خبریں

سی جے آئی نے سی بی آئی کو الہ آباد ہائی کورٹ کے موجودہ جج کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت دی

میڈیکل کالج رشوت معاملہ : الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایس این شکلا پر الزام ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی قیادت والی بنچ کے احکام کی مبینہ خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک پرائیویٹ کالج کو 2017-18 کے تعلیمی سیشن میں طلبا کا ایڈمشن لینے کی اجازت دی تھی۔

چیف جسٹس رنجن گگوئی(فوٹو : پی ٹی آئی)

چیف جسٹس رنجن گگوئی(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ہندوستان کے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے موجودہ جج ایس این شکلا کے خلاف بد عنوانی روک تھام قانون کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کے لئے سی بی آئی کو اجازت دے دی۔شکلا پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس ایڈمشن سے متعلق مبینہ طور پر بد عنوانی کی ہے۔

جسٹس شکلا کے خلاف   الزام لگایا گیا تھا  کہ انہوں نے اپنی بنچ کے ذریعے منظور حکم میں ہاتھ سے لکھ‌کر تبدیلی کی، تاکہ لکھنؤ میں ایک میڈیکل کالج کو داخلہ لینے کی اجازت مل سکے۔ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، سی بی آئی نے حال ہی میں چیف جسٹس کو خط لکھ‌کر جسٹس شکلا کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے اجازت دینے کی مانگ کی تھی۔

اس پر گزشتہ منگل کو رد عمل دیتے ہوئے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے سی بی آئی کو جسٹس شکلا کے خلاف تفتیش شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے۔جج کو مبینہ طور پر میڈیکل کالج رشوت معاملے میں بھی ملزم بنایا گیاتھا، جس میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس آئی ایم قدوسی کو سی بی آئی کے ذریعے ملزم بنایا  گیا تھا۔ستمبر 2017 میں، سی بی آئی نے الٰہ آباد اور اڑیسہ کے سابق جج آئی ایم قدوسی کے خلاف بد عنوانی کے الزام طے کئے تھے۔ سی بی آئی ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ قدوسی میڈیکل کالجوں کو کھولنے سے متعلق معاملوں میں اعلیٰ عدلیہ کے ممبروں کو متاثر کرنے کی کوشش میں شامل تھے۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق، ایسا مانا جاتا ہے کہ گزشتہ سال چھے ستمبر کو سی بی آئی کے ایک سینئر افسر نے ثبوتوں کے ساتھ سابق چیف جسٹس دیپک مشرا سے ملاقات کی تھی اور جسٹس ایس این شکلا کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لئے اجازت دینے کی گزارش کی تھی۔جسٹس مشرا نے اس وقت اجازت دینے سے واضح طور پر انکار کر دیا تھا اور ایف آئی آر میں صرف قدوسی، ثالث وشوناتھ اگروال اور پرساد ایجوکیشن ٹرسٹ کے بی پی یادو کا نام تھا۔

حالانکہ بعد میں تین رکنی انٹرنل کمیٹی نے جنوری 2018 میں پایا تھا کہ جسٹس شکلا کے خلاف شکایت میں کافی حقائق ہیں اور یہ سنگین ہیں، جو ان کو ہٹانے کی کارروائی شروع کرنے کے لئے کافی ہیں۔کمیٹی میں مدراس ہائی کورٹ کی چیف جسٹس اندرا بنرجی، سکم ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایس کے اگنی ہوتری اور مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے جج پی کے جائسوال شامل تھے۔

کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے پروسیس کے مطابق، جسٹس شکلا کو صلاح دی تھی کہ یا تو وہ استعفیٰ دے دیں یا رضاکارانہ سبکدوشی لے لیں۔وہیں، ان کے ایسا کرنے سے منع کرنے پر اس وقت کے سی جے آئی نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے کہا کہ فوراً ان کو عدالتی کام سے ہٹا دیا جائے، جس کے بعد وہ مبینہ طور پر لمبی چھٹی پر چلے گئے۔پچھلے مہینے جسٹس گگوئی نے وزیر اعظم کو خط لکھ‌کر ان کو ہٹانے کی کارروائی شروع کرنے کی گزارش کی تھی۔