فکر و نظر

بے قصور افراد کی اسیری اور یادیں تہاڑ جیل کی

انسداد دہشت گردی کے نام پر پچھلی کئی دہائیوں سے ہندوستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے جو کھیل کھیلا ہے، اس کی وجہ سے لاتعداد مسلم نواجوانوں کی زندگیاں تباہ و برباد ہوگئی ہیں۔ برسوں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے رہنے  اور اس دوران مسلسل اذیت سے گذرنے کے بعد ان میں سے اکثر ملزمین کو عدالتوں نے بے قصور قرار دے کر  رہا کردیاہے۔

علامتی فوٹو: رائٹرس

علامتی فوٹو: رائٹرس

انسداد دہشت گردی کے نام پر پچھلی کئی دہائیوں سے انڈین سکیورٹی ایجنسیوں نے جو کھیل کھیلا ہے، اس کی وجہ سے لاتعداد مسلم نواجوانوں کی زندگیاں تباہ و برباد ہوگئی ہیں۔ برسوں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے رہنے  اور اس دوران مسلسل اذیت سے گذرنے کے بعد ان میں سے اکثر ملزمین کو عدالتوں نے بے قصور قرار دے کر  رہا کردیاہے۔ اسی کھیل کی تازہ کڑی کے طور پر حال ہی میں پانچ  کشمیر ی نوجوانوں کو 23سال بعد رہا کر دیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ 1996میں دہلی کے لاجپت نگر علاقے اور راجستھان کے جئے پور میں ہوئے دھماکوں میں ملوث تھے، جس کو عدالت میں استغاثہ  ثابت نہیں کر سکی۔ کیس کی خاص بات یہ تھی، کہ عدالت نے دوران سماعت استغاثہ کی اس دلیل سے اتفاق کیا تھا، کہ دو کیسوں کی سماعت ایک ساتھ نہیں ہوسکتی ہے۔ اس لئے دہلی کے کیس کے فیصلہ کے بعد ہی جئے پور، راجستھان کیس کی سماعت ہوگی۔

 شاید استغاثہ کو معلوم تھا کہ اس کیس کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہے، بس ان بے قصور نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ دیر تک پس زندان رکھنا تھا۔ یہ  نوجوان دس سال قبل دہلی کی عدالت سے بری ہوچکے تھے۔ اس کے بعد ان کو جئے پور منتقل کرنے کے بعد  وہاں کی عدالتی کارروائی شروع ہوگئی، جہاں سے وہ پچھلے ہفتے بری ہوکر 23 سالوں کے بعد گھر پہنچے۔ مجھے یاد ہے کہ 2002اور 2003کے درمیان جب میں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید تھا، تو یہ افراد بھی وہاں بند تھے۔سرینگر کے لطیف احمد وازہ اور چناب ویلی میں بھدروا کے عبدالغنی گونی کی رہائی کی تصویریں دیکھ کر،مجھے ایام اسیری کا ایک دلچسپ واقع یاد آیا۔

دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل دراصل آٹھ مختلف جیلوں کا مجموعہ ہے، جس میں سب سے بڑی تین نمبر جیل ہے۔ ایک جیل خواتین کے لیے مخصوص ہے۔ یہ ایک طرح سے چھوٹا موٹا ٹاون شپ ہے، جہاں 15سے 17ہزار افراد سلاخوں کے پیچھے زندگی گذارتے ہیں۔ ہر سال اکتوبر میں جیلوں کے درمیان مختلف کھیلوں کے مقابلے ہوتے ہیں، جن کو تہاڑ اولمپکس کہتے ہیں۔اگست سے ہی ان کی تیاریا ں شروع ہوتی ہیں۔ کھلاڑیوں کے سلیکشن سے لے کر، کوچنگ اور پریکٹس وغیرہ کروانے کیلئے جیل حکام سرگرم ہو جاتے ہیں۔ ہر جیل کا کسی نہ کسی مخصوص کھیل کے شعبہ میں دبدبہ ہوتا ہے۔ میرے قیام کے دوران جیل نمبر تین کرکٹ کیلئے مشہور تھی، اورپچھلے کئی برسوں سے وہ کرکٹ کا کپ لےکر آتی تھی۔

 اسی طرح ایک نمبر جیل، والی بال کیلئے مشہور تھی۔ یہی حال دیگر جیلوں کا بھی تھا۔ جیل نمبر تین کی کرکٹ ٹیم میں پانچ پاکستانی قیدی کھلاڑی تھے۔اس لئے اس کو پاکستانی ٹیم کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا تھا۔ جیل حکام کوچنگ کیلئے باہر سے بھی ماہرین کو بلاتے تھے۔ کرکٹ کوچنگ کیلئے ایک بار مشہور کرکٹر سچن تنڈولکر بھی جیل میں آئے اور ٹیم کو اپنے مشوروں سے نوازا۔ اس جیل کے ملاحظہ وارڑ میں ان کے نام سے ایک بیرک بھی موسوم کی گئی۔ اگست2002میں جب اولمپک کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئی تھیں، کہ وزارت داخلہ نے کسی انٹلی جنس رپورٹ کا حوالہ دے کر جیل حکام کو خبردار کیا، کہ پاکستانی قیدی کوئی شورش برپا کر سکتے ہیں یا جیل توڑ کر فرار ہونے کا راستہ تلا ش کر رہے ہیں، اس لئے ان کوشدید حفاظتی انتظامات کے تحت رکھا جائے۔ اگلے ہی دن پاکستانی قیدیوں کو انتہائی نگہداشت یعنی ہائی سکیورٹی وارڈ میں منتقل کیا گیا، جو جیل کے اندر ایک جیل ہے۔

 اس کا براہ راست خمیازہ کرکٹ ٹیم کو بھگتنا پڑا۔ بیک وقت اس کے پانچ کھلاڑی نااہل قرار دئے گئے۔ اولمپک میں میڈل اور میچ جیتنا جیل کی عزت و وقار کا مسئلہ ہوتا ہے، اور اس کے لئے جیل حکام کسی بھی حد تک جاتے ہیں۔ ان پاکستانی کھلاڑیوں کا متبادل تلاش کرنا ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہا تھا۔ خیر کسی نے جیل حکام کو بتایا کہ پچھلے سات سالوں سے ہائی سکیورٹی وارڈ میں بند لاجپت نگر بم بلاسٹ کیس میں ملوث،لطیف احمد وازا، نہایت ہی اچھا فاسٹ بالر ہے۔ بس اب کیا تھا، کہ جیل افسران نے لطیف کے کردار اور جیل میں اس کی اصلاح و حسن سلوک کے حوالے سے ایک فائل بناکر اعلیٰ حکام کو بھیجی، جس میں اس کو جنرل وارڈ میں منتقل کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ اجازت ملنے پر اس کو وارڈ نمبر 11، جہاں عام طور پر اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی میں زیر تعلیم قیدیوں کو رکھا جاتا ہے، منتقل کیا گیا۔ یہ ایک ایسا وارڈ ہے، جہاں تعلم یافتہ افراد یا سفید پوش ملزمین رکھے جاتے ہیں اور یہاں کا ماحول بھی دیگر وارڈں کے برعکس اتنا تناؤ والا نہیں ہوتا ہے۔ ایک طرح سے تقریباً ہوسٹل جیسا ماحول ہوتا ہے۔ یہاں کئی کلاس رومز اور لائبریری بھی موجود ہے۔ باہر سے جب بھی کوئی وی آئی پی، جیل کے دورہ پر آتا ہے، تو اسی وارڈ میں اس کو لایا جاتا ہے، اور وہ سمجھتا ہے کہ پوری جیل ایسی ہی ہے۔

 کئی روز کی تگ و دو کے بعد لطیف کو اس وارڈ میں منتقل کیا گیا۔ ان کھیلوں کے اختتام تک،یا ٹیم کی ہار تک، کھلاڑیوں پر نوازشوں کی بارش ہوتی ہے۔ ان کے لیےصبح  ناشتے میں انڈے، بریڈ، مکھن، دودھ، اور لنچ و ڈنر کیلئے لنگر سے اسپیشل چاول اور سویا بین پک کر آتے تھے۔ سات سال تک ہائی سکیورٹی وارڈ میں قید تنہائی کی زندگی گذارنے کے بعد لطیف اس جنرل وارڈ میں حیران و پریشان تھا۔ برسوں بعد پہلی بار اپنے ارد گرد مجمع دیکھ کر اس کا جی گھبرا نے لگا۔ وہ شور اور باتیں سننے کا اب عادی نہیں تھا۔ وہ اس حد تک پریشان ہوگیا کہ اس نے ایک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کو واپس ہائی سکیورٹی میں لے جانے کیلئے رشوت کی پیش کش کی۔ مگر چونکہ جیل حکام کو میچ اور جیل کے وقار کی فکر تھی، اس لئے انہوں نے اس کیلئے کونسلنگ کا انتظام کیا، چند قیدیوں کو بھی ہدایت دی گئی، کہ اس کا خاص خیال رکھ کر اس کی دلجوئی کا سامان فراہم کیا کریں۔ جیسا مجھے یاد ہے کہ کوچنگ اور پریکٹس کے مراحل سے گذرنے کے بعد ٹیم نے شاید فائنل یا سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ ٹیم کا کپتان امت کمار ڈکیتی کے الزام میں پچھلے آٹھ سال سے بند تھا۔

اس کے کیس کی عدالتی کارروائی ایک سال قبل ختم ہوچکی تھی اور جج نے اس کا فیصلہ محفوظ  رکھا ہوا تھا۔ ستم تو یہ ہوا، کہ اہم میچ کے ایک دن قبل امت کا عدالت سے بلاوا آگیا، کہ اس کے کیس کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ صبح اس کو عدالت روانہ کرتے وقت، جیل حکام و قیدی،اس کی قید کی مد ت میں اضافہ کی دعا کر رہے تھے۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ سیشن جج شیونارائن ڈنگرہ نے  اس کو تمام الزامات سے بری کرکے رہائی کا حکم دے دیا۔ ملزم، جو ٹیم کا کپتان تھا، نے آخری حربہ کے طور پر کورٹ روم میں جج سے درخواست کی کہ اس کو کچھ اور دن جیل میں گذارنے کی اجازت دی جائے۔ ڈنگرہ صاحب کا موڈ اس دن انتہائی خراب تھا۔ وہ اس درخواست سے اکھڑ گئے اور امت کو فی الفور عدالت کے کمرے سے ہی رہا کرنے کے احکامات جاری کئے، اور بتایا کہ یہ لڑکا جیل میں شاید کسی گینگ کا حصہ ہے اور حصہ بٹائی کیلئے جیل واپس جانا چاہتا ہے۔ جیل حکام کو حکم دیا گیا، کہ اس کا سامان وغیرہ، اس کے گھر پہنچایا جائے اور وہ کسی بھی صورت میں جیل کے آس پاس بھی پھٹکنے نہ دیا جائے۔ بغیر کپتان کی ٹیم کا اگلے روز وہی حشر ہوا، جس کا اندیشہ تھا۔

ٹیم بری طرح پٹ کر ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی۔ کرکٹ گراؤنڈ جیل نمبر ایک میں واقع تھا۔ جب ٹیم واپس آگئی، تو اس پر لعن و طعن کی ایسی بارش ہو رہی تھی، کہ پاکستانی یا ہندوستانی  ٹیم کو بھی ہار کر ایسی خفت نہیں اٹھانی پڑتی ہوگی۔ان کو مختلف وارڈوں میں گھمایا گیا، جہاں  وارڈوں کے صحن میں ان کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ان پر قیدیوں نے جوتے، لاتیں و تھپڑ برسائے۔ ناشتہ اور کھانے میں سبھی نوازشیں بند ہوگئیں۔ اگلے دو روز کے اند ر سبھی کھلاڑیوں کو الگ الگ وارڈوں میں بکھیر کر احساس دلایا گیا کہ وہ قید میں ہیں اور جیل کی عزت و وقار ان کی وجہ سے مٹی میں مل گئی ہے۔ لیکن جیل کی متاثر کن شخصیت بھدرواہ کے عبدالغنی گونی کی تھی۔ پیشہ سے استاد گونی صاحب ایک تبلیغی جماعت کے ساتھ گجرات دورے پر گئے تھے کہ گجرات پولیس نے ان کو گرفتار کرکے، راجستھان پولیس کے حوالے کیا، جنہوں نے ان کو دہلی پولیس کے سپرد کرکے بم بلاسٹ کیس میں فٹ کرکے تہاڑ جیل پہنچا دیا۔

 ٹھنڈے مزاج کے حامل گونی صاحب انتہائی اشتعال انگیز حالات میں بھی غصہ کو قابو میں رکھنے کا فن بخوبی جانتے تھے۔ قیدیوں کی اصلاح کا کام، جو  جیل حکام لاکھوں روپے خرچ کرنے پر بھی نہیں کر پاتے تھے، غنی صاحب چٹکیوں میں کرتے تھے۔ عادی مجرمان، جیب کترے، چور اور دیگر الزامات میں ملوث افراد ان کی صحبت میں ایسے بد ل جاتے تھے، کہ یقین نہیں آتا تھا۔ وہ خود جیل میں آنے والے افراد کی تعلیم کا بندو بست کرتے تھے، اوران کی صلاحیت کو دیکھ کر کسب سکھانے کا بھی انتظام کرتے تھے، تاکہ جیل کے باہر جاکر وہ رزق حلال کما سکیں۔ نئے آنے والے قیدیوں کیلئے تولیہ و صابن مہیا کروانا، ان کو ہمت دلاناو ان کی کاؤنسلنگ کرنا، انتہائی غریب قیدیوں کیلئے جیل کے اندر قانونی امداد مہیا کروانا وغیرہ، غنی صاحب کا خاصہ تھا۔

  وہ ہندو قیدیوں میں بھی خاصے مقبول تھے۔ کئی قیدیوں نے ان کے کردار و اخلاص کی بدولت ان کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا تھا۔ سنگین جرائم میں ملوث بڑے بڑے مجرمین و ملزمین، جن سے جیل سپرنٹنڈنٹ بھی پناہ مانگتا تھا، غنی صاحب کے سامنے سر جھکائے معصوم بچوں کی طرح کھڑے ہوجاتے تھے۔ جیل حکام بھی قیدیوں کے جھگڑے نپٹانے کیلئے ان کی خدمات حاصل کرتے تھے۔ ان کے جیل جانے کے پیچھے شاید قدرت کی یہی منشا تھی۔ اپنی جوانی اور زندگی کی قربانی دے کر، انہوں نے سینکڑوں افراد کی زندگی بدل کر ان کے مستقبل اور عاقبت کو سنوار دیا۔ ہزاروں مجرموں کو راہ راست پر لانے اور ان کو رزق حلال کمانے پر تیار کیا۔ امید ہے ان کی رہائی کے بعد اب حکومت، عوامی و نجی ادارے غنی صاحب کی اس بصیرت سے فائدہ اٹھا کرباز آباد کاری میں ان کا تعاون کرکے،سماجی خدمات کے شعبے میں ان کے تجربہ کا بھر پور استعمال کریں گے۔ ایسے ہی افراد کے لیے شاید اقبال نے کہا تھا:

ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند

 قطرہ نیساں ہے، زندان صدف سے ارجمند

ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت مگر

کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام قفس سے بہرہ مند