فکر و نظر

ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا آر ایس ایس کا خواب پورا ہونے والا ہے

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا سالوں سے سنجویا گیا ہندو راشٹر کا خواب پورا ہونے کے بہت قریب ہے، جس کے جشن میں اب ہندوستانی آبادی کا ایک بڑا حصہ بھی شامل ہے۔

دفعہ 370 ختم ہونے کے بعد امرتسر میں جشن مناتے بی جے پی کارکن (فوٹو : پی ٹی آئی)

دفعہ 370 ختم ہونے کے بعد امرتسر میں جشن مناتے بی جے پی کارکن (فوٹو : پی ٹی آئی)

یہ ہندوستان کی آئینی تاریخ کا سب سے خراب دن ہے، جس کا نتیجہ ملک کی تقسیم کے طور پر نکل سکتا ہے۔کانگریسی رہنما، وکیل اور سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کے ان سخت الفاظ کو ڈراؤنی پیشن گوئی کہا جا سکتا ہے۔لیکن آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد، جس سے اصل میں جموں و کشمیر کا درجہ بدل گیا ہے اور ریاست کی تنظیم نو کے بعد، جو ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں بدل دے‌گا، ملک کی دوسری ریاستوں کے درجے پر بھی سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔ اصل میں ریاستوں کے یونین کے طور پر ہندوستان کے بنیادی اصولوں کی جڑیں ہل گئی ہیں۔

اس کام کو جس طرح سے انجام دیا گیا-حفاظتی دستوں کی تعداد بڑھاکر، حزب مخالف کے رہنماؤں کو گرفتار کرکے، جن میں دو سابق وزیراعلیٰ بھی شامل ہیں، اور کمیونیکیشن کے تمام ذرائع کو بند کرکے-وہ دکھاتا ہے کہ بی جے پی کی حکومت اپنی مرضی چلانے کے لئے تمام دستیاب ہتھکنڈوں کا استعمال کرنے سے نہیں چوکے‌گی۔ اور رائےعامہ یا سیاسی رائے چاہے جو بھی ہو، اس کے راستے میں نہیں آئے‌گا۔

یہ بی جے پی کے لئے اپنے سبھی من پسند منصوبوں پر آگے بڑھنے کے لئے مفید وقت ہے۔ اس کو اب نہ کوئی روکنے والا ہے اور نہ اس کو کسی طرف سے کوئی چیلنج ملنے کا ڈر ہے۔ایودھیا میں رام مندر، یونیفارم سول کوڈ، آئین میں تبدیلی، مسلمانوں کو ادارہ جاتی طور پر حاشیے پر ڈالنا اور بھی کئی مدعے اس کے دل کے قریب رہے ہیں۔ آرٹیکل 370 کو ہٹانا سنگھ پریوار کا لمبے عرصے سے سنجویا ہوا خواب تھا، جس کو آخر کار سچ کر لیا گیا۔

کسی بھی مخالفت کو برداشت نہیں کیا جائے‌گی اور کسی بھی چھوٹی موٹی قانونی یا آئینی پیچیدگی کو آڑے نہیں آنے دیا جائے‌گا۔ جہاں تک مینڈیٹ کا یا سیدھے طور پر متاثر ہونے والی عوام کا سوال ہے-تو وہ ہوتے کون ہیں، جب ملک نے حکومت کو بھاری اکثریت دی ہے؟بڑی تعداد میں عوامی حمایت ملنے کی حقیقت کا استعمال بی جے پی اور اس کے حامیوں کے ذریعے ہر وقت ہر فیصلے کو جائز ٹھہرانے کے لئے کیا جا رہا ہے-بھلےہی ان پر کتنے ہی سوالیہ نشان کیوں نہ لگے ہوں۔

 لیکن حکومت کو-اور کسی بھی حکومت کو-چیلنج ضرور کیا جاناچاہیے اور اس سے سوال پوچھا جانا چاہیے ؛ عوام کے تئیں جوابدہی جمہوریت کی بنیادی خاصیت ہے جس کی فکر بی جے پی کو رتی بھر بھی نہیں ہے۔بھلے معاملہ آر ٹی آئی سوالوں کا جواب دینے کا ہو، یا پریس کانفرنس کرنے سے انکار کرنے کا ہو، یا جیسا کہ ہم نے حال ہی میں وزارت خزانہ کے معاملے میں دیکھا،رپورٹرس  کو سوال پوچھنے سے روکنے کا ہو، حکومت کو ہر اس چیز سے دقت ہے، جو اس کی ذمہ داری طے کرتی ہے۔

اپنی پہلی مدت کار میں مودی حکومت متنازعہ فیصلے لیتے وقت تھوڑی ہچک یا پس و پیش کا مظاہرہ کرتی تھی۔ حالانکہ کوئی احساس جرم یا افسوس یا کوئی صفائی نہیں دی جاتی تھی، لیکن یہ صاف تھا کہ دوسری سیاسی جماعتوں یا تنقید کرنے والوں کے ذریعے کی جانے والی تنقید یا اصل میں متاثر ہونے والے لوگوں کی بدحواسی سے تھوڑا سا فرق پڑتا تھا۔

راہل گاندھی کے سوٹ بوٹ کی سرکار والے طنز نے مودی کو اتنا پریشان کیا کہ انہوں نے اچانک اپنی اقتصادی پالیسیوں کی سمت بدل دی۔ وہیں جی ایس ٹی میں کی گئی کئی تبدیلی کاروباریوں کے ذریعے مسلسل طریقے سے کی جانے والی شکایتوں کا نتیجہ تھی۔کسی قدم کے لئے کبھی کوئی معافی نہیں مانگی گئی، لیکن یہ صاف تھا کہ رائےعامہ اہمیت رکھتی تھی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔قوانین کو جلدبازی میں پیش کیا جا رہا ہے اور حزب مخالف کو یا تو ملا لیا گیا ہے یا اس کو ان دیکھا کیا جا رہا ہے۔ کچھ معاملوں میں کانگریس سمیت حزب مخالف پارٹیوں نے بی جے پی کے ذریعے جلدبازی میں بےحد اہم بلوں کو لائے جانے اور ان کو منظور کئے جانے کی حمایت کی ہے۔

ہمیں معلوم ہواس سے پہلے، پارلیامنٹ نے ایسے قانون نافذ کر دئے ہیں، جنہوں نے اقتدار کو ہماری زندگی پرکنٹرول  کرنے والی غیر متوقع طاقتیں دے دی ہیں-کسی کو بھی کسی بھی وقت دہشت گرد قرار دیاجا سکتا ہے اور بغیر مقدمہ چلائے اس کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ آر ٹی آئی میں  ترمیم کرکے اس کو غیرمؤثر بنا دیا گیا ہے۔

مخالفت میں اٹھنے والی چند آوازیں فیصلہ لینے کے عمل کو متاثر کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ کس کو یہ پتا ہے یا کس کو اس سے فرق پڑتا ہے کہ سابق انفارمیشن کمشنر نے آر ٹی آئی کو کمزور کرنے کے خطروں کے تئیں آگاہ کیا ہے؟ اس سے حکومت کے ارادوں میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی ہے۔یہ دیکھتے ہوئے کہ حکومت کے پاس پارلیامنٹ میں اچھی خاصی اکثریت ہے اور اس کے پاس کرنے کے لئے کئی اہم کام ہیں، سوال ہے کہ آخر حکومت کو اتنی جلدبازی کس بات کی ہے؟

یقینی طور پر ابھی سب سے پہلی ترجیح معیشت کو پٹری پر لانے کی ہونی چاہیے تھی، جو فی الحال برے دور سے گزر رہی ہے۔ نئی نوکریاں تیار ہونے کی جگہ نوکریاں جا رہی ہیں اور کنزیومر ڈیمانڈ اپنے سب سے نچلی سطح پر ہے ؛ کیا حکومت کے لئے یہ تشویش کا سبب نہیں ہونا چاہیے؟اکانومی کی اپنی اہمیت ہے، لیکن بی جے پی کے لئے اور اس کے رہنما راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے لئے-ا س کا سالوں پرانا ایجنڈہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

 سنگھ پریوار کا ایک خواب ہے اور اس نے اس کو پورا کرنے کے لئے دہائیوں  سے محنت کی ہے۔ اس کو جب بھی موقع ملا ہے، یہ اپنے ہدف کی طرف بڑھنے سے نہیں چوکا ہے۔جن سنگھ کے طور پر یہ جئے پرکاش نارائن کی تحریک میں شامل ہوا، جنتا پارٹی کا حصہ بنا۔ اس نے وی پی سنگھ کی کم مدت تک چلی حکومت کی بیساکھی بننے سے بھی گریز نہیں کیا-یہ سب اقتدار کے قریب پہنچنے کے منصوبہ بند اقدام تھے۔

ایک وقت میں آر ایس ایس پر پابندی لگی ہوئی تھی اور ایمرجنسی کے دوران اس کے رہنما جیل میں تھے اور بی جے پی دو سیٹوں پر سمٹ گئی تھی، لیکن اس کے مقاصد یا ہدف میں کبھی تبدیلی نہیں آئی۔ واجپئی حکومت کے وقت میں یہ اثر ڈالنے کی حالت میں تھا، لیکن اتحاد کی حکومت ہونے کی وجہ سے اس کے کئی ہدف پورے نہیں ہو پائے۔

اب جبکہ مودی کی حکومت ہے، سنگھ پریوار اپنے آخری اور سب سے چہیتے ہدف-ہندوراشٹر، کو پورا کرنے کے قریب ہے۔ حکومت کا ہر قدم اس کو اس ہدف کے اور قریب لا رہا ہے۔ ہندو بھارت کو ہندوستان کے آئین میں شامل کرنا ہے اور اس کو ایک منتخب حکومت کے ذریعے جواز عطا کرنا ہے ؛ اس سے کچھ بھی کم پر آر ایس ایس مطمئن  نہیں ہونے والا ہے۔

اگر آئین اس کی اجازت نہیں دیتا ہے، تو اس کو بدلا جا سکتا ہے، لیکن اس پر اس کی منظوری کی مہر ضروری ہے۔ اس کے بعد آر ایس ایس یہ فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ یہ لوگوں کی خواہش ہے۔ سنگھ پریوار اس مقام تک جلدی سے جلدی پہنچنا چاہے‌گا۔2022 میں ہندوستان کی آزادی کی 75ویں سالگرہ یا 2025 میں آر ایس ایس کی صد سالہ کو اس لحاظ سے یاد کرکے رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن نریندر مودی اور امت شاہ اتنا انتظار کرنا شاید ہی پسند کریں۔ آپ کو پتا ہی ہے کہ وہ تیزی سے فیصلے لینے والے لوگ ہیں۔

اور بھلےہی ہندوستان میں کئی لوگ اس واقعہ سے غم زدہ ہیں-جیسا کہ بابری مسجد کو گرائے جانے کے وقت تھے-لیکن کسی کو بھی کسی قسم کی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔اس قدم کو بڑی تعداد میں لوگوں کی حمایت حاصل ہے جن کے پاس طاقت ہے، خصوصی اختیارات ہے اور جو اپنی آواز کو سب کو سنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یہ اجازت صرف ٹرول آرمی یا بھکتوں کی طرف سے یا بکے ہوئے میڈیا کی طرف سے نہیں آ رہی ہے-عموماً کافی سمجھدار نظر آنے والے لوگ بھی یہ سب کئے جانے سے خوش ہیں۔

ٹھیک ویسے ہی جیسے وہ ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دیے جانے کے وقت خوش ہوں‌گے۔ یہ اب صرف سنگھ پریوار کا خواب نہیں رہ گیا ہے۔