خبریں

مظفرنگر فسادات سے جڑے 41 میں سے 40 معاملوں میں سبھی ملزم بری

اتر پردیش کے مظفرنگر میں 2013 میں ہوئے فسادات میں گواہوں کے اپنے بیان سے مکر جانے کے بعد عدالت نے تمام 10 مقدموں کے ملزمین کو رہا کر دیا۔ مظفرنگر فسادات میں 65 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔

فائل فوٹو: رائٹرس

فائل فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: اتر پردیش کے مظفرنگر فسادات  معاملے میں عدالت نے 2017 سے 2019 کے بیچ قتل کے 10 مقدموں میں تمام ملزمین کو بری کر دیا ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، قتل کے گواہوں کے اپنے بیان سے مکر جانے کے بعد عدالت نے ان تمام 10 مقدموں کے ملزمین کو رہا کر دیا۔ ان گواہوں میں زیادہ تر مارے گئے لوگوں کے رشتہ دار تھے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس نے اہم گواہوں کے بیان درج نہیں کئے۔ اس کے ساتھ ہی قتل میں استعمال کئے گئے ہتھیار بھی پولیس کی طرف سے پیش نہیں کئے گئے۔رپورٹ کے مطابق، ان 10 معاملوں سے جڑے  شکایت گزار اور گواہوں سے بات چیت کے ساتھ ہی عدالت کے ریکارڈ اور دستاویزوں کی جانچ‌کے بعد پتا چلا کہ پانچ گواہ عدالت میں اس بات سے مکر گئے کہ اپنے رشتہ داروں کے قتل کے وقت وہ  موقع پر موجود تھے۔

6دوسرے گواہوں نے عدالت میں کہا کہ پولیس نے جبراً خالی کاغذات پر ان کے دستخط لئے تھے۔اس بارے میں جنوری 2017 سے فروری 2019 تک چلے ان مقدموں کے ریکارڈ، گواہوں کے بیانات کی تفصیلی جانچ اور مقدمے میں شامل افسروں سے بات چیت کے بعد پتا چلا کہ پانچ معاملوں میں قتل میں استعمال ہوئے اوزار کو پولیس نے عدالت میں پیش نہیں کیا۔ اتناہی نہیں استغاثہ  نے پولیس کی سبھی باتوں کو  قبول‌کر لیا۔ اس طرح سبھی ملزم عدالت سے چھوٹ گئے۔

مظفرنگر فسادات کے 41 معاملوں میں سے صرف ایک معاملے میں مظفرنگر کی مقامی عدالتوں نے سزا سنائی ہے۔اس معاملے میں اس سال 8 فروری کو سزا سنائی گئی تھی۔ ،اس میں 27 اگست 2013 کو کو ل گاؤں میں ہوا وہ واقعہ شامل ہے، جس میں سچن اور گورو دو بھائیوں کا قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قتل کے الزام میں عدالت نے مزمل، مجسم، فرقان، ندیم، جہانگیر، افضل اور اقبال کو سزا سنائی تھی۔

قتل سے جڑے 10 معاملوں میں 53 لوگوں کو سیدھے طور پر رہا کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ گینگ ریپ کے 4 اور فسادات کے 26 معاملوں میں بھی کسی ملزم کو سزا نہیں مل سکی۔غور طلب ہے کہ سال 2013 میں مظفرنگر میں ہوئے فسادات میں 65 لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔

واضح ہو  کہ فسادات کے سبھی  معاملے اکھلیش یادو کی حکومت میں درج کئے گئے تھے۔ ان معاملوں کی شنوائی ایس پی کے ساتھ بی جے پی حکومت میں بھی ہو رہی تھی۔اترپردیش حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان معاملوں میں اپیل نہیں کرے‌گی۔

سرکاری وکیل دشینت تیاگی کا کہنا ہے، ‘ ہم 2013 مظفرنگر فسادات معاملے میں کوئی اپیل نہیں کرنے جا رہے ہیں۔ ان معاملوں میں سبھی کلیدی  گواہ اپنے بیان سے مکر گئے تھے۔ ان معاملوں میں ملزمین کے خلاف چارج شیٹ گواہوں کے بیان پر ہی درج کی گئی تھی۔ ‘