خبریں

آرٹیکل 370 ہمارا اندرونی معاملہ، سفارتی چینل بنائے رکھنے پر پھر غور کرے پاکستان: ہندوستان

پاکستان کے ذریعے آرٹیکل 370 میں ہوئی تبدیلیوں کے بعد ہندوستان کے ساتھ سفارتی تعلقات محدودکرنےپر ہندوستانی وزارت خارجہ نے کہا کہ ہندوستان کا آئین ہمیشہ سے خودمختار معاملہ رہا ہے اور آگے بھی رہے‌گا، پاکستان کو اپنے اقدام کا تجزیہ کرنا چاہیے۔

ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان (السٹریشن: دی وائر)

ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان (السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: وزارت خارجہ نے پاکستان کی طرف سے ہندوستان کی سفارتی سطح میں کٹوتی کرنے سمیت دیگر اقدام کو دنیا کے سامنے دو طرفہ تعلقات کی تشویشناک تصویر پیش کرنے کی کوشش قرار دیا۔ساتھ ہی وزارت نے کہا کہ آرٹیکل 370 سے جڑا، حال کا مکمل واقعہ پوری طرح سے ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے۔

وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ہندوستان کا آئین ہمیشہ سے خود مختار معاملہ رہا ہے اور آگے بھی رہے‌گا۔ اس کے دائرہ اختیار میں مداخلت کرکے خطے کی تشویشناک تصویر پیش کرنے کی چال کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔وزارت نے کہا،’حکومت ہند کل پاکستان کے ذریعے اعلان کردہ اقدام کی مذمت کرتی ہے اور اس ملک سے اس کا تجزیہ کرنے کو کہتی ہے تاکہ عام سفارتی چینل کو بنائے رکھا جا سکے۔ ‘

وزارت خارجہ نے کہا کہ ہم نے ان خبروں کو دیکھا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو لےکے کچھ یکطرفہ فیصلہ کیا ہے۔ اس میں ہمارے سفارتی تعلقات کی سطح میں کٹوتی کرنا شامل ہے۔وزارت نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے ان اقدام کا مقصد واضح طور پر دنیا کے سامنے ہمارے دو طرفہ تعلقات کو لےکرتشویشناک تصویر پیش کرنا ہے۔ پاکستان نے جو وجہ بتائے ہیں، وہ زمینی حقائق کے ساتھ میل نہیں کھاتے۔

وزارت خارجہ نے کہا کہ حکومت اور ملک کی قانون سازمجلس کے ذریعے حال میں لئے گئے فیصلے جموں و کشمیر میں ترقی کے لئے مواقع پیدا کرنے کے عزم سے جڑے ہیں جن میں پہلے آئین کا ایک عارضی اہتمام آڑے آ رہا تھا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ اس فیصلے کے مدنظر جنسی، سماجی، اقتصادی جانبداری کو دور کیا جا سکے‌گا اور جموں و کشمیر کے تمام لوگوں کے ذریعہ معاش کے امکانات کو بہتر بنایا جا سکے‌گا۔

وزارت نے کہا کہ اس میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ جموں و کشمیر سے جڑے ایسے واقعے کو پاکستان میں منفی نظریے سے دیکھا جاتا ہے اور ان جذبات کا استعمال سرحدپار سے جاری دہشت گردی کو مناسب ٹھہرانے کے لئے کیا جاتا ہے۔غور طلب ہے کہ ہندوستان کے ساتھ دو طرفہ سفارتی تعلقات کو محدود کرنے کا فیصلہ کرنے کے کچھ ہی دیر بعد بدھ کو پاکستان نے کشمیر مدعے کو لےکر ہندوستانی ہائی کمشنر اجئے بساریا کو برخاست کر دیا تھا۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ ہم ہندوستانی سفیر کو واپس بھیج رہے ہیں اور اپنے سفیر کو دہلی سے واپس بلائیں‌گے۔ ساتھ ہی ایک سرکاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان ہندوستان کے ساتھ سفارتی تعلقات میں بڑھتی تلخی کے درمیان دو طرفہ کاروبار پر روک لگائے‌گا۔پاکستان نے یہ قدم وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں ہوئی قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اجلاس کے بعد اٹھایا ہے، جس میں ہندوستان کے ساتھ تجارتی رشتوں کو توڑنے اور ‘ دو طرفہ تعلقات ‘ کے تجزیہ کا بھی فیصلہ لیا گیا تھا۔

غور طلب ہے کہ حکومت ہند نے اس ہفتے جموں و کشمیر کو دو یونین ٹیریٹری ریاستوں-جموں و کشمیر اور لدّاخ-کے طور پر منقسم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ساتھ ہی جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو بھی ختم کیا ہے۔پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ہندوستان کے اس فیصلے کے بعد منگل کو قانون سازمجلس کے مشترکہ اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جموں و کشمیر کے خصوصی درجہ ختم ہونے پر پلواما جیسا حملہ دوبارہ ہو سکتا ہے۔

دریں اثناامریکی رکن پارلیامان نے پاکستان سے ہندوستان کے خلاف بدلے کی کسی کارروائی سے بچنے کی گزارش کی ہے۔امریکہ کے دو متاثر کن ڈیموکریٹک رکن پارلیامان نے پاکستان سے ہندوستان کے خلاف ‘ بدلے کی کوئی بھی کارروائی ‘ کرنے سے بچنے اور اپنے ملک میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف ‘ ٹھوس کارروائی ‘ کرنے کی گزارش کی ہے۔

سینیٹر رابرٹ مینیندیج اور کانگریس ممبر ایلیٹ اینجیل نے بدھ کو ایک مشترکہ بیان میں جموں و کشمیر میں پابندیوں پر تشویش کا بھی اظہار کیا۔انہوں نے بیان میں کہا،’پاکستان کو لائن آف کنٹرول پر دراندازی کرانے میں مدد سمیت کسی بھی طرح کے بدلے کی کارروائی سے بچنا چاہیے اور پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرنی چاہیے۔ ‘

جموں و کشمیر میں نظربندی اور پابندیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے رکن پارلیامان نے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ناطے ہندوستان کے پاس اپنے تمام شہریوں کو اسمبلی کی آزادی، اطلاع تک رسائی اور قانون کے تحت یکساں تحفظ سمیت یکساں حقوق کی حفاظت کرنا اور ان کی تشہیر کرنے کی اہمیت کو دکھانے کا موقع ہے۔انہوں نے کہا،’شفافیت اور سیاسی شراکت داری نمائندہ جمہوریت کی بنیاد ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت ہند جموں و کشمیر میں ان اصولوں پر عمل کرے‌گی۔ ‘

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)