فکر و نظر

آپ کشمیریوں کو آنکھ دکھا سکتے ہیں، ان کی آنکھوں میں دیکھ‌ کر بات کرنے کی ہمت کہاں سے لائیں گے…

جن پر فیصلے کا اثر ہونے والا ہو، ان کو اندھیرے میں رکھ‌کر لیا گیا کوئی بھی فیصلہ کسی بھی طرح سے ان کے حق میں نہیں ہو سکتا۔

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

5 اگست کشمیر کا رالٹ ایکٹ لمحہ ہے۔ ہندوستان کے لئے وہ کیا ہے، یہ ابھی ہمیں ٹھیک ٹھیک نہیں معلوم۔ لیکن اگر آپ سیاستدانوں سے لےکرعوام کے رد عمل پر دھیان دیں تو 5 اگست نے پھر ہندوستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔یہ کہنا برا لگ سکتا ہے لیکن 5 اور 6 اگست کو ہندوستان کی قانون سازمجلس نے کشمیر کا خصوصی درجہ چھین‌کر اور اس کے ٹکڑے کرنے کا جو فیصلہ کیا اس کے لیے خوشیاں مناتے ہوئے جو دکھلائی پڑ رہے ہیں، وہ کیا اتفاقاً ہی ہندو ہیں اور اصل میں ہندوستانی ہیں؟

اس راشٹروادی جشن میں کیوں اس ملک کا بڑا طبقہ شامل نہیں ہو پا رہا؟ وہ صرف مسلمان نہیں ہے۔ عیسائی، سکھ، پارسی ان میں سے کسی کو اس جشن میں شامل ہونے کا کوئی جوش نہیں۔ منی پور، ناگالینڈ کے لوگ اس فیصلے میں اپنی زمین پر بھی ہندوستانی فوجی بوٹ کی دھمک سن رہے ہوں، تو تعجب نہیں!کشمیر کی مانگ اور خودمختاری کی تھی۔ اس پر غور کرنے کی جگہ اس کو سیدھے یونین ٹیریٹری ریاست میں بدل‌کر دہلی کے سیدھے اختیار میں لے آنے سے کشمیری عوام کو گہرا نفسیاتی صدمہ لگا ہے۔

اس کے رد عمل کے خدشہ سے ہی ہندوستان کی حکومت نے کشمیر پر تالا لگا دیا۔ اس کے سبھی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایسا کوئی بھی حکومت کب کرتی ہے؟ جب وہ عوام کا سامنا نہیں کر سکتی۔جن پر اس کا اثر ہونے والا ہو، ان کو اندھیرے میں رکھ‌کر لیا گیا کوئی بھی فیصلہ کسی بھی دلیل سے ان کے حق میں نہیں ہو سکتا۔ اپنی فوجی طاقت کے بل پر سرپرست بن جانا آپ کے دعویٰ کو کسی بھی طرح جائز نہیں بنا سکتا۔

یہ دلیل صرف گاندھی کی نہیں، ہر آزادی کے حامی کا ہے کہ آپ میری پیٹھ پر سوار ہوکر میرے دوست اور خیر خواہ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ میرے اوپر قابض ہونے کا حق آپ کو کسی نے نہیں دیا اور اس کو میں قبول نہیں کر سکتا۔جو کشمیر میں دہشت گردی کے خلاف ہیں، ان میں سے کئی گاندھی کے عدم تشدد کے بھی خلاف ہیں۔ اگر وہ کُھدی رام بوس، چندرشیکھر آزاد کے تشدد آمیز جدو جہد کے طریقے کو مناسب مانتے ہیں تو اس پر بھی دھیان دیں کہ ان میں سے ہرایک کو معلوم تھا کہ وہ برٹش حکومت کی طاقت سے شاید جیت نہ سکیں۔ لیکن جیت نہ ہوگی، اس سبب انہوں نے اپنے جدو جہد کو چھوڑ نہیں دیا۔

آزادی کا خیال کامیابی کی یقین دہانی سے جواز حاصل نہیں کرتا۔ اس سے بھی نہیں کہ اس سے دنیاوی خوشحالی کا راستہ کھلتا ہے۔ آزادی کے خیال کے جواز کا ذریعہ خود اسی میں ہے، اس کے باہر کہیں نہیں۔کشمیری آزاد رہنا چاہتے ہیں، کیا یہ بات اتنی اٹپٹی ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آ رہی؟ لیکن ان کی خودمختاری کی توقع کیوں ہمارے معمارِ قوم کو فطری لگی تھی؟کیوں گاندھی، پٹیل، نہرو وغیرہ ان کے حقِ خودمختاری کو واجب مانتے تھے؟ کیوں ہمیں وہ خواہش غیرمنصفانہ لگتی ہے؟

کشمیر کی آزادی کے اس جذبہ پر بات کرنا ہندوستان میں خطرہ سے خالی نہیں۔ دلیل دی جاتی ہے کہ ہندوستان میں رہ‌کر پڑھتے، نوکری اور کاروبار کرتے ہوئے اپنی آزادی کی بات کشمیری کیسے کر سکتے ہیں؟ایسا کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ ساورکر، شیام جی کرشن ورما لندن میں رہ‌کر انگریزی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کا منصوبہ بنا رہے تھے۔جو کہتے ہیں کہ کشمیر کے لوگ ہندوستان کی پولیس، سرکاری نوکری میں کیوں ہیں اگر وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں، وہ برٹش ہندوستان کی پولیس، فوج اور اس کے سرکاری نظام میں ہندوستانیوں کی تعداد کو بھول جاتے ہیں۔

آخر کتنے فیصد ہندوستانی فعال  ہوکرآزادی کی مہم میں شریک ہوئے تھے؟ تو کیا ہندوستان کی آزادی کا خیال اس وجہ سے غلط تھا؟برطانیہ میں ایسے انگریز بھی تھے، جو ہندوستان کی آزادی کے وکیل تھے۔ ہندوستان میں انگریزی حکومت کی مخالفت کرنے کے لئے برطانیہ میں خاصی اخلاقی جرأت چاہیے تھی۔ وہ مقبول نہیں تھا۔ لیکن کیا اس سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ وہی مناسب اور اخلاقی تھا؟برٹن کی عوام کے لئے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ ہندوستان کو کیوں آزاد ہونا چاہیے لیکن کیا اس رائےعامہ کی وجہ سے ہندوستان کی آزادی کی توقع غلط تھی؟

بہار، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور راجستھان کے لوگوں کو بھارتیہ راشٹر کا خیال ابدی اور فطری لگتا ہے۔ وہ اتنا ہی فطری نہ صرف منی پور، میزورم، ناگالینڈ، تریپورہ، میگھالیہ کے لئے تھا، بلکہ پنجاب، تمل ناڈو جیسی ریاستوں کے لئے بھی نہیں تھا۔ سارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے آدیواسیوں کے لئے بھی یہ ملک اجنبی سا ہی تھا۔اگر امبیڈکر اور گاندھی کی بحث کو یاد کر لیں تو سمجھ سکیں‌گے کہ دلتوں کے لئے بھی اس ملک سے انس آسان نہ تھا۔ راشٹر کے اس خیال کو ان ساری آبادیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا تھا، ان کو مدعو کرنا تھا کہ وہ ان کو گھر جیسا اطمینان دے سکے۔

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

پچھلے 70 سالوں کے ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ بھارتیہ راشٹر کا مطلب ان میں سے سب کے لئے کبھی بھی ایک جیسا نہ تھا۔ اس وجہ سے ہندوستان کا ان سے تشدد بھی ہوتا رہا ہے۔ ہندوستان اگر طاقت ور ثابت ہوا کئی بار تو صرف اس لئے نہیں کہ وہ اعلیٰ خیال تھا بلکہ اس لئے کہ اس کے پاس ریاست کی تشدد آمیز طاقت تھی۔ریاست کے ذریعے تشدد کے استعمال کو جائز مانا جاتا ہے اور جو ریاست ایسا کرتے ہیں ان کو عالمی حمایت ہی ملتی ہے۔ عوام کے خلاف تشدد کے استعمال کو اندرونی معاملہ کہہ‌کر عالمی کمیونٹی پلہ جھاڑ لیتی ہے۔

اس طرح چین ویگر مسلمانوں کے چینی-کاری کے جس بےرحم مہم میں لگا ہے، اس پر کسی بھی مہذب ملک کی حکومت اس سے کوئی سوال نہیں کرتی، لیکن اس وجہ سے چین صحیح ثابت نہیں ہوتا۔ہندوستان کے خیال میں ایک اخلاقی قوت تھی۔ وہ اس سبب کہ وہ ہر طرح کی آبادی کو اپنے طریقے سے، اپنی چنی ہوئی پہچان کے ساتھ رہنے کا یقین دہانی دیتا تھا۔ تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، آواز ہر کسی کی سنی جائے‌گی، یہ بھروسہ تھا۔ اسی وجہ سے اپنے ساتھ ہی کھڑے ہوئے پاکستان کے مقابلے وہ زیادہ قابل اعتماد تھا۔ اس میں صرف تنوع نہیں، جانبداری کی ممانعت بھی تھی۔

اسی وجہ کئی آبادیوں کو، جن کو اس کا ڈر تھا کہ ان کی پہچان اس ملک میں شامل ہوتے ہی مٹ جائے‌گی، یقین دلایا گیا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اسٹالن یوکرین یا دوسرے علاقوں کی روسی-کاری کر رہا تھا۔ فلسطین میں یہودیوں کے ذریعے زمین لینے کے بعد میں وہاں کے باشندوں کو بھگا دینے کا واقعہ سامنے تھا۔اس کی کیا گارنٹی تھی کہ ہندوستان ہر آبادی پر ایک پرچم اور ایک قانون کے نام پر ہندی بولنے والے شمالی ہند اور وہ بھی ‘ اشرافیہ ہندو ‘ کی نشانیوں کو نہیں تھوپے‌گا؟ کیا گارنٹی تھی کہ قبائلی علاقوں اور منی پور، ہماچل پردیش، ناگالینڈ وغیرہ کی خاص پہچان مٹا نہیں دی جائے‌گی؟

ہندوستانی قوم پرستی کا مقصد اخلاقی طور پر راشٹر کے مغربی تصور سے بہتر ہونے کی تھی۔ کیا وہ کسی ایک کمیونٹی کی خود غرضی کی تنظیم محض بن‌کررہ جائے‌گی؟ٹیگور کے اس سوال کے جواب میں آئین نے یہ تصور پیش کیا کہ یہ متفرق کمیونٹی کا دوستانہ شریک کار ہوگا جو ساتھ مل‌کر آزادی، مساوات اور انصاف حاصل کرنے کا سفر طے کریں‌گے۔ اس ارادے میں اس کو منظوری  تھی کہ امتیازی سلوک ہے، عدم مساوات ہے، ناانصافی ہے اور بھائی چارہ ایک ہدف ہے۔ اس سفر میں ہی بھائی چارہ بھی رچا جائے‌گا۔

جیسا دیکھا گیا، یہ اتنا رومانی نہیں رہا۔ ہندوستان کی کہانی لہولہان ہے۔ جانے کتنوں کا خون بہایا گیا جس سے اس ملک کا خیال سرخرو ہو۔کشمیر سے ہندوستان کا رشتہ اسی تناظر میں سمجھا جانا چاہیے۔ یہ ہندوستان کی واحد ریاست تھی جس میں مسلمان کی سیاسی آواز کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ ہندوستان کے اور کسی حصے میں نہ تھا۔ ساتھ ہی اس کی اپنی ثقافتی شناخت تھی۔ اس کو توڑنے کا صرف ایک مقصد ہے، اس آواز کو بے اثر کر دینا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست ہندوستان کے کسی حصے میں مسلمان کے اثر کو برداشت نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے آسام کے ہندوؤں کو یہ کہہ‌کر ڈرانے کی کوشش کی کہ اگر اس کو ووٹ نہ دیا تو بدرالدین اجمل وزیراعلیٰ بن جائیں‌گے۔ یا اسی وجہ اس نے گجرات میں ہندوؤں کو کہا کہ کانگریس کو ووٹ دینے کا مطلب ہے احمد پٹیل کا وزیراعلیٰ بن جانا۔کسی نے نہیں پوچھا کہ کیوں ان دونوں کا وزیراعلیٰ بننا ڈر کی وجہ ہونی چاہیے۔ دوسری پارٹیاں بھی یہی کہنے لگیں کہ یہ بی جے پی کا پروپیگنڈہ ہے۔ ہندوستان کے کسی حصے میں مسلمان رنگ اہم نہیں ہو سکتا، اس کو ہمیشہ دوئم رہنا ہوگا، یہ بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا ہے۔

اس میں آخری رکاوٹ کشمیر ہی تھا۔ اس کو ختم کرنا بی جے پی کے سیاسی نظریے کے لئے ضروری تھا۔ اس کا بھارتیہ راشٹر کے ادھورا پن کو دور کرنے سے کوئی رشتہ نہیں۔جموں و کشمیر کو توڑنے کے فیصلے پر جس طرح کا رد عمل ملک میں ہوا، اس نے کشمیر کے لوگوں کو ہندوستان سے آخری طور پر دور کر دیا ہے۔ جو نفرت ہندوستان کے ہندتووادیوں میں کشمیری مسلمانوں کے خلاف تھی، وہ اپنی پوری فحاشی اور تشدد کے ساتھ ان کے من‌کے نالے سے ابل-ابل‌کر سماج کی سطح پر بہہ رہی ہے۔ اس کو کشمیری جھیل رہے ہیں۔

کشمیر میں جاکر مکان خریدنے، اپنی بےروزگاری دور کرنے اور کشمیری لڑکیوں سے شادی کرنے کا ارادہ پورے ہندوستان کے الگ الگ گوشے سے ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پرانی مسلمان مخالف نفرت کو نیا موقع مل گیا ہے ننگا رقص کرنے کا۔آخر اور کسی نے نہیں، بہار کے نائب وزیر اعلیٰ نے صاف بیان دیا ہے کہ قانون سازمجلس کے فیصلے سے بہار کے لوگوں کو کشمیر میں روزگار کرنے کا راستہ کھل گیا ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے، یہ فیصلہ کشمیر کے لوگوں کے لئے تھا ہی نہیں، یہ اس کو باقی ہندوستان کے لوگوں کے ذریعے لوٹے جانے کے لئے تھا۔

یہ ان کو ہندوستانیوں کے برابر حق دینے کے لئے نہیں، ان پر اپنا قبضہ پورا کرنے کے لئے تھا۔ کشمیر کے لوگوں کی آزادی کی مانگ کو ہندوستانی قانون سازمجلس نے اپنے قدم سے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں نے اپنے رد عمل سے جائز بنا دیا ہے۔ کل تک اگر وہاں ہندوستان کے حامی اگر تھے بھی، تو اب ان کے لئے کوئی جگہ نہیں بچی۔یہ کیا ہے بھارتیہ جنتا پارٹی نے۔ اس کو اس کے حامی نہیں سمجھ پا رہے ہیں تو ان کا جرم نہیں۔ لیکن باقی سیاسی جماعتوں نے جو کیا ہے، اس سے بھی کشمیر میں یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ ان کے لئے کوئی ہمدردی ہندوستان کے سیاسی طبقے میں نہیں ہے۔ اس لئے اب ان کو کسی پر بھروسہ نہیں کرنا ہوگا۔

کشمیر اب پوری طرح ہندوستان سے الگ کر دیا گیا ہے۔ کشمیر کا مطلب کشمیری عوام۔ آپ ان کی زمین پر زبردستی قبضہ کر چکے ہیں لیکن ان کا دل اب آپ سے پوری طرح کٹ چکا ہے۔ آپ اس لمحہ فاتح ہیں، ان کو آنکھ دکھا سکتے ہیں، لیکن آپ میں ان کی آنکھ میں آنکھ ڈال‌کر بات کرنے کی ہمت اب نہیں رہی۔

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)