خبریں

1984 سکھ مخالف فسادات: سپریم کورٹ نے 33 لوگوں کو ضمانت دی

سپریم کورٹ نے دہلی  ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف دائر کی گئی عرضی پر یہ فیصلہ دیا ہے۔ اس سے پہلے نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے دہلی  ہائی کورٹ نے ان لوگوں کو مجرم  قرار دیا تھا اور پانچ سال جیل کی سزا سنائی تھی۔

سپریم کورٹ/ فوٹو: پی ٹی آئی

سپریم کورٹ/ فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے دوران قومی راجدھانی کے ترلوک پوری علاقے میں فسادات، مکانوں کو جلانے اور کرفیو کی خلاف ورزی کرنے کے لئے مجرم ٹھہرائے گئے 33 لوگوں کو منگل کو ضمانت دے دی۔چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس انیرودھ بوس کی ایک بنچ نے ملزم لوگوں کی اپیل پر ان کو راحت دیتے ہوئے ان کی ضمانت منظور کی۔

ان لوگوں نے دہلی  ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج کیا ہے، جس میں ان کو مجرم  ٹھہراتے ہوئے معاملے میں پانچ سال جیل کی سزا سنائی گئی ہے۔نچلی عدالت نے ان لوگوں کو مجرم  ٹھہرایا تھا اور ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔

ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف 34 لوگوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ  نے افسروں کو نوٹس جاری کئے تھے۔ ان میں سے ایک اپیل کنندہ کی حال میں جیل میں موت ہو گئی تھی۔وکیل وشنو جین کے ذریعے اپنی اپیلوں کو دائر کرنے والے مجرم  ٹھہرائے گئے لوگوں نے مختلف بنیادوں پر ان کو رہا کئے جانے کی گزارش کی ہے۔

اس سے پہلے ہائی کورٹ نے 89 لوگوں میں سے 70 لوگوں کی سزا کو برقرار رکھا تھا، جن کو فساد، گھروں میں آگ لگانے اور کرفیو کی خلاف ورزی کے لئے پانچ سال جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔27 اگست 1996 کی نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کے زیر التوا رہنے کے دوران باقی 19 لوگوں میں سے 16 کی موت ہو چکی ہے۔

 اس سے پہلےدہلی کی ایک عدالت نے گزشتہ 20 نومبر کو 1984سکھ مخالف فسادات کے ایک معاملے میں  یشپال سنگھ کو سزائے موت  اور نریش سہراوت کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ دونوں کو جنوبی دہلی کے مہیپال پور علاقے میں ہر دیو سنگھ اور اوتار سنگھ کے قتل کا مجرم پایا گیا تھا۔قتل کے مجرم  یشپال سنگھ کو منگل کو پھانسی کی سزا جبکہ نریش سہراوت کو عمرقید کی سزا سنائی گئی۔

وہیں، دہلی ہائی کورٹ نے دسمبر 2018 میں کانگریس رہنما سجن کمار کو 1984 سکھ مخالف فسادات سے متعلق ایک معاملے میں مجرم ٹھہراتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔جسٹس ایس مرلی دھر اور جسٹس ونود گویل کی بنچ نے سوموار کو سجن کمار کو فسادات پھیلانے اور سازش رچنے کا مجرم قرار دیا تھا۔

2015 میں مرکزی حکومت نے 1984 فسادات میں 220 سے زیادہ بند معاملوں کی جانچ کے لیے ایک ایس آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا تھا۔ جس کا ذکر  مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ‘قتل عام’کے طور پر کیا تھا۔ جسٹس (ریٹائرڈ )جی پی ماتھر کی صدارت والی پینل رپورٹ کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان معاملوں میں تازہ جانچ کی جاسکتی ہے جہاں ثبوت ہونے کے باوجود پولیس نے معاملے بند کر دیے ہیں۔ کمیٹی نے کہا کہ 225 ایسے معاملے تھے اور ان میں کانگریس رہنما سجن کمار اور جگدیش ٹائٹلر کے خلاف معاملے بھی شامل تھے۔

واضح ہو  کہ، اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ان کے دو سکھ سکیورٹی گارڈ  کے ذریعے 31 اکتوبر کو قتل کئے جانے کے بعد ایک نومبر اور چار نومبر 1984 کے درمیان 2733 سکھ مارے گئے تھے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)