بطور لیڈر راہل کی افزائش اندرا گاندھی سے بہت الگ رہی۔ اندراگاندھی نے اپنے دونوں بیٹوں سنجے اور راجیو گاندھی کے میدان سیاست میں قدم رکھنے کے بعد انتہا درجے تک پہنچ کر بھی مدد کی۔

2011 سے 2013 کے بیچ راہل نے جغادری سیاستدانوں سے فاصلہ بنائے رکھا۔ دسمبر 2017 میں پارٹی کی صدارت سنبھالنے کے بعد تک ان کا رویہ ایسا ہی رہا۔ اپنے بزرگ سیاسی رہنماوں کا وہ ادب کرتے اور ان کی باتوں پر توجہ بھی دیتے تھے لیکن ان کے پاس اپنے پسندیدہ پروفیشنلس کی ٹیم تھی، جو اکثر پارٹی مفادات سے الگ ہٹ کر کام کرتی رہتی۔ 2004، 2009 اور 2014 کے عام انتخابات  میں کانگریس کا وار روم رہنے والے 5 گرودوارا رکاب گنج روڈ کی اہمیت و قدر راہل کے دور میں کم ہو گئی تھی۔ اس کی جگہ تمام اہم میٹنگس، حکمت عملی طے کرنے کے اجلاس راہل کی رہائش گاہ 12 تغلق کریسنٹ یا لٹینس کے علاقے میں دیگر مقامات پر ہونے لگے تھے، جبکہ پارٹی پروفیشنلس اپنا وقت 15 گرودوارا رکاب گنج روڈ پر کاٹا کرتے تھے۔

ایسا نہیں ہے کہ پارٹی کے سینئر لیڈران کے ساتھ راہل نے تال میل بٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ 2017 میں ہوئے گجرات ودھان سبھا چناؤ میں انہوں نے احمد پٹیل اور اشوک گہلوت کے ساتھ مل کر کام کیا۔ مدھیہ پردیش، راجستھان ، چھتیس گڑھ کے ودھان سبھا چناؤ میں بھی پٹیل او رگہلوت کا اہم رول تھا۔ حالانکہ راہل کی ٹیم میں شامل کچھ نوجوان اور جاہ طلب عناصر ان پرانے مہارتھیوں پر طعن و تشنیع کرتے رہے۔ پردے کے پیچھے ان طبقات کے بیچ بے حد تلخی اور غیر اعتمادی کی فضا تھی۔ اس کی وجہ سے  اشتہارات کی ترسیل، رابطہ عامہ اور میڈیا اسپیس ایجنسیز سے تال میل کا کام راہل کی ٹیم ٹھیک سے کبھی نہیں کر پائی۔

صورتحال پریشان کن دیکھ کر سونیا نے رٹائر ہونے کا منصوبہ ملتوی کر دیا اور پارٹی امور میں دوبارہ دلچسپی لینے لگیں۔ انہوں نے ٹیم راہل اور سینئر لیڈران کے بیچ توازن قائم رکھنے کی کوشش شروع کیں۔ پچھلے دو سالوں کے دوران پارٹی میں کئی اہم اپائنٹمنٹ کیے گئے، جن میں ٹیم راہل سے جڑے لوگوں کے ساتھ ہی سینئر رہنماوں کو بھی توجہ دی گئی ہے۔ اس سمجھوتہ وادی رخ کے چلتے دور سے دیکھنے پر پارٹی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نظر آتا ہے، حالانکہ اندرونی طور پر دونوں فریق ناخوش ہیں اور ان میں کڑواہٹ پائی جاتی ہے۔

راہل کو مضبوط کرنے کے لیے پرینکا گاندھی کو میدان سیاست میں اتارا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی جانب سے بھرپور کوشش بھی کی، ساتھ ہی عمداً خود کو محدود بھی کر کے رکھا، تاکہ ان کی تابناکی کے آگے راہل ماند نہ پڑ جائیں۔ لیکن پلوامہ پر ہوئے دہشت گردانہ حملے اور اس کے بعد بالاکوٹ پر فضائی حملے نے ان کے منصوبوں کو ناکام اور ان کی آمد سے پروان چڑھ رہے حوصلوں کو ٹھنڈا کر دیا۔ پھر عام انتخابات  ہونے لگے اور پرینکا کا جادو ہنگاموں کے بیچ کہیں کھو گیا۔

تاہم راہل پرجوش تھے اور رافیل ڈیل کو لے کر وزیر اعظم نریندر مودی پر مسلسل جارحانہ حملے کر رہے تھے۔ اس کے لیے ‘چوکیدار چور ہے’ جیسا سلوگن گڑھا گیا۔ اسے لے کر کانگریس کے کئی تجربہ کار لیڈران فکرمند تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے تفکرات کا اظہار کیا بھی تھا، لیکن وہ بےسود رہا۔ ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والے اور سوشل میڈیا ایکسپرٹس راہل کو بتاتے رہے کہ وہ بہت بڑی فتح سے ہمکنار ہونے والے ہیں۔ یہ ایسی حکمت عملی تھی، جو ایکدم ناکام رہی۔

23 مئی 2019 کی دوپہر کو راہل نے فیصلہ کیا کہ وہ کانگریس صدر کا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ سونیا اور پرینکا گاندھی دونوں نے اس فیصلے کی حمایت کی کہ اب اس فیصلے پر نظر ثانی نہیں کی جائے گی۔ پرینکا نے اپنے تئیں فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ راہل کی سیٹ نہیں سنبھالیں گی۔ تب انہوں نے مل کر پارٹی کے ذمہ داروں کو باور کرایا کہ وہ متبادل کی تلاش شروع کریں۔ حالانکہ کانگریس لیڈران ناامیدی میں بھی امید کی کرن کھوجنے کی کوشش کرتے رہے۔ مگر اب یہ ذمہ داری ان کے سر آن پڑی ہے کہ وہ اس مسئلہ کا حل تلاش کریں۔ راہل، سونیا اور پرینکا پارٹی کے کسی بھی فیصلے کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

راہل کا ساتھ دیتے ہوئے پرینکا نے کانگریس جنرل سکریٹری کے عہدے سے استعفیٰ کیوں نہیں دیا؟ اس کی ایک بڑی وجہ تھی۔ اگر وہ استعفیٰ دے دیتیں تو کانگریس کی پوری مجلس عاملہ، کانگریس کے وزرائے اعلیٰ اور دیگر عہدےداران بھی یہی راہ اختیار کر لیتے۔ اس سے راہل کا فیصلہ اچھے خاصے تماشے میں بدل جاتا اور پارٹی قیادت کا معاملہ ایک بار پھر 10 جن پتھ یعنی سونیا گاندھی کے گلے پڑ جاتا۔کانگریس کا مستقبل فی الحال مشکلات میں گھرا دکھ رہا ہے لیکن اس میں بہت سی امیدیں بھی نظر آ رہی ہیں۔ کم از کم گاندھی خاندان کو تو نظر آہی رہی ہیں۔

(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )