فکر و نظر

ٹرمپ کی قلابازی اور مرگ مفاجات

پاکستان کے مؤقر اخبار روزنامہ جنگ نے اس مضمون کی اشاعت سے انکار کردیا ہے۔دی وائر اردو اپنے قارئین کے لیے اس مضمون کو شائع کر رہا ہے۔اس مضمون میں امریکی صدر ٹرمپ اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی حالیہ ملاقات کے پیش نظر بعض اہم مسائل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اس ملاقات کے نتائج پر غور کیا گیا ہے-ادارہ

کیا امریکہ ہماری موجودہ عالمی تنہائی میں کچھ ہاتھ بٹائے گا یا پھر سو پیاز اور سو جوتے ہی ہمارا مقدر رہیں گے؟ کیا اس سب کا ہماری مقتدرہ نے جائزہ لیا ہے؟ یا ہم فقط کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کرواتے رہیں گے اور عمران خان دوسرے ورلڈ کپ سے دل بہلاتے رہیں گے؟

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان (فوٹو بہ شکریہ : انفارمیشن منسٹری پاکستان)

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان (فوٹو بہ شکریہ : انفارمیشن منسٹری پاکستان)

صدر ٹرمپ بھی کیا غضبناک مسخرے ہیں۔ کب کیا کہہ دیں اور کیا کر گزریں؟ ان کی انتظامیہ سمیت دنیا حیران و پریشان ہو جاتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان ان سے پہلی ملاقات میں ششدر ہوئے۔ ان کی گرم اور میٹھی پریس ٹاک کو اضطراب کے ساتھ سنا کیے۔ خان صاحب جو خود بڑے منہ پھٹ واقع ہوئے ہیں، نہایت صبر سے یہ بھی برداشت کر گئے جب ٹرمپ نے گزشتہ 19 برسوں کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے مبینہ دغابازانہ اور ‘تخریب کار ‘کا گلہ کیا اور ساتھ ہی حالیہ تعاون کی تعریف کے پل باندھ دیے۔ ان کے کانوں کو جو انکشاف بہت بھایا وہ تھا ٹرمپ کا یہ کہنا کہ خود مودی نے ان سے کشمیر میں ثالثی کی دعوت دی۔ اس پر عمران خان کی باچھیں تو کھلنی ہی تھیں اور ٹرمپ کو ڈیڑھ ارب سے زیادہ لوگوں کو دعاؤں کا واسطہ دیتے ہوئے ثالث بننے کی توثیق کر دی اور یہ بھی کہہ دیا کہ یہ پاکستان کا نہیں کشمیریوں کا مسئلہ ہے۔

اس چوٹی کی ملاقات پر ہر کسی کو دھڑکا لگا ہوا تھا کہ جانے دو بڑے اناپرست بڑبولوں میں کہیں بھینٹ نہ ہو جائے۔ مگر معاملات پہلے ہی طے پا چکے تھے، باقی سب ٹوپی ڈرامہ تھا۔ خیر سے ہمارے دیرینہ سرپرست سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ٹرمپ کے داماد اور مشیر خاص جیرد کُشنر کے ذریعے بیک چینل پر وہائٹ ہاؤس میں ملاقات سے متعلق امور طے پا گئے تھے۔ سینیٹر لِنڈزے گراہم اور پینٹاگان کے ایلچیوں کے ذریعے جی ایچ کیو کے ساتھ تفصیلی مشاورت بھی ہو چکی تھی جس میں عمران خان کے ساتھ ساتھ جنرل باجوہ کی پینٹاگان اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں ملاقاتوں کا شیڈول بھی ترتیب دیا جا چکا تھا۔ نہ صرف یہ کہ امریکی بلکہ پاکستانی وزارتِ خارجہ اس بارے میں بالکل بے خبر رکھی گئی۔ پھر کیا تھا ٹرمپ اور عمران خان جیسے دیوانوں میں خوب بنی اور وہ ایک دوسرے کی تعریف میں قلابے ملاتے چلے گئے۔

یادش بخیر! یہ وہی ٹرمپ تھے جو یکم جنوری 2018 کے نئے سال کے ٹوئٹ میں یہ کہہ کر برسے تھے کہ ‘امریکہ نے نہایت بے وقوفی سے پاکستان کو 15 برس میں 33 ارب ڈالرز کی امداد دی اور انہوں نے ہمیں سوائے دھوکے اور جھوٹ کے کچھ نہ دیا۔ انہوں نے دی بھی تو دہشت گردوں کو پناہیں جنھوں نے ہماری فوجوں کا افغانستان میں شکار کیا۔ اب یہ نہیں چلے گا۔’ (اس ٹوئٹ پر پاک فوج اور آئی ایس آئی کی چابک دستیوں پر میں نے تو خوب سر دھنا تھا!) پھر کیا تھا کولیشن سپورٹ فنڈ (CSF) جو پہلے ہی روک دیا گیا تھا، کو 70 کروڑ ڈالر کم کر دیا گیا اور بعد ازاں 30 کروڑ ڈالر بھی روک لیا گیا اور یوں امریکہ کی طرف پاکستان کے 9 ارب ڈالرز واجب الادا ٹھہرے۔

دراصل امریکہ نے بہت پہلے سے بش اور پھر اوباما کے وقت سے پاکستان کے ساتھ امریکی اقساطی تعلقات کو ہندوستان کے ساتھ بڑھے ہوئے تزویراتی تعلقات سے علیحدہ کر دیا تھا اور امریکہ کا پرانا اتحادی اپنا سا منہ لے کر رہ گیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے جنوبی ایشیا کے ذریعے ایک نئی تزویراتی جہت لی اور چین کے خلاف محاذ بندی کے لیے ہندوستان  کو اپنی بحر الکاہل کی کمانڈ میں شامل کرتے ہوئے اسے ہندوستان + بحرالکاہل کی کمانڈ کا نام دیا۔ جنوبی ایشیا میں ہندوستان کو علاقائی جمعدار ٹھہرایا گیا اور پاکستان کو ہر طرف سے گھیرنے کا سلسلہ چل نکلا۔

امریکہ اور ہندوستان  کی تجارت 87 ارب ڈالر تک جا پہنچی، لیکن امریکی تجارتی خسارہ 24 ارب ڈالرز(2018) سے تجاوز کر گیا جس پر ٹرمپ بہت سیخ پا ہوئے اور انہوں نے ہندوستان  کو دی تجارتی سہولیات واپس لے لیں۔ ہندوستان  چونکہ امریکہ کا لے پالک نہیں، اس نے بڑے جنگی سامانوں کے سودے کیے بھی تو دوسروں سے اور روس سے S-400 میزائل کے نظام کا سودا بھی کر لیا۔ ٹرمپ نے جو یہ امید ہندوستان  سے لگائی تھی کہ وہ افغانستان میں مال لگائے گا وہ پوری نہ ہوئی اور اس نے لائبریری اور ہاسپٹل بنانے کی مودی کی بات کا خوب مذاق اڑایا۔لیکن یہ جو اچانک ٹرمپ نے یوٹرن لیا ہے، اس پر چنداں حیرانگی کی ضرورت نہیں۔

اپنی گزشتہ انتخابی مہم میں اس نے افغانستان سمیت دوسرے ملکوں سے امریکی فوجوں کی واپسی کا عہد کیا تھا۔ اس نے اگر جنوبی ایشیا کے لیے اور خاص طور پر افغانستان کی جنگ بارے جو نئی پالیسی بھی دی اور فوجوں کی تعداد میں 14000 تک اضافہ بھی کیا تو اپنے جرنیلوں کو یہ تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر چھ ماہ یا سال میں کوئی واضح نتیجہ نہ نکلا تو وہ تمام فوجی واپس بلا لے گا۔ دو سال ہونے پر ٹرمپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے یہ ٹھانی ہے کہ اپنے دوبارہ انتخاب کی مہم سے پہلے وہ افغانستان سے فوجیں نکال کر سرخرو ہو جائے۔ لہٰذا گذشتہ برس ٹرمپ انتظامیہ نے دوحہ میں طالبان سے نامہ و پیام شروع کیا اور بات چیت کا سلسلہ آگے چل نکلا۔ چونکہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان کی ملٹری اسٹیبلش منٹ نے نہایت مؤثر کردار ادا کیا تھا اور اس کے بغیر ٹرمپ کا خواب خواب ہی رہتا، اس لیے ٹرمپ کو پاکستان بارے بدلنے میں دیر نہیں لگی۔ دوحہ میں طالبان اور امریکی سفیر زملے خلیل زاد اب تک معاہدے کے ڈھانچے پر اتفاق کر چکے ہیں۔

البتہ افغانستان میں صلح کل کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات اور جنگ بندی پر ابھی تک طالبان راضی نہیں جس سے مذاکرات میں تعطل پیدا ہو چلا ہے۔ امریکہ ستمبر تک معاہدہ چاہتا ہے، جبکہ طالبان کے پاس وقت ہی وقت ہے۔ اس تعطل کے خاتمے کے لیے امریکہ کو پھر سے پاکستان سے رجوع کرنا پڑا ہے۔ عمران خان نے اس میں بھرپور تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے طالبان کو ملاقات کی دعوت دی ہے، جسے قبول کرنے کا عندیہ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے دے بھی دیا ہے اور دو امریکی مغویوں کی رہائی کی طرف بھی مثبت اشارہ کیا ہے جس کا یقین عمران خان ٹرمپ کو پہلے ہی دلا چکے تھے۔ طالبان کے دفتر نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ بیرونی قوتوں سے معاملات طے کرنے کے بعد وہ افغان حکومت سے بھی بات کرنے پہ تیار ہوں گے اور شاید کسی مرحلے میں جنگ بندی پر بھی، جب امریکی اپنے انخلا کا شیڈول دے دیں گے۔

امریکہ کے جس دورے پہ عمران خان کو فاتح واشنگٹن کے لقب دیے جا رہے ہیں اور وہ خود اس کو ورلڈ کپ کی طرح کی ٹرافی قرار دے رہے ہیں، بارے کچھ سوچنے کی باتیں ہیں۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ طالبان کو کابل میں براجمان کرانے کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ کیا یہ پاکستان کے واقعی مفاد میں ہے اور کیا اس سے تحریک طالبان پاکستان کی قسم کے دہشت گردوں کو اشتہا نہیں ملے گی؟ امریکہ یوں بستر لپیٹ بھاگ کھڑا ہوا تو افغانستان تباہ حال معیشت اور ٹوٹی پھوٹی ریاست کو سنبھالنے کے لیے ہر سال 10 ارب ڈالرز کی درکار رقم کون ادا کرے گا؟ اس کے لیے مارشل پلان کی طرز کا ایک منصوبہ درکار ہوگا، جس کے بنا افغانستان پھر سے طوائف الملوکی کا شکار ہو جائے گا۔ خدشہ یہ ہے کہ جس طرح جنیوا معاہدے اور روسی فوجوں کے انخلا کے بعد خانہ جنگی شروع ہوئی اور جو خوفناک ملبہ پاکستان کے حصے میں آیا وہ تاریخ پھر سے نہ دہرائی جائے۔

 افغانستان کے اس لاینحل بحران اور ہر طرح کی خونی کھینچا تانی میں اگر سبھی فریق ہتھیار گرانے اور موجودہ ریاستی ڈھانچے کو برقرار رکھنے پہ تیار نہ ہوئے تو پھر ایک اور خوفناک راؤنڈ ہوگا جو جانیں کب اور کہاں جا کر تھمے؟ امریکہ بہادر کے ساتھ ہمارے مستقبل کے تعلقات کیا ہوں گے؟ یا پھر وہ پہلے کی طرح اڑن چھو ہو جائے گا اور ہم پھر سے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے؟ کیا امریکہ ہماری موجودہ عالمی تنہائی میں کچھ ہاتھ بٹائے گا یا پھر سو پیاز اور سو جوتے ہی ہمارا مقدر رہیں گے؟ کیا اس سب کا ہماری مقتدرہ نے جائزہ لیا ہے؟ یا ہم فقط کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کرواتے رہیں گے اور عمران خان دوسرے ورلڈ کپ سے دل بہلاتے رہیں گے؟