خبریں

بی جے پی رہنما نے کہا؛ اڈور گوپال کرشنن کو اگر جئے شری رام کا نعرہ برداشت نہیں تو چاند پر چلے جائیں

گزشتہ 23 جولائی کو فلم ساز اڈور گوپال کرشنن کے علاوہ مختلف شعبوں کی 49 شخصیات  نے ملک میں مذہبی شناخت کی وجہ سے ہو رہے جرائم اور ماب لنچنگ کے بڑھتے معاملوں پر تشویش  کا اظہار  کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا تھا۔

فلم ساز اڈور گوپال کرشنن(فوٹو بہ شکریہ : ٹوئٹر)

فلم ساز اڈور گوپال کرشنن(فوٹو بہ شکریہ : ٹوئٹر)

نئی دہلی: مشہور فلم ساز اڈور گوپال کرشنن کے مذہب کے نام پر تشدد پھیلانے کے خلاف آواز اٹھانے کے بعد بی جے پی کی کیرل اکائی کے ایک رہنما نے کہا کہ وہ اگر ‘ جئے شری رام ‘ کانعرہ لگانے کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں تو چاند یا کسی دوسرے سیارے پر جانے کے لئے آزاد ہیں۔

کیرل  کے بی جے پی ترجمان بی گوپال کرشنن کی اس تنقید پر تنازعہ کھڑا ہونے کے بعد اڈور نے کہا کہ ان کے خط کے ذریعے اٹھائی گئی آواز نہ تو حکومت کے خلاف ہے اور نہ ہی ان کے خلاف جو ‘ جئے شری رام ‘ کا نعرہ لگاتے ہیں بلکہ ایسے واقعات کے خلاف ہے، جن میں کسی کا پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا جاتا ہے اور اس میں نعرہ کو جنگی نعرہ کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔

وزیراعلیٰ پنرائی وجین اور ملیالم فلمی دنیا کے لوگوں نے اڈور گوپال کرشنن کی حمایت اور بی جے پی رہنما کے تبصرے  کی مذمت کی ہے۔اپنی فیس بک پوسٹ میں بی جے پی رہنما نے کہا کہ اڈور ایک مشہور فلمساز ہیں لیکن وہ ملک کی تہذیب کی توہین نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا، ‘ اگر وہ یہ (جئے شری رام ) سننے کے خواہش مند نہیں ہیں تو برائے مہربانی اپنا نام شری ہری کوٹا  میں نامزد کرا لیں اور چاند پر جا سکتے ہیں۔ ‘

بی جے پی رہنما نے کہا، ‘ آج اگر گاندھی جی زندہ ہوتے تو، وہ اڈور کے گھر کے آگے بیٹھ‌کر اپواس رکھتے۔ ‘انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق؛ اس کے جواب میں فلم ساز اڈور گوپال کرشنن نے کہا ہے کہ وہ چاند پر چلے جائیں‌گے، بشرطیکہ وہاں کا ٹکٹ مل جائے۔اڈور نے کہا، ‘ ہر شہری کو جینے کا حق ہے اور ان کو اس حق سے محروم رکھنا غلط ہے۔ اقلیتوں پر حملے اور ان کی توہین کرنا ایک جمہوری‎ ملک کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ اگر حکومت ان واقعات کو لےکر کارروائی کرنے میں ناکام رہتی ہے تو ملک انتشار کی طرف بڑھ جائے‌گا اور تب حالات قابو سے باہر ہو جائیں‌گے۔ ‘

اڈور نے کہا کہ ان کو مرکزی حکومت سے کچھ بھی نہیں لینا ہے۔ ایک ہدایت کار کے طور پر ان کو سبھی اعزار مل چکے ہیں۔70 کی دہائی میں ملیالم سنیما میں انقلاب لانے کے لئے اڈور گوپال کرشنن کو جانا جاتا ہے۔ انہوں نے ملیالم فلموں کو ایک نئی سمت دی۔ فلم ڈائریکٹر ، اسکرپٹ رائٹر اور ڈائرکٹر اڈور اب تک 17 نیشنل ایوارڈ  جیت چکے ہیں۔

اس کے علاوہ کیرل اسٹیٹ فلم ایوارڈ بھی 17بار ان کی فلموں کو مل چکا ہے۔ ان کو کئی بار انٹرنیشنل  فلم ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔ 1984 میں ان کو پدمشری اور 2006 میں پدم وی بھوشن سے بھی  نوازا جا چکا ہے۔1973 میں ان کی فلم ‘سوینورم ‘کے لئے ان کو بہترین فلم اور بہترین فلم ڈائریکٹر  کا نیشنل ایوارڈ  ملا تھا۔ سوینورم ان کی پہلی فلم تھی۔

غور طلب ہے کہ ملک میں مذہبی شناخت کی وجہ سے نشانہ بنائے جا رہے لوگوں اور ماب لنچنگ کے بڑھتے معاملوں پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے  ایک گروپ نے گزشتہ 23 جولائی کو وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا تھا۔فلمساز ادور گوپال کرشنن کے علاوہ  گلوکارہ شبھا مدگل، اداکارہ کونکنا سین شرما اور فلم ساز شیام بینیگل، انوراگ کشیپ، اپرنا سین اور منی رتنم سمیت مختلف شعبہ  کی کم سے کم 49 ہستیوں نے ملک میں لگاتار ہو رہے لنچنگ کے واقعات پر وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک کھلا خط لکھا تھا۔

خط میں لکھا ہے، ‘ مسلمانوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ہو رہے لنچنگ کے واقعات فوراً رکنے چاہیے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار کو دیکھ‌کر ہم چونک گئے کہ سال 2016 میں ملک میں دلتوں کے ساتھ کم سے کم 840 واقعات ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے ان معاملوں میں سزاکے گھٹتے فیصد کو بھی دیکھا۔ ‘

خط کے مطابق،  فیکٹ چیکر ڈاٹ ان ڈاٹا بیس کے 30 اکتوبر 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق، 1 جنوری 2009 سے 29 اکتوبر 2018 تک مذہبی شناخت کی بنیاد پر نفرت سے متعلق  جرائم کے 254 معاملے دیکھنے کو ملے۔ دی سٹیزنس رلیجیس ہیٹ کرائم واچ کے مطابق، ایسے معاملوں کے 62 فیصد شکار مسلم (ملک کی 14 فیصد آبادی) اور 14 فیصد شکار عیسائی (ملک کی دو فیصدی آبادی) تھے۔ ‘

خط میں یہ بھی  کہا گیا تھا کہ ان میں سے تقریباً 90 فیصد معاملے مئی 2014 کے بعد سامنے آئے جب ملک میں آپ کی حکومت آئی۔ وزیر اعظم نے لنچنگ کے واقعات کی پارلیامنٹ  میں مذمت کی جو کہ کافی نہیں تھی۔ سوال یہ ہے کہ اصل میں مجرموں  کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)