فکر و نظر

وزیر اعظم کے طور پر مودی نے جو جھنڈے گاڑے ہیں، ترنگا ان کی تعبیر نہیں لگتا

کیا بھگوا جھنڈے کے حمایتی سنگھ اور سنگھ سے وابستہ کسی بھی فرد یا پارٹی کی ترنگےکےتئیں ایمانداری پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔

فوٹو بہ شکریہ، پی آئی پی

فوٹو بہ شکریہ، پی آئی پی

پندرہ اگست کے موقع پر چھٹی دفعہ مودی لال قلعے پر مودی نے ترنگا لہرائیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس بار مودی اپنی تقریر میں کشمیر پر ہندوستان کی چڑھائی اور وہاں لال چوک پر ترنگا پھہرائے جانے کا طول طویل تذکرہ کریں گے ۔ اپنی حکومت کی راشٹروادی بہادری کا آلہااودل کی طرز پر گن گان کریں گے ،موجودہ وقت کی زمینی سچائیوں کی تردید کرتے ہوئے۔ممکن ہے کہ آرٹیکل 370کے ہٹائے جانے کے وقت کا فیصلہ 15اگست کی تقریر کو دھیان میں رکھ کر کیا گیا ہو ،جیسے پلوامہ کے بعد بالا کوٹ میں دیے گئے جواب کا وقت انتخاب سے پہلے چنا گیا۔

مودی حکومت کی رائے میں شاید ملک کا جھنڈا صرف اقتدار کے طاقتور ہونے کی علامت ہے،ملک میں بھائی چارے، امن و امان، معاشی خوشحالی وغیرہ سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ان کی رائے میں راشٹر کا مطلب ہے زمین  اور اس پر قبضہ ، وہاں پر رہنے والے لوگ اور ان کی خوشحالی نہیں…اس نفسیات کے پس پردہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا وزیر اعظم کے طور پر مودی کے ذریعے لال قلعہ پر ترنگا کا پھہرایا جانا فتح اور عظمت کے احساس کو بیدار کرتا ہے؟ یا پھر زخموں پر نمک  چھڑکتا ہے؟ کیا میری نسل والوں کے لیے آج کے ماحول میں اس روایت کا کوئی معنی مطلب بچا ہے؟ کیا آج کی نسل ترنگے کی اہمیت جان پائے گی؟

بچپن میں چھوٹے شہروں میں صبح سویرے ترنگا لے کر ،حب الوطنی کا ترانہ گاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پربھات پھیر ی نکالتے تھے اور پھر اس سے بھی زیادہ جوش کے ساتھ کسی ایسی دکان یا گھر پر جہاں ریڈیو ہوتا تھا ، نہرو جی کا لال قلعے سے خطاب سماعت کرتے تھے ۔ جب وہ اپنی تقریر ختم کرتے تو ان کے ساتھ ساتھ ہمارے چاروں طرف جئے ہند کا نعرہ گونج اٹھتا۔

سبھی کے من میں اس آواز کے ذریعے ان کی اور تقریب کی ایک عظیم الشان تصویر بن جاتی تھی ۔ لاکھوں دلوں میں آج تک وہ تصویر برقرار ہے ۔ ٹی وی پر کسی وزیر اعظم کے وہی نعرے نہ تو جذبات کو بیدار کرتے ہیں نہ ماحول میں جئے ہند کے نعرے کی گونج سنائی پڑتی ہے۔بچپن میں ترنگے میں شامل علامتوں کا پتہ نہیں تھا ، نہ ہی جھنڈا پھہرائے جانے کی اہمیت کا ۔ تب یہ پتہ نہیں تھا کہ ترنگے میں جو بھگوا رنگ ہے وہ علامت ہے ایثار و قربانی کا جو ہندو ، بدھ اور جین مذاہب کے مبینہ اوصاف ہیں؛ سفید رنگ امن کی علامت ہے اور ساتھ ہی عیسائ مذہب کی خوبیوں کا؛ اور ہرا رنگ زرخیزی ، بے خوفی اور جاودانی کے ساتھ اسلام کی خوبیوں کا۔

اور درمیان میں اشوک چکر یا دھرم چکر علامت ہے سچائی ،انصاف اور ترقی کا۔ مطلب خواہ نہ معلوم ہو مگر ترنگے کا صرف ذکر بھر ہی وطن پرستی کے احساس سے بھر دیتا ہے۔

پتہ نہیں کہ ترنگے میں بسی مثالی علامتوں کے مطلب اور اصول کے بارے میں آج کل پڑھایا جاتا ہے یا نہیں! لوگوں میں ترنگے کے بارے میں جاننے کا کوئی تجسس ہے یا نہیں! مجھے لگتا ہے کہ یہ امکان کم ہی ہے۔آخر کار کوئی بھی چیز تب ہی اثر رکھتی ہے جب اس سے جڑے ہوئے جذبات میں خوشی ہو،غرور ہو۔مجھے نہیں لگتا کہ بی جے پی کے ایم پی، ایم ایل اے اور وزراء بھی ترنگے کی اہمیت سمجھتے ہیں یا اس کا احترام کرتے ہیں۔

جذبات، کام کرنے والے کی ایمانداری اور اس کو قبول کرنے والے کے یقین سے پیدا ہوتے ہیں۔آج کی حکومت کی  ترنگے کے تئیں کیا عقیدت ہے؟اس حکومت کی جانکاری میں اگر اخلاق کے قتل کے ملزم کی لاش ترنگے میں لپیٹی جاتی ہے، کٹھوعہ معاملے کے ملزمین کے جلوس ترنگے کے ساتھ نکلتے ہیں یا موٹر سائیکلوں پر سوار بجرنگ دل کے لوگ ترنگے اور لاٹھیوں کے ساتھ مسلمان محلوں میں جئے شری رام کے نعرے جبراًلگوانے کے لیے جاتے ہیں ،تو حکومت لاکھ آئین کی قسم کھائےاور ترنگے کے بارے میں شاندار جملے بازی کرے لیکن اس کی ذہنیت نہیں چھپے گی۔

حکومت کے کسی بھی آدمی خاص طور سے اس کے بڑبولے وزیراعظم کے ذریعے ترنگاپھہرایا جانا عظمت کے جذبات پیدا نہیں کرے گا۔ بی جے پی حکومت اس بات کو قطعی نہیں چھپاتی کہ وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور اس کے نظریے کو مانتی ہے۔سنگھ اپنے کیمپس میں بھگوا جھنڈے پھہراتا ہے؛اس جھنڈے کو ہندو راشٹر کی علامت مانتا ہے۔ڈنکے کی چوٹ پر ترنگے جھنڈے سے اختلاف کا اظہار کرتا ہے اور تب بھی اپنے کو نیشنلزم کی تعریف مانتا ہے۔مودی سنگھ کے دوسرے  سرسنگھ چالک(Sarsanghchalak)گولولکر کو اپنا گرو مانتے ہیں-ان پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

گولولکر نے ترنگے کے بارے میں کہا تھا،’ہمارے رہنماؤں نے ہمارے ملک کے لیے نیا جھنڈا طے کیا ہے۔انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ یہ بھٹکاؤ اور نقل کی ایک اور مثال ہے۔ہمارا ملک قدیم اور عظیم ہے اور اس کا اپناقابل فخر ماضی ہے۔تو کیا ہمارا اپنا کوئی جھنڈا نہیں تھا؟کیا ہمارا کوئی راشٹریہ نشان نہیں تھا ان ہزاروں سالوں تک۔بے شک تھا،پھر ہمارے دماغوں میں یہ سوناپن اور کھوکھلاپن کیوں؟'(گولولکر کی کتاب’ڈرفٹنگ اینڈ ڈرفٹنگ’ سے)

2001 میں کچھ لوگوں نے ناگپور میں سنگھ کے کیمپس میں جبراً ترنگا پھہرایا۔اس پر سنگھ کی میگزین آرگنائزر میں کہا گیا،’وہ لوگ جو قسمت کے جھٹکے سے اقتدار میں آ گئے ہیں شاید ہمارے ہاتھوں میں ترنگا میں تھمائیں گے،لیکن ہندو نہ تو اس کو اپنائیں گے نہ ہی عزت دیں گے۔ لفظ تین اپنے آپ میں ہی بد شگون ہے اور ایسا جھنڈا یقیناً برا نفسیاتی اثر ڈالے گا اور ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔’

کیا بھگوا جھنڈے کے حمایتی سنگھ اور سنگھ سے جڑے کسی بھی شخص یا گروپ کی ترنگے کے تئیں ایمانداری پر یقین کیا جا سکتا ہے؟ وزیراعظم کے طورپر مودی نے جو جھنڈے گاڑے ہیں ،ان کی تعبیر ترنگا نہیں لگتا۔

ایمانداری کے لحاظ سے مودی کا ترنگا پھہرانا شک پیدا کرتا ہے،یقین نہیں۔یو تو ایسا ہمیشہ سے ہی تھامگر اس بار 15 اگست کے پس منظر میں کشمیر ہے۔جس آئین اور جھنڈے کی قدر بی جے پی پورے ہندوستان میں نہیں کرتی، اس کو کشمیر پر تھوپنے کے تضاد کو اپنے نیشنلزم کا ثبوت قرار دیتی ہے۔