خبریں

کشمیری پنڈتوں نے کہا؛ اب ہم اپنے آبائی وطن لوٹ سکیں گے

ملک بھر کے کشمیری پنڈتوں نے امید جتائی ہےکہ اس سے حلقے میں امن وامان  قائم ہوگا اور اپنے آبائی وطن کی طرف عزت اور وقار کے ساتھ ان کی واپسی کا راستہ ہموار ہوگا۔

فائل فوٹو :رائٹرس

فائل فوٹو :رائٹرس

نئی دہلی: کشمیر سے 1990 کی دہائی میں ہجرت کرچکےکشمیری پنڈتوں نےکو آئین کے آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کا استقبال کیا ہے۔ انہوں نے امید جتائی کہ اس سے حلقے میں امن کا ماحول قائم ہوگا اور اپنے وطن کی طرف عزت اور وقار کے ساتھ ان کی واپسی کا راستہ ہموار ہوگا۔حکومت نےگزشتہ 5 اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو ہٹا دیا اور ریاست کو دو یونین ٹیری ٹیری ریاستوں جموں و کشمیر اور لداخ میں بانٹنے کی تجویز پیش کی۔

دنیا بھر میں اس کمیونٹی کی نمائندگی کرنے والا ایک ادارہ گلوبل کشمیری پنڈت ڈایسپورا (جی کے پی ڈی)نے ایک بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ ہندوستانی یونین کی علاقائی، سیاسی اور ثقافتی یکجہتی کو مضبوط کرتا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے،’5 اگست، 2019 کا دن ملک کی تاریخ میں ایک ایسے دن کے طور پر درج ہوگا جو پورے ہندوستانی یونین پر قانون سازمجلس کی حاکمیت کی مہر لگاتا ہے۔ ‘

اس میں کہا گیا ہے،’قانون سازمجلس میں وزیر داخلہ امت شاہ کے ذریعے پیش مسودہ بل ہندوستان کے اتحاد اورسالمیت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والے ہمارے عظیم رہنماؤں جیسے شیاما پرساد مکھرجی، دین دیال اپادھیائے، اٹل بہاری واجپائی اور دیگر کے آئیڈیل ازم  کی تصدیق کرتا ہے۔ ‘جموں و کشمیر وِچار منچ کے صدر منوج بھان نے کہا،’آرٹیکل 370 ختم ہونے کے ساتھ ہی حکومت ہند جموں و کشمیر کو ملک کے باقی حصوں کے قریب لانے میں اہل ہوگی۔ ‘

انہوں نے کہا کہ کشمیری پنڈت کمیونٹی کو امید ہے کہ مودی حکومت جلدہی وادی میں ان کی واپسی کے لئے ایک’روڈ میپ’تیار کرے‌گی۔بھان نے کہا،’ہم وادی میں ایک الگ سمجھوتہ چاہتے ہیں جہاں تمام کشمیری پنڈت ایک ساتھ رہ سکیں۔ ” روٹس ان کشمیر ‘ سے امت رینا نے کہا کہ اس فیصلے نے ہندوستانی یونین میں کشمیر کے مکمل اتحاد کو لےکر جتائے جا رہے شک کو دور کرنے کا کام کیا ہے۔

کشمیر کمیٹی دہلی سے سُمیر چانگر نے دعویٰ کیا کہ 1990 کی دہائی میں تقریباً 7.5 لاکھ کشمیری پنڈتوں کو وادی سے بھاگنے کے لئے مجبور کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا،’لاؤڈسپیکروں سے وارننگ دی گئی، کشمیری پنڈتوں کو وادی چھوڑ‌کر بھاگنے کے لئے کہا گیا۔ ان خوفناک راتوں کو بھولنا ناممکن ہےاب، ہم اپنے جڑوں کی طرف لوٹ سکیں‌گے۔ ‘

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے ساتھ ہی کشمیر مدعے کے حل کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ اب تک، سیاسی جماعت اپنے گھٹیا سیاسی فائدہ کے لئے ا س کے اہتمام کا استعمال کرتے رہے ہیں۔

اتر پردیش کے کشمیری پنڈتوں میں جاگی وطن واپسی کی امید

اتر پردیش کے مختلف حصوں میں عرصے سے بسے کشمیری پنڈتوں نے مرکزی حکومت کے ذریعے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے پر جشن منایا۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے ان کو اپنے آبائی وطن لوٹنے کی امید جگی ہے۔کشمیری پنڈتوں کی تنظیم پنُن کشمیر کے سکریٹری سورج کاچرو نے کہا،’مرکزی حکومت کا یہ تاریخی قدم اس وادی میں ایک بار پھر امن قائم ہونے کے لحاظ سے میل کا پتھر ثابت ہوگا، جس سے ہمیں سالوں پہلے جبراً نکال دیا گیا تھا۔ ‘

کاچرو نے کہا،’وادی میں امن قائم کرنے کے لئے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ہٹانے کا قدم آخر اٹھا ہی لیا گیا۔ ہم خوش اور مطمئن ہیں کہ کشمیر وادی میں امن وچین کی واپسی ہوگی اور دنیا کو اصلی کشمیریت کا دیدار ہوگا، جس کے لئے وہ پوری دنیا میں  اس کی شہرت ہے۔ ‘مرکز کے فیصلے کے استقبال میں جشن منا رہے پنن کشمیر کے میڈیا جوائنٹ سکریٹری روندر کوٹرو نے کہا، ‘ ہمیں امید ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اپنے اس وطن لے جا سکیں‌گے، جہاں سے ہمیں اپنا گھر چھوڑ‌کے آنا پڑا تھا۔ ہم یہاں رہ رہے ہیں لیکن دل میں یہ امید ضرور تھی کہ ایک نہ ایک دن ہم اپنے وطن لوٹیں‌گے۔ ‘

مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کو تقریباً پوری طرح سے ختم کرتے ہوئے ریاست کو دو حصوں میں بانٹنے کا فیصلہ لیا ہے۔ اس فیصلے کا استقبال کرتے ہوئے کشمیری پنڈتوں نے نعرے بازی کی اور حکومت کا شکریہ اددکیا۔

مدھیہ پردیش کے کشمیری پنڈتوں نے کہا،’آرٹیکل 370 ہٹنا ہمارے لئے خواب سچ ہونے جیسا ‘

مایا کول کو 1989 کا وہ دن آج بھی اچھی طرح یاد ہے، جب تشدد کی وجہ سے ان کو اپنے شوہر اور دو چھوٹے بچوں کے ساتھ جموں و کشمیر کے بارامولا ضلع سے گھر-بار چھوڑ‌کر روانہ ہونا پڑا تھا۔ کشمیری پنڈت کمیونٹی کی یہ خاتون جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے کی مرکزی حکومت کے فیصلے کے بعد خوشی سے پھولی نہیں سما رہی ہیں۔مایا، مشہور فلم اداکار مانو کول کی ماں ہیں۔ انہوں نےکہا،’میں آپ کو کیسے بتاؤں کہ آج میں کتنی خوش ہوں۔ حالانکہ، مجھے خوش کے ساتھ حیرانی بھی ہو رہی ہے کہ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 آخر کس طرح ہٹ گیا؟ ‘

کول نے بتایا،’جیسے ہی مجھے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹنے کی خبر ملی، میری آنکھوں کے سامنے 1989 کی ساری وارداتیں گھوم گئیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ تب تشدد کی وجہ سے مجھے اپنے شوہر اور دو چھوٹے بچوں کے ساتھ صرف ایک سوٹ کیس کے ساتھ بارامولا ضلع کا ہمارا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔ ہماری فیملی جموں و کشمیر چھوڑ‌کے مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد میں بس گئی تھی۔ ‘انہوں نے کہا،’اب جموں و کشمیر کے دروازے عوام کے لئے کھل گئے ہیں، بھلےہی وہ کسی بھی کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہو۔ ‘

اس بیچ، کشمیری پنڈت کمیونٹی کے دیگر لوگوں نے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹنے پر یہاں آتش بازی کر جشن منایا۔مقامی تنظیم ‘ کشمیری کمیٹی ‘ کے صدر ویریندر کول نے کہا، ‘ مرکزی حکومت نے حالات سے نمٹنے کی پختہ تیاری کے ساتھ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹاکر بہت اچھا قدم اٹھایا ہے۔ ہم لوگوں نے تو ایسے کسی قدم کا سہارا ہی چھوڑ دیا تھا۔ ‘

کول یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں،’1990 میں پلواما ضلع میں ہمارے پشتینی مکان کو تقریباً 2500 لوگوں کی بھیڑ نے جلاکر خاک کر دیا تھا۔ جان کی سلامتی کے لئے میری فیملی کو اپنا آبائی وطن راتوں رات چھوڑنا پڑا تھا۔ تب میں 10ویں میں پڑھتا تھا۔ ‘اندور میں بسے کشمیری پنڈتوں نے جشن کے دوران یہ امید بھی جتائی کہ آرٹیکل 370 ہٹنے کے بعد جموں و کشمیر میں ان کی کمیونٹی کے لوگوں کی واپسی کی راہ آسان ہو سکے‌گی۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)