خبریں

ڈیفالٹر قرار دیے جانے کے باوجود ایس بی آئی نے دیا تھا اسٹرلنگ گروپ کو 1300 کروڑ روپے کا قرض

2012 میں تقریباً 81 کروڑ روپے کا قرض نہ چکانے پر اسٹیٹ بینک آف میسور نے اسٹرلنگ گروپ کے خلاف معاملہ درج کروایا تھا۔ 2014 میں اس کے پرموٹرس کو ول فل ڈیفالٹر قرار دے دیا گیا۔ لیکن 2015 میں آر بی آئی کے اصول کے خلاف گروپ کی ایک کمپنی کو اسٹیٹ بینک کے کنسورٹیم کے ذریعے لون دیا گیا۔

 نتن اور چیتن سندیسرا

نتن اور چیتن سندیسرا

نئی دہلی :اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) یونین (کنسورٹیم) کے ذریعے 2015 میں نتن اور چیتن سندیسرا کی ملکیت والے اسٹرلنگ گروپ کے ڈیفالٹر قرار دیے جانے کے باوجود  ریزرو بینک آف انڈیا  کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قرض دیا گیا۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اسٹیٹ بینک کے ہی ایک معاون بینک اسٹیٹ بینک آف میسور (ایس بی ایم) نے 2012 میں اسٹرلنگ بایوٹیک لمیٹڈ کے خلاف لون ڈیفالٹ کی شکایت درج کروائی تھی اور 2014 میں اس کے پرموٹرس کو ول فل ڈیفالٹر) قرار  دیا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ 2012 میں ایس بی ایم اسٹرلنگ گروپ کے خلاف ممبئی کے مجسٹریٹ کورٹ پہنچا تھا اور 80.90 کروڑ روپے کا قرض نہ چکانے کی وجہ سے پرموٹرس کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کرنے کی مانگ کی تھی۔اس کے بعد 2014 میں ایس بی ایم، جس کا 90 فیصدی ایس بی آئی کی ملکیت میں ہے، وہ پہلا بینک تھا، جس نے ریزرو بینک آف انڈیا کی ہدایات کے مطابق؛ نتن سندیسرا، چیتن سندیسرا اور اسٹرلنگ گروپ کو ول فل ڈیفالٹر قرار دیا تھا۔ 2017 میں ایس بی ایم سمیت تین معاون بینکوں کا ایس بی آئی میں انضمام ہو گیا تھا۔

غور طلب ہےکہ سی بی آئی اور ای ڈی نے تقریباً 8100 کروڑ روپے کے بینک قرض کے معاملے میں سندیسرا بردرس، دیپتی سندیسرا، راج بھوشن اوم پرکاش دکشت اور کئی دیگر کے خلاف معاملہ درج کیا ہے۔گزشتہ  سال ہی سندیسرا بردرس اور دیپتی سندیسرا کو ول فل ڈیفالٹر مان‌کر بھگوڑا قرار دے دیا گیا تھا۔ ان کی جائیداد کو ای ڈی کے ذریعے قرق کر سیل کیا جا چکا ہے۔ ان کے کاروباروں کو بینک افسروں نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور دونوں بھائی مبینہ طور پر نائیجیریا بھاگ گئے ہیں۔

اب انکشاف  ہوا ہے کہ ایس بی ایم کی شکایت اور گروپ کو ڈیفالٹر قرار دیے جانےکے باوجود سال 2015 میں ایس بی آئی کی قیادت والے کنسورٹیم نے اسٹرلنگ گروپ کی معاون غیر ملکی کمپنی اسٹرلنگ گلوبل آئل ریسورسیس لمیٹڈ کو اسٹینڈبائی لیٹرس آف کریڈٹ (ایس بی ایل سی) کی صورت میں 1300 کروڑ روپے کی بینک گارنٹی دی تھی۔


یہ بھی پڑھیں:اسٹرلنگ بایوٹیک اور سندیسرا بندھو: کاروبار نہیں کرپشن کا’گجرات ماڈل‘


اسٹرلنگ گروپ کے بارے میں جانچ‌کر رہی ایجنسیوں نے اس طرح کنسورٹیم کے ذریعے اسٹرلنگ گروپ کی کمپنی کو لون دینے کے فیصلے پر سوال اٹھائے ہیں کیونکہ آر بی آئی کا اصول ہے کہ جن کمپنیوں یا پرموٹرس کا نام ول فل ڈیفالٹر کی لسٹ میں آ جاتا ہے، ان کو نئی کریڈٹ سہولیات نہیں دی جاتی ہیں۔

اس اخبار کے ذریعے ایس بی آئی کے ترجمان سے سوال پوچھے جانے پر انہوں نے ای میل میں جواب دیا، ‘ پرائیویٹ اکاؤنٹس اور ان کے ساتھ ہوئے عمل پر تبصرہ کرنا بینک کی پالیسی میں نہیں ہے۔ ‘ ایس بی آئی کے کنسورٹیم کے ذریعے دئے گئے ایس بی ایل سی کو بینک آف بڑودا سمیت دیگر بینکوں نے بھی حمایت دی تھی۔

اس سے پہلے بینک آف بڑودا کی لندن واقع ایک نرانچ  نے اسٹرلنگ بایوٹیک کے لئے ایکسٹرنل کمرشیل باروئنگ (ای سی بی) کا بھی انتظام کیا تھا، جس کو بعد میں این پی اے اعلان کر دیا گیا تھا۔تفتیش کاروں کو یہ بھی پتا چلا ہے کہ ایس بی ایم کی شکایت اور کمپنی / پرموٹرس کو ول فل ڈیفالٹر قرار دیے جانے  کی جانکاری عام ہونے کے باوجود اسٹرلنگ گروپ کو کنسورٹیم کے ذریعے نئی کریڈٹ سہولت ملنے کو لےکر ریزرو بینک کے بینکنگ سپروزن محکمے نے اس کو نہیں روکا۔ اس بارے میں ریزرو بینک کو بھیجے گئے سوالوں پر کوئی رد عمل نہیں دیا گیا۔

اسٹرلنگ گروپ پر کل 15000 کروڑ روپے کا قرض ہے۔ گروپ پر کروڑوں روپے کی دھاندلی کے الزام ہیں۔ الزام ہیں کہ سندیسرا فیملی نے اپنے ملازمین‎ کے نام پر 249 گھریلو اور 96 آف شور شیل کمپنیاں بنا رکھی تھیں۔