فکر و نظر

تین طلاق قانون پر سوال اٹھانے والے کبھی مسلم خواتین کی تکلیف کو نہیں سمجھ پائے

سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود تین طلاق ہو رہے تھے، اس لئے جب تک سماج اور غلط کام کر رہے مردوں کے ذہن میں قانون کا ڈر نہیں آئے‌گا، تب تک تین طلاق کے خلاف چل رہی مہم کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے‌گا۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

تین طلاق کے خلاف لڑائی کئی دہائیوں سے چل رہی تھی، اب جب تین طلاق بل منظور ہو گیا ہے، سپریم کورٹ نے بھی اس کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے، لیکن میں واضح کر دوں کہ ہماری اصل مانگ یہ تھی کہ ایک باضابطہ مسلم خاندانی قانون ہونا چاہیے اور وہ قانون قرآن پرمبنی ہونا چاہیے اور آئین کے جو مساوات اور انصاف کے اصول ہیں، اس پر بھی کھرا اترے۔جیسا کہ ہم بار بار کہتے رہے ہیں ہم مانتے ہیں کہ ایسا پوری طرح سے ممکن ہے کیونکہ قرآن میں بھی انصاف کی بات ہے اور آئین میں بھی۔ پھر کچھ اس طرح کے واقعات ہوئے کہ کچھ خواتین تین طلاق کی شکایت لےکر کورٹ پہنچیں، ہم بھی پہنچے اور پورا معاملہ ٹرپل طلاق پر آ گیا۔

حالانکہ ہماری مانگ میں ٹرپل طلاق کے ساتھ حلالہ، ایک سے زائدشادی بھی تھی لیکن اس وقت جو آئینی بنچ بنی اس نے کہا ہم صرف تین طلاق کا مدعا دیکھیں‌گے، تو اس طرح تین طلاق کے خلاف یہ پوری تحریک بن گئی۔ تب ہم نے سوچا کہ ٹھیک ہے کہ اب اس ایک ہی معاملے کو لےکر یہ تحریک بن رہی ہے اور ایک طرح سے یہ خاندانی قانون کی بات کریں، تو سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے تو ہم نے بھی اسی کو آگے بڑھایا۔

قرآن پرمبنی مسلم فیملی قانون بنایا جائے

آج کی تاریخ میں بھی مسلم خاندانی قانون کی مانگ جاری ہی ہے۔ لیکن اتنے سالوں میں جو ہمیں سمجھ میں آیا کہ ہماری جمہوریت جس طرح سے کام کرتی ہے اس میں ضروری نہیں ہے کہ جس طرح سے ہم خاندانی قانون کی مانگ‌کر رہے ہیں، وہ اسی طرح، اسی شکل میں اسی وقت انہی سارے اہتماموں کے ساتھ ہمیں ملے‌گا۔

ہم نے یہی سوچا کہ ٹرپل طلاق مسئلہ ہے اور اس پر قانون لایا جا رہا ہے تو اچھی ہی بات ہے۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاکر سارے ہی معاملے کور ہو جائیں‌گے۔ اب بات کریں قانون کی تو حکومت کی طرف سے جو پہلا ڈرافٹ آیا تھا، اس میں کافی ساری کمیاں تھیں۔ان کو دیکھتے ہوئے ہم نے حکومت کے سامنے تین اصلاحوں کی مانگ رکھی تھی۔ پہلا پوائنٹ یہ تھا کہ ایف آئی آر درج کروانے کا حق صرف اور صرف بیوی کو ہونا چاہیے کیونکہ یہ شوہر-بیوی کا آپسی معاملہ ہے۔

دوسرا، یہ کہ یہ ضمانتی اور کمپاؤنڈیبل (قابل معافی) جرم ہونا چاہیے کیونکہ ہم ایسا مانتے ہیں کہ اگر شوہر-بیوی کے درمیان بات چیت سے معاملہ سلجھنے کا ایک فیصد بھی امکان ہے تو وہ اس ایک فیصد موقع کوبھی چھوڑنا نہیں چاہیے۔ قرآنی طریقہ بھی یہی ہے کہ سدھارنے اور سلجھانے کی کوشش کرو۔کمپاؤنڈیبل اس لئے کہ اگر آپ ایف آئی آر کر دیتے ہیں اور صلح ہو جاتی ہے یا آپسی رضامندی سے طلاق لیتے ہیں تو مقدمہ واپس لینے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ تیسرا، جب تک یہ پورا عمل چلتا ہے تب تک بیوی کو حق ہونا چاہیے کہ جو اس کی سسرال یا شوہر کا گھر ہے، اس کو وہاں رہنے دیا جائے۔

اس کے بعد جب حکومت دوسرا ڈرافٹ لائی، اس میں پوری طرح سے تو نہیں، قریب قریب یہ باتیں مان لی گئیں۔ اس ڈرافٹ میں کہا گیا کہ ایف آئی آر یا تو بیوی کر سکتی ہے یا  وہ رشتہ دار جس سے خون کارشتہ ہو، اس پر ہمیں زیادہ اعتراض نہیں تھا۔ ضمانتی اور کمپاؤنڈیبل (قابل معافی) جرم کی شرط بھی مان لی گئی، لیکن تیسرے پوائنٹ پر دھیان نہیں دیا گیا تو ہم نے سوچا کہ تین میں سے دو مان لی گئی ہیں تو ٹھیک ہے۔

اس ایک لڑائی کے بعد آج بھی مقصد یہی ہے کہ قرآن پرمبنی مسلم فیملی قانون بنایا جائے۔ مسلم عورتوں سے بات کرکے ہم نے اس کا ڈرافٹ بنایا ہوا ہے اور آنے والے دنوں میں ہم اسی کو لےکرآگے بڑھیں‌گے۔اب تک ہمارا سارا دھیان، وقت، محنت سب تین طلاق مسئلے میں ہی جا رہا تھا، لیکن خاندانی قانون کی مانگ اب بھی وہیں ہے۔ ہماری تمام طرح کی میٹنگ میں وہ مدعا ضرور رہتا ہے اور آنے والے دنوں میں ہم اس کو بھی اٹھانے والے ہیں۔

کیا بل لانا بی جے پی کا ایک سیاسی قدم ہے؟

لگاتار کہا جا رہا ہے کہ یہ بل منظور کرنا بی جے پی کا ایک سیاسی قدم ہے، جس کا مقصد مسلم مردوں کو کسی نہ کسی طرح جیل میں پہنچانا ہے۔ یہ کہنے میں ایک معمولی بات ہے، لیکن یہ بہت پیچیدہ بھی ہے۔ اس کا پوراسیاق و سباق ہی بہت پیچیدہ ہے۔پہلی بات تو یہ کہ بی جے پی حکومت کو ہندوستان کی پوری عوام نے چنا ہے نہ کہ مسلم عورتوں نے یا بی ایم ایم اے کی عورتوں نے۔ جمہوریت میں قانون بنانے کے لئے آپ کو حکومت کے پاس قانون سازمجلس کے پاس ہی جانا ہوتا ہے۔ پرسنل لا بورڈ کے پاس ہم کبھی جائیں‌گے نہیں، مذہبی رہنماؤں کے پاس ہم کبھی جائیں‌گے نہیں۔

دوسری بات یہ کہ بی جے پی حکومت تو صرف پانچ سالوں سے اقتدار میں آئی ہے، ہماری تحریک تو اس سے بہت پہلے کی رہی ہے۔ کھل کر ہم 20062007 سے تحریک کر رہے ہیں۔ ٹرپل طلاق کے خلاف ہم نے عوامی طور پر مانگ کی تھی، جس کا اچھاخاصا میڈیا کوریج ہوا تھا۔ دسمبر 2012 میں ہم نے تین طلاق کی سروائیور خواتین کی ایک قومی سماعت کی تھی، جس میں ملک کے کئی حصوں سے 500 کے قریب خواتین جمع ہوئی تھیں اور انہوں نے اپنی زبانی اپنی کہانی بتائی تھی۔ وہاں سب میڈیا بھی تھی اور اسی طرح سے عوام کے درمیان ہماری یہ بات گئی تھی کہ کچھ عورتیں ہیں جو تین طلاق کو لےکر اس طرح کی مانگ‌کر رہی ہیں اور اس لئے تین طلاق کی روایت پر روک لگنی چاہیے۔

میں کہنا یہ چاہ رہی ہوں کہ بی جے پی حکومت کی اقتدار میں آنے سے بہت پہلے سے یہ حالات رہے ہیں اور خواتین اکا-دکا طور پر انصاف کی مانگ کرتی آئی ہیں۔ 2007 میں جب سے بی ایم ایم اے بنا ہے، تب سے ہم عوامی طورپر یہ مانگ کرتے آئے ہیں۔یاد کیجئے کہ جب 198586 میں شاہ بانو کھڑی ہوئی تھی تب سارے کے سارے، چاہے وہ حکومت ہو، رہنما ہوں، علما ہوں یا ایکسپرٹ، سب نے مل‌کر ایک پینسٹھ سالہ عورت کی آواز کو کچل دیا تھا۔

تب اور اب میں یہی فرق آیا ہے کہ آج ہزاروں عورتیں ہیں جو یہ مانگ رکھ رہی ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آج بی جے پی حکومت کےاقتدار میں ہونے کے خطرہ کی دہائی دے رہے ہیں، ان کے لئے یہ بہت اچھاہاتھ میں بہانہ آ گیا ہے کہ بی جے پی کی حکومت ہے تو وہ تو مسلموں کے خلاف ہی کام کرے‌گی لیکن سچائی یہاں دونوں طرف ہے۔

مرکزی حکومت کیونکہ بی جے پی کی ہے اور ان کا ہندو راشٹر اور اقلیتوں کو لےکر کیا سوچ رہی ہے یہ تو کھلی ہوئی بات ہے۔ لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ جو لوگ آج بی جے پی حکومت کے اقتدار میں ہونے کا بہانہ بنا رہے ہیں وہ تو 2012 میں بھی ہماری بات سننے کو تیار نہیں تھے۔وہ تو 2007080910 کسی بھی سال میں ہماری بات نہیں سن رہے تھے۔ اس دوران ہماری تحریک لگاتار چل رہی تھی۔ کوئی حکومت نہیں سن رہی تھی، میڈیا بھی نہیں سن رہا تھا۔ کچھ لوگ ضرور تھے پر زیادہ لوگ میڈیا میں بھی ہماری بات نہیں سن رہے تھے۔

فائل فوٹو : پی ٹی آئی

فائل فوٹو : پی ٹی آئی

جو سیاسی جماعت آج تک اپنے آپ کو مبینہ طور پرسیکولر کہتی آئی ہیں، ہماری تحریک، مسلم عورتوں کے حالات کے بارے میں تو ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ہے۔ ہماری بات کا ان پر اور پرسنل لا بورڈ پر کبھی کوئی اثر نہیں پڑا ۔چاہے وہ سیکولر پارٹیاں ہوں، سیکولر رہنما ہوں یا پرسنل لا بورڈ یا اس طرح کے لوگ ہوں، وہ تو پوری طرح سے مردپرست رہے ہیں، خاتون-مخالف رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی ہماری بات کو سننا ضروری نہیں سمجھا۔ اور جب  بی جے پی حکومت میں ہے تو یہ اسی کا بہانہ دے رہے ہیں۔

یعنی کل ملا‌کر ہم عورتوں کے لئے کبھی کوئی وقت صحیح نہیں ہوتا۔ انگریزی میں پدرانہ نظام کے لئے کہا جاتا ہے کہthe oldest trick of patriarchy is that the time for gender justice is never right (پدرانہ نظام کی سب سے پرانی حکمت عملی یہی ہے کہ جنسی مساوات پر بات کرنے کا کوئی صحیح وقت نہیں ہوتاہمیشہ خاتون سے ہی کہا جاتا ہے کہ تم خاموش رہو، پڑوسی سن لے‌گا، خاموش رہو ورنہ ہماری عزت کا کیا ہوگا۔ تم خاموش رہو ورنہ تمہارا گھر ٹوٹ جائے‌گا۔ یہی سب پدرانہ نظام کے طریقے ہیں جہاں عورتوں کی آواز کو بند کرنے کے لئے ہزاروں بہانے روز آتے ہیں۔

اور میرے اتنا سب کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں مانتی ہوں کہ بی جے پی حکومت فیمنسٹ حکومت ہے، مجھے اس طرح کی کوئی خوش فہمی نہیں ہے، لیکن ہمارے پاس موجود پوری تاریخ اور ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ہم اس بات میں نہیں جانا چاہتے ہیں کہ اس کے پیچھے حکومت کا کیا موٹیویشن رہا ہے۔حکومت کا جذبہ جو بھی رہا ہو، اس مدعے پر آئینی طور پر حکومت صحیح راہ پر چل رہی ہے۔ جب تین طلاق معاملہ سپریم کورٹ میں چل رہا تھا، تب ان کی طرف سے دیا گیا حلف نامہ آئینی طور پر سو فیصد صحیح تھا۔ اور یہ قانون بنانے کے عمل میں بھی حکومت آئینی طور پر بالکل صحیح ہے۔

یہ ساری سیکولر جماعت کبھی اپنا منھ سے نہیں بولی ہیں کہ قانون کی ضرورت ہے نہ ہی مولوی یہ بات بولے ہیں۔ نہ ہی جو چند لبرل ہیں، جو آج مودی کی مخالفت میں مضمون لکھ رہے ہیں انہوں نے کبھی بھی کھل کر تین طلاق کے خلاف تحریک کی حمایت نہیں کی۔یعنی کہیں نہ کہیں یہ سبھی لوگ پدرانہ نظام سے متاثر ہیں اور ان کے لئے بی جے پی کی مخالفت کرنا سب سے بڑا مقصد ہے نہ کی مسلم خواتین کے حالات۔ وہ اپنی سیاست کر رہے ہیں، وہ کرتے رہیں۔

ہم یہاں مسلم خواتین کے لئے ہیں اور ان کے مفاد کو دھیان میں رکھ‌کر بات کرتے ہیں اور ہمیں لگ رہا ہے کہ ہماری جو ہمیشہ سے مانگ رہی ہے قانون بنانے کی اس پر اب جا کر عمل ہوا ہے۔ اور ہم اس سے خوش ہیں۔جس کو جو بولنا ہے بولتے رہے۔ نہ ہی مولوی-ملا، کٹھ ملے، نہ ہی کانگریس پارٹی یا کوئی دیگر سیاسی جماعت اور نہ ہی ان کے ساتھ کھڑے چند لبرل، ان میں سے کسی کو بھی مسلم خواتین کی زندگی اور ان کے حالات کے بارے میں زیادہ تجربہ نہیں ہے، سمجھ بھی نہیں ہے۔

قرآن میں جنسی مساوات کے بارے میں جو اصول ہے،کسی کو بھی ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں نہ ہی کوئی دلچسپی ہی ہے۔ مسلم خواتین کے ساتھ جو بھی ہوتا ہے، ہوتا رہے ان کو اس کی کوئی خاص پرواہ بھی نہیں ہے۔ان کی  پرواہ ہے بی جے پی حکومت کی مخالفت کرنا اور جو مسلم مذہبی رہنما ہیں ان کی پرواہ یہی ہے کہ بی جے پی حکومت کا بہانہ بناکر مسلم پرسنل قانون میں جو بھی اصلاح ہوتا ہے، اس کو ٹالنا۔

میں یہ کھل‌کر کہتی ہوں کہ بی جے پی تو 2014 میں آئی ہے، اس سے پہلے بھی وہ کسی نہ کسی طریقے سے، زبردستی یا کانگریس پارٹی کے ساتھ مل‌کر مسلم خواتین کے حقوق کو روکتے آئے ہیں۔ مسلم خواتین کو اللہ نے جو حق دیا، قرآن نے جو حق دیا وہ چھیننے میں، ان سے عورتوں کو محروم رکھنے میں ان کی مہارت ہے۔ ان کی ایمانداری پر تو سوالیہ نشان ہے۔

آج کی تاریخ میں سب سے اہم ہے بی جے پی حکومت کی مخالفت کرنا، یہ بات میں ذاتی طور پر یا بی ایم ایم اے نہیں مانتا ہے۔ جس کو حکومت کی مخالفت کرنا ہے، کرتے رہیں۔ حکومت کی بہت ساری پالیسیاں ہیں، قانون ہیں ان کی مخالفت کرتے رہیں۔ لیکن یہ تحریک مسلم عورتوں نے خود کھڑا کیا ہے اور اس کا منطقی انجام یہی ہے۔کیونکہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود تین طلاق ہو رہے ہیں، ہم نے خود دیکھا ہے۔ تو جب تک سماج اور غلط کام کر رہے مردوں کے ذہن میں قانون کا ڈر نہیں آئے‌گا، تب تک تین طلاق کے خلاف چل رہی مہم کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے‌گا۔

جو مسلم خواتین کا درد نہیں جانتے، ان کو سیاست دکھ رہی ہے

سوشل میڈیا پر مسلم خواتین کا ایک طبقہ ہے جو کہہ رہا ہے کہ حکومت کے اس بل کو لانے کے سیاسی ارادے ہیں، تو اس میں بھی دو-چار پہلو ہیں۔ پہلا تو یہ کہ میں اور بی ایم ایم اے ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں کہ اس تحریک کا سہرا صرف اور صرف عام مسلم خواتین کے سر ہے، حکومت نے صرف اپنی آئینی ذمہ داری نبھائی ہے۔ یہ ہمیشہ سے واضح رہا ہے۔

دوسری بات کہ زیادہ تر خواتین خود پدری سوچ کی شکار ہیں۔ خواتین کے صرف جسم ہیں۔ ان کو نہیں پتا کہ مسلم خواتین کیا-کیا جھیل رہی ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے پر یہی کچھ 1516 سال پہلے میں خود پروفیسر تھی، اعلیٰ متوسط فیملی سے تھی لیکن روز مار کھاتی تھی۔ کچھ کہنے کا موقع آتا تھا تو میری سوچ بھی وہیں تک پہنچتی تھی، جہاں تک میرے شوہر کی۔مجھے ایسی خواتین سے کوئی غصہ نہیں ہے، کوئی مخالفت نہیں ہے لیکن میں امید کرتی ہوں کہ کچھ سالوں بعد ان کو سمجھ آئے‌گی کہ معاملہ کیا ہے۔

علامتی فوٹو : رائٹرس

علامتی فوٹو : رائٹرس

تیسرا ایک ایسا طبقہ ہے جس نے غریب خواتین یا مسلم خواتین کے مدعوں پر کبھی کوئی کام نہیں کیا ہے۔ اپنے ائیرکنڈیشن دفتر یا گھر میں بیٹھ‌کر آپ مضمون نگار ہو سکتے ہیں، صحافی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ مسلمان ہیں، کیونکہ ماب لنچنگ ہو رہی ہے، کیونکہ بی جے پی کی حکومت ہے اور اس کی کئی غلطیاں بالکل صاف ہیں اس لئے لگ سکتا ہے کہ یہ ان کی مسلم مخالف سیاست کا حصہ ہے۔اور یہ اس لئے بھی لگ سکتا ہے کہ آپ نے قریب سے کبھی دیکھا ہی نہیں کہ مسلم خواتین کیسے-کیسے جوجھ رہی ہیں، کبھی آپ نے ان کے منھ سے نہیں سنا ہے کہ ان کی زندگی میں کیا ہو رہا ہے۔

ہماری مسلم کمیونٹی کا یہ ایک المیہ رہا ہے۔ جیسے کہ اگر دلت سماج سے موازنہ کریں تو مسلم متوسط طبقے کے بہت کم ایسے لوگ ہیں جو خود پڑھ-لکھ گئے، تو وہ پلٹ‌کر سماج کو کچھ دے رہے ہیں۔میں بہت سے ایسے دلت لوگوں کو، کارکنان کو جانتی ہوں جو بہت کچھ بن گئے لیکن پھر بھی لگاتار جو دلت جھگی-بستیوں میں رہ رہے ہیں، غریب ہیں ان کے لئے کام کر رہے ہیں، ان کو کچھ دے رہے ہیں۔دینے کا مطلب یہ نہیں کہ کتابیں بانٹ رہے ہیں کپڑے بانٹ رہے ہیں، دے رہے ہیں مطلب ان کو ان کے حقوق کے بارے میں سمجھ بناتے ہیں، بیدار کرتے ہیں، لیکن ہماری کمیونٹی میں ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے۔

آپ اپنے گھر میں بیٹھ‌کر فیس بک / ٹوئٹر پر وقت گزارتے ہو تو کچھ بھی لکھ دیتے ہو، لیکن زمین پر کام کرنا ہے، جو کچھ لوگ کر رہے ہیں تو ان میں سے کئی لوگ اس میں حصہ لینے کے لئے آگے نہیں آتے ہیں۔ حصہ لینے کا چھوڑئیے، کسی بڑے شہر میں اگر ہم نے کوئی میٹنگ رکھی، تو ان میں سے کوئی وہاں چل‌کر پہنچا نہیں عورتوں کی کہانی جاننے کے لئے۔ اگر وہ آئے ہوتے اور ان کی سنتے تو ایسی باتیں نہ کرتے۔

بہت سارے کارکنان  دوست ہیں، جنہوں نے بہت کام کیا ہے، سماجی تبدیلی میں ان کی بہت اہم خدمات ہیں اور سب کے دل میں افسوس ہے کہ قانون آیا اور سامنے بی جے پی حکومت ہے، لیکن وہ کچھ نہیں کہہ رہے کیونکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مسلم خاتون کیسے جوجھ رہی ہیں۔سوشل میڈیا پر سب کچھ بہت آسان ہے۔ کتنے لوگ زمین پر جاتے ہیں، معاملے کی پیچیدگیاں سمجھتے ہیں، وہ سامنے آکے کہیں کہ یہ خواتین جھوٹ بول رہی ہیں، سب بی جے پی کا ایجنٹ ہیں!

حیدر آباد سے رکن پارلیامان ہیں اسدالدین اویسی، انہوں نے اب جاکر یہ مانا ہے کہ تین طلاق گناہ ہے، لیکن جو بل پاس ہوا ہے، وہ مسلم خواتین کی پریشانی بڑھائے‌گی کیونکہ یہ قانون ایک طبقے کے لئے بنایا گیا ہے۔یہ بات ان کی صحیح ہے کہ یہ قانون ایک طبقہ خاص کے لئے بنایا گیا ہے، لیکن ان کی کہی باقی باتوں سے میرا اتفاق نہیں ہے۔ پہلی بات جو یہ مان رہے ہیں کہ تین طلاق گناہ ہے، یہ بات ان کو منوانے میں بھی ہمیں بہت وقت لگا ہے۔

اویسی صاحب خود پرسنل لا بورڈ ممبر ہیں اور آپ سپریم کورٹ میں پرسنل لا بورڈ کے ذریعے داخل پہلا حلف نامہ دیکھ لیجئے، وہاں یہی کہا گیا ہے کہ یہی ہمارا حنفی طریقہ ہے اور بورڈ والے اسی کو جسٹِی فائی کرتے رہے ہیں۔یہ صرف خواتین کا دباؤ ہے کہ یہ ایسا کہہ رہے ہیں۔ کیونکہ ہم نے قرآن کی آیتیں نکال‌کر ان کو دلیل دئے، تب انہوں نے یہ مانا۔ جہاں تک مسلم خواتین کی پریشانی بڑھنے کی بات ہے تو وہ کب سے ان کے بارے میں فکر کرنے لگے؟

سالوں سے کام کرتے رہے کبھی ان کو اور ان جیسے لوگوں کو خیال نہیں آیا۔ جب ہمارا کام میڈیا میں آنے لگا تب ان کو لگا کہ بولنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کبھی اویسی صاحب نے کسی ریلی میں مسلم خاتون لفظ نہیں نکالا اپنے منھ سے۔یہ پوری طرح پدری نظام والے لوگ ہیں اورعام خواتین اور عوام کی طرف سے وسیع حمایت مل رہی ہے، اس ک وجہ سے ان کو اپنی سخت پوزیشن سے نیچے اترنا پڑ رہا ہے۔ کل یہ دباؤ کم ہو جائے یہ واپس اسپرنگ کی طرح پرانی جگہ پر پہنچ جائیں‌گے۔

تین طلاق غیرقانونی ہے، تو بل کی ضرورت کیوں؟

کچھ لوگ دلیل دے رہے ہیں کہ جب سپریم کورٹ نے پہلے ہی تین طلاق کو غیرقانونی قرار دے دیا تھا، تو اس بل کو لانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ دلیل دی جانے کی وجہ وہی ہے کہ عام مسلم خواتین کی زندگی کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔جہاں تک سپریم کورٹ کے فیصلے والی دلیل کی بات ہے تو مجھے بتائیے کہ فیصلہ آ گیا تو وہ خاتون کیا کرے؟ وہ شوہر سے کہتی ہے کہ آپ مجھے طلاق نہیں دے سکتے ہیں، عدالت کا فیصلہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جا فیصلہ ہے تو ہوگا، جو کر سکتی ہے کر لے، نکل جا یہاں سے!یہ میرے نہیں، واقعی میں ایک شوہر کے لفظ ہیں کہ تیرے پاس فیصلہ ہے، تو فیصلے کو لےکر ہی گھر سے نکل جا۔ میں نے طلاق دے دیا، تو میرے لئے حرام ہو گئی، نکل جا اب۔ اور یہ کہہ‌کر گھر سے نکال دیا۔

اب وہ کہاں جائے؟ قاضی کے پاس یا پولیس اسٹیشن؟ وکیل کے پاس جائے‌گی تو وہ کہے‌گا کہ فیصلہ تو ہے، پر اس کو عمل میں کیسے لائیں‌گے؟ یہی پولیس والے پوچھتے ہیں کہ کس دفعہ کے اندر اس معاملے کو درج کریں؟ گھریلو تشدد میں، جہیز میں؟ خاتون منع کرتی ہے کہ معاملہ تین طلاق کا ہے تو جواب ملتا ہے کہ اس کے لئے کوئی دفعہ نہیں ہے۔

تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے کئی ایسے فیصلے ہیں کئی قوانین میں، کس معاملہ خاص سے جڑے، مان لیجئے قتل سے جڑا کوئی فیصلہ ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قتل سے جڑا کوئی قانون نہیں ہونا چاہیے ملک میں؟ جب جہیز کے لئے قتل ہوا کرتی تھیں تب کے کئی فیصلے ہیں عدالت کے کہ بہو کو مار دیا، بیوی کو مار دیا گیا، غلط ہے یہ، تو کیا اس کے بعد جہیز کو لےکر قانون نہیں لایا گیا؟

اس کے ساتھ ہی دوسری سب سے اہم بات، یہ جو لوگ حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں، کریمنلائزیشن-کریمنلائزیشن کہہ‌کر مورچہ بنا رہے ہیں، وہ ہندوکثیرازدواج قانون بننے کا سہرا لے رہے ہیں، جہیز قانون کا سہرا لے رہے ہیں، گھریلو تشدد، پوکسو سبھی کا سہرا لے رہے ہیں، تو ان سبھی میں تو جیل کا اہتمام ہے۔ یعنی یہ لوگ جیل کے خلاف نہیں ہیں، مردوں کو جیل بھیجنے کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن کیونکہ بی جے پی حکومت ہے اس لئے ان کو یہ لگتا ہے۔

ایک اور بات اٹھ رہی ہے کہ اگر شوہر زبانی طلاق دینے کے بعد جیل چلا جاتا ہے اور وہ گھر کا اکیلا کمانے والا ہے، ایسے میں گھر-فیملی کیسے چلے‌گی؟میرا سوال ہے کہ جو لوگ ایسا کہہ رہے ہیں ان کو یہ کیسے پتا کہ جو مرد رات-آدھی رات بیوی کو گھر سے نکال دے رہا ہے، وہ نان و نفقہ دے رہا ہوگا اس کو! اس کو دھیلا بھی دے رہا ہے کیا وہ جانتے ہیں؟ یہ سب ہوابازی والی بحث ہے کہ عورت کے ہاتھ میں کوئی قانونی ہتھیار نہ آئے۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

اگر کوئی شوہر بنا طلاق کے ہی بیوی کو چھوڑ دے، تب کیا؟

اس پہلو میں پدر ی نظام والی بات سامنے آتی ہے۔ طلاق طلاق طلاق کہہ‌کے اس شخص کو مذہب کا سہارا ملتا ہے کیونکہ وہ ایسا کہتا ہے اور قاضی / مولوی اس کو صحیح ٹھہراتے ہیں، کہ اس نے تو کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔ وہ سماج میں پوری عزت سے گھومتا ہے، اس کی دوسری شادی بھی ہو جاتی ہے، سماج-پڑوسی کوئی اس بات کا برا نہیں مانتے۔

لیکن اگر اس نے ایسا نہیں کہا، تو اس کو جو مذہب کی اجازت مل رہی ہے، تحفظ مل رہا ہے، وہ نہیں ملے‌گا۔ بھلےہی غلط وضاحت ک وجہ سے  ہی سہی، پر تین بار طلاق کہہ‌کر بیوی سے پلا چھڑانے کے باوجود وہ عزت دار انسان کے بطور گھوم رہا ہے، کیونکہ جو اس نے کیا وہ تو مذہب کے مطابق ہے۔اگر وہ ایسا کئے بغیر ہی بیوی کو نکال دے‌گا تو وہ بھی ‘ غلط اور گندے ‘ مردوں میں شمار ہوگا۔ تب اس کا یہ عمل سوالوں کے دائرے میں آئے‌گا کہ تم کس طرح کے مسلمان ہو۔

مسلم خواتین کے حقوق پر ہو تفصیلی بات

ان سب قانون کے ساتھ مسلم خواتین کے حقوق کی بات کرتے وقت ان کی تعلیم، اقتصادی آزادی، جائیداد میں ان کے حق پر بھی بات کرنے ضرورت ہے اور بی ایم ایم اے یہ لگاتار کر رہا ہے۔بی ایم ایم اے کے جو پانچ اہم کام کے شعبے ہیں، وہ یہی ہیں-تعلیم، روزگار، صحت، قانونی اصلاح اور پھر تحفظ۔ سات شہروں میں ہمارے کارواں سینٹرز چل رہے ہیں، جہاں پچھلے چار سالوں میں ہم نے قریب ساڑھے نو ہزار خواتین، لڑکیوں اور لڑکوں کو بھی روزگار کے لئے ٹریننگ دی ہے۔ اور ہم صرف خواتین کی بات نہیں کر رہے ہیں، لڑکوں کے روزگار کی بات بھی کر رہے ہیں۔

ہم نے کبھی نہیں کہا کہ صرف تین طلاق ہی مسلم خواتین کا مدعا ہے، بات بس یہ ہے کہ میڈیا کا اٹینشن صرف اسی کو مل رہا ہے، جس میں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ہمارا ایک بڑا مدعا فرقہ وارانہ جانبداری، فرقہ وارانہ تشدد بھی ہے اور ہم نے اس بارے میں صرف بات ہی نہیں کی ہے، زمینی سطح پر کام کیا ہے۔ میں گجرات سے آتی ہوں، میں نے اور ہم میں سے کئی لوگوں نے جان پر کھیل‌کر وہاں کام کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔

اب جو لوگ اس بل کے خلاف سپریم کورٹ جا رہے ہیں، وہ شوق سے جائیں۔ ہمیں اللہ پر بھروسہ ہے اور اس ملک کی جمہوریت / آئین پر۔ کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ہمارے سر-آنکھوں پر۔ آخری بات بس یہی ہے کہ مسلم خواتین کا بہت زیادہ استحصال ہو رہا ہے۔اتنے سالوں میں ہمارے پاس جو عورتیں آئی ہیں، ان میں کوئی ایسی نہیں ہے کہ انتظار میں بیٹھی ہو کہ قانون آ جائے اور بس میں جاکر ایف آئی آر لکھا دوں، میرے شوہر کو جیل کروا دوں۔ ایسے ہزار میں سے کوئی ایک خاتون ہوگی، زیادہ تر خواتین بس یہ چاہتی ہیں کہ مجھے مارا-پیٹا، گھر سے نکال دیا، جہیز کا سامان رکھ لیا، بچّے نہیں دئے، تو کیسے بھی کرکے یہ سب صحیح کروا دو، انصاف دلوا دو۔

میرا ماننا ہے کہ پہلی بار اس خاتون کے ہاتھ میں قانونی ہتھیار آ رہا ہے، جس کا ڈر دکھاکر وہ شوہر کو بول سکتی ہے کہ مجھ سے بات چیت کیجئے، بچّے اور سامان یا جو بھی ہے لوٹائیے ورنہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی ایف آئی آر لکھواؤں‌گی۔اس قانون کو تاریخی کہنے کی یہی وجہ ہے۔ دوسرا یہ خود مسلم خواتین کی تحریک کا نتیجہ ہے۔ سوشل میڈیا کی امیر خواتین جو چاہیں بولیں، زمین پر کام کرنے والی ہر خاتون کے انصاف اور جمہوریت میں بھروسے کا نتیجہ یہ قانون ہے۔

(ذکیہ سومن بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن (بی ایم ایم اے)کی شریک بانی ہیں۔ یہ مضمون میناکشی تیواری سے بات چیت پر مبنی ہے۔)