خبریں

کشمیر میں فون کرنے کے لئے لمبی قطاریں، دو گھنٹے انتظار کے بعد دو منٹ کی بات

فون اور انٹرنیٹ خدمات بند کئے جانے کے ایک ہفتے سے زیادہ وقت بیت جانے کے بعد لوگوں میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ کچھ افسر یہ قبول‌کر رہے ہیں کہ فون لائنوں کے بند رہنے سے معمولات  بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں ۔

)فائل فوٹو : رائٹرس(

)فائل فوٹو : رائٹرس(

نئی دہلی: کشمیر میں فون پر صرف دو منٹ بات کرنے کے لئے لوگ تقریباً دو گھنٹے تک قطار میں انتظار کر رہے ہیں۔ یہاں ڈپٹی کمشنر (ڈی سی)دفتر کے باہر قطار میں لگے کئی کشمیری کو ان دنوں اس صورت حال  کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔وہ وادی سے باہر اپنی فیملی کے ممبروں اور دیگر لوگوں سے بات کرنے کے لئے بڑی بے چینی سے اپنی باری کا انتظار کرتے دکھ رہے ہیں۔ اپنی خوشی اور غم کو شیئر کرنے کے لئے ان کے پاس کئی ساری باتیں ہیں۔ عجلت میں سب کچھ بیان  کرنے کی کوشش  کے باوجود یہ مختصر لمحہ کئی بار ان کے لئے کم پڑ جاتا ہے۔جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم  کرنے اور ریاست کو دویونین ٹیریٹری  ریاستوں جموں و کشمیر اور لداخ، میں تقسیم  کرنے کے مرکز کے اعلان کے مدنظر 5 اگست سویرے سے کشمیر وادی میں مواصلاتی  نظام بند ہے۔ کیبل نیٹ ورک پر نیوز چینل بھی بند رکھے گئے ہیں۔

فون اور انٹرنیٹ خدمات بند کئے جانے کے ایک ہفتے سے زیادہ وقت بیت جانے کے بعد لوگوں میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ڈپٹی کمشنر دفتر میں عام آدمی کے لئے حکومت کے ذریعے فراہم  کئے گئے فون لائن پر بات کرنے کے لئے معروفہ بھٹ کو دو گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ لیکن اپنے جذبات پر قابو پانے کے بعد وہ دہلی میں اپنی بہن سے بات کر سکیں۔انہوں نے فون پر کہا، ‘ ہیلو، کیا آپ ٹھیک ہو۔ ‘؟ اس کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔اپنے ایک سال کے بیٹے کو گود میں لئے معروفہ نے کہا، ‘حال ہی میں میرے والد کی دہلی میں ہارٹ بائی پاس سرجری ہوئی ہے۔ ہم کچھ دن پہلے ہی لوٹے ہیں اور اب دوائیاں ختم ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے دہلی میں اپنی بہن سے رابطہ کرنا تھا۔ ‘

فیملی میں کسی کی موت ہو جانا، کاروباری لین دین اور امتحان… فون کرنے کی ایسی کئی ساری ضروری وجہیں ہیں۔محمد اشرف اپنے بیٹے حماس سے بات کرنے کے دوران رو پڑے۔ حماس کے داداجی کا پانچ دن پہلے انتقال ہو گیا تھا اور اشرف منگل کو اپنے بیٹے کو یہ خبر دے سکے۔وادی میں کرفیو جیسی حالت نوویں دن بھی ہے اور یہاں کے لوگ اس صورت حال  کا سامنا کرنے کی تیاری میں جٹے ہوئے ہیں۔لیاقت شاہ نام کے ایک کاروباری نے کہا کہ موبائل نوجوانوں کو مصروف رکھے‌گا۔ وہ انٹرنیٹ کا استعمال کریں‌گے اور جانیں‌گے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ وہ لدھیانہ واقع اپنے تھوک دکاندار کو چمڑے کی چیزوں کی فراہمی روکنے کے لئے فون کرنے کے واسطے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔

سیکورٹی اہلکاروں نے بتایا کہ احتیاطی تدابیر کے تحت مواصلاتی  نظام کو بند کرنا پڑا۔ایک سینئر پولیس افسر نے کہا، ‘ ہر طرح کی افواہ پھیلانے اور واقعات کی غلط رپورٹنگ کے لئے یہ ایک ہتھکنڈا بن گیا ہے۔ حال ہی میں ایک عالمی چینل نے خبر دی کہ شہر کے باہری علاقے میں گزشتہ جمعہ کی نماز کے دوران گولی باری ہوئی۔ جبکہ کوئی گولی نہیں چلی تھی۔ اگر وہاں موبائل فون ہوتے، تو اس طرح کی غلط رپورٹنگ وادی کے دیگر علاقوں میں بھی آگ کی طرح پھیل جاتی۔ ‘حالانکہ، کچھ افسر یہ بھی قبول‌کر رہے ہیں کہ فون لائنوں کے بند رہنے سے معمولات بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ ریاستی انتظامیہ نے اتوار کو کہا تھا کہ 300’پبلک بوتھ’شروع کئے گئے ہیں لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے انجان ہیں۔

ایک امتحان کا فارم بھرنے کے لئے چنڈی گڑھ واقع اپنے ایک رشتہ دار سے بات کرنا چاہ رہے ارسلان وانی نے کہا، ‘ مجھے میرے موبائل فون بجنے کے خواب آتے ہیں۔ ‘

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)