فکر و نظر

آزادی کے 72ویں سال میں جمہوریت پر’بھیڑ تنتر‘حاوی ہو گیا

ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عوام کو ایک بنا سوچ-سمجھ والی بھیڑ میں بدل دیا گیا ہے۔ اب ایسی بھیڑ ملک کے ہر قصبے-گاؤں میں گھوم رہی ہے، جو ایک اشارے پر کسی کو بھی پیٹ پیٹ‌کر مار ڈالنے کو تیار ہے۔

فوٹو: Meena Kadri/Flickr CC BY-NC-ND 2.0

فوٹو: Meena Kadri/Flickr CC BY-NC-ND 2.0

یوم آزادی  کا مطلب صرف آزادی کے نام پر فوج کی پریڈ کرنے، ترنگا لہرانے، حب الوطنی پر فلمی نغمہ اور راشٹرواد پر تقریر سننے، ثقافتی پروگرام کرنے اور بھارت ماتا کی جئے کےنعرے لگانے کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ، یہ دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ 1947 میں اس دن ہمارے آباواجداد کی لڑائی سے ملک میں راج شاہی ختم ہو گئی تھی اور لوگوں کا راج آ یا نہ کہ کسی ایک پارٹی، تنظیم یا فردکے نظریے کا۔یعنی اب انگریزوں کی حکومت کی طرح کسی کو بھی’راجا/ملک کے مکھیا’یا’حکومت / اقتدار ‘ کے خلاف آواز اٹھانے پر ‘باغی/غدار وطن ‘یا مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔

ملک اقتدار میں رہنے والی پارٹی کے نظریہ سے نہیں بلکہ جمہوریت کی پالیسی اور جمہوری قدروں پر چلے، اس لئے آئین بھی بنا۔ اس میں نہ صرف سیکولرزم کو جگہ دی گئی بلکہ سیاسی، سماجی، اقتصادی انصاف کے ساتھ اظہار کی آزادی، یعنی سب کو اپنی سوچ‌کے مطابق رائے رکھنے، اپنے عقیدہ کے مطابق مذہب پر عمل کرنے اور تجارت کرنے کا آئینی حق ملا۔

سب سے بڑی بات ہندوستان جمہوری ملک بنا۔ یعنی یہ ریاستوں سے بنا جمہوری‎ ملک، نہ کہ صرف مرکزی اقتدار والا ملک۔مگر، اگر جمہوریت دلیل، حقائق اور آئین کی قائم کردہ روایت اور سوچ کے بجائے ایک نظریے اور پارلیامنٹ میں اس کی اکثریت کی بنیاد پر چلے‌گی، جہاں وہ اس کی سوچ‌کے مطابق آئین میں بھی رات و رات تبدیلی لا سکتی ہے۔ کوئی بھی قانون بنا سکتا ہے۔ اتناہی نہیں، اس کے پاس ایک’بھیڑ تنتر’ہے، جو اس کے نظریے کی مخالفت کرنے والے کی آواز دبا دے‌گی اور اس کو غدار وطن قرار دے دے‌گی، تو پھر ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ آزادی کے 72 سال آتے-آتے جمہوریت پر بھیڑ تنتر حاوی ہو گیا ہے۔

ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عوام کو ایک بنا سوچ والی بھیڑ میں بدل دیا گیا ہے۔ اب ایک ایسی بھیڑ ملک کے ہر قصبے، گاؤں میں تیار گھوم رہی ہے، جو ذرا سی افواہ میں بغیر سوچے سمجھے کسی کو بھی پیٹ-پیٹ‌کر مار ڈالتی ہے۔ہرجگہ دہشت ہے، کوئی منھ کھولنے کو تیار نہیں ہے۔ اس لئے جو سوال اٹھائے اس کو ہی دہشت گرد ٹھہرا دو۔ ملک میں بھیڑ تنتر کا انصاف چلے‌گا یا جمہوریت اس مسئلے پر کچھ بامعنی بحث اس ملک کے لئے بہت ضروری تھی۔

اور 49 دانشوروں کے ذریعے وزیر اعظم مودی کو لکھے گئے خط سے یہ بحث کچھ شروع بھی ہوئی تھی، لیکن 370 کی آڑ میں دب گئی۔ مودی-شاہ کی جوڑی نے آئین کی دفعہ 370 کے ساتھ جس طرح سے چھیڑچھاڑ کیا اور جموں و کشمیر کو یونین ٹیریٹری ریاستوں میں تقسیم کیا ہے، اس نے جمہوریت کی بنیاد ہی ہلا دی۔اس کے ساتھ بھیڑ اور راشٹرواد کی سند بانٹنے والوں کو، جمہوریت کی بات کرنے والوں کو ٹھوکنے کے لئے ایک اور مدعا دے دیا۔ لیکن پھر بھی 370 کے جشن میں بھیڑ تنتر بنام جمہوریت کی اس بحث کو مرنے دینا صحیح نہیں ہوگا۔

کیونکہ، یہ مدعا آج بھی زندہ ہے۔ اور یہ صرف اقلیت یا مسلم سے جڑا ہوا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ ملک میں جمہوریت کو زندہ رکھنے کا معاملہ ہے۔ملک کے 49 مشہور دانشور، فنکار، ادیب، قلمکار اور سماجی کارکنان نے آخرکار اپنی جوابدہی کا نباہ کرتے ہوئے 23 جولائی کو اپنے وزیر اعظم کو ایک کھلا خط لکھ‌کر ملک میں دلت، مسلم اور دیگر اقلیتوں کے خلاف مذہب پرمبنی بھیڑ کے بڑھتے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا اور ان سے مداخلت کی گزارش کی۔

ان ہستیوں نے وزیر اعظم سے گزارش کی کہ وہ مذہب کے نام پر دلتوں، مسلموں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف بڑھتے تشدد کو روکیں۔اس کے لئے انہوں نے این سی آر بی کے اعداد و شمار بھی سامنے رکھے اور بتایا کہ 2016 میں دلتوں کے خلاف تشدد کے 840 معاملے ہوئے ہے، لیکن ان معاملوں میں سزا (جرم ثابت کرنے) کی شرح میں کمی آئی ہے۔اور فیکٹ چیک ان ڈیٹا بیس کی بنیاد پر بتایا کہ 1 جنوری 2009 سے 29 اکتوبر 2018 کے درمیان مذہب پر مبنی تشدد کے واقعات میں 91 لوگ مارے گئے اور 579 زخمی ہوئے ؛ جن میں 62 فیصد متاثر مسلم تھے۔ اس میں سے 90 فیصد معاملے مئی 2014 کے بعدکے ہیں۔

انہوں نے اپنے خط میں یہ بھی صاف کیا کہ رام کا نام ملک کے اکثر لوگوں کے لئے ایک مقدس نام ہے۔ لیکن’جئے شری رام’کا نعرہ دیگر مذہب کو ماننے والوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔اور رام کے نام کو اس طرح سے بدنام نہیں ہونے دینا چاہیے۔اس کے جواب میں 62 نامور ہستیوں کا خط سامنے آ گیا اور ہر بار کی طرح انہوں نے مدعوں پر جواب دینے کے بجائے بھیڑ کےتشدد پر سوال اٹھانے والوں کو ہی دہشت گرد، علاحدگی پسنداور’ٹکڑے ٹکڑے گینگ’کا ممبر بتاکر ان پر مودی جی اور ملک کی امیج دھندلی کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ ان لوگوں کے دل میں رام کے ماننے والوں کے تئیں ایک طرح کی نفرت ہے۔

جب ان 62 لوگوں کا خط پڑھا تو پایا کہ ایک-آدھ لوگوں کو چھوڑ‌کر تقریباً سبھی لوگ سیدھے طور پر بی جے پی سے جڑے ہیں، یا ان کے نظریے کے ساتھ ہیں۔اس میں 47 کے تقریباً تو اکیلے مغربی بنگال سے ہیں ؛ تین کو چھوڑ‌کر ساری فلم ہستیاں ٹالی ووڈ سے ہیں۔ اس میں کئی نے تو حال ہی میں پارٹی کی رکنیت لی ہے۔ اتناہی نہیں، اپنے اس خط میں جو سوال اٹھائے ہیں، وہ زیادہ تر مغربی بنگال سے جڑے ہیں۔

بالی ووڈ سے جڑے اشوک پنڈت تو کھل‌کر مودی کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ کئی لوگ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد کسی نہ کسی طرح کا فائدہ اٹھا چکے ہے۔ جیسے مؤرخ شردیند مکھرجی’انڈین کاؤنسل آف ہسٹوریکل ریسرچ’کے ممبر بنائے گئے۔ جیسے بھرت ناٹیم رقاصہ پرتیبھا پرہلاد کو 2016 میں پدم شری دیا گیا ؛ فلم اور ٹی وی فنکار منوج جوشی کو 2018 میں پروفیسر منوج دیکشت اودھ یونیورسٹی کے نائب شیخ الجامعہ بنائے گئے۔سوپن داس گپتا پارٹی کے راجیہ سبھا ممبر ہیں۔ پرسون جوشی کو مودی حکومت میں ہی سینسر بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا اور مدھر بھنڈارکر کی فلم اندو سرکار کو کچھ دن پہلے ہی نیشنل فلم آرکائیو کا حصہ بنایا گیا۔

وویک اگنی ہوتری اور ان کی بیوی پلّوی جوشی تو مودی کے کھلے طو رپر حمایتی ہیں ؛ پلّوی جوشی نے تو رافال کی قیمت کا معاملہ سمجھاتے ہوئے ان کی حمایت میں ایک ویڈیو بھی جاری کیا تھا۔ سندھیا جین جیسے کئی قلم کاررائٹ ونگ نظریہ کے کھلےطورپر حمایتی ہیں۔خیر، اس سب سے ان کی قابلیت بھلےہی کم نہیں ہوتی ہے، لیکن اس سے ان کی غیرجانب داری پر ضرور سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ اور، شاید اس لئے انہوں نے احتجاج نامہ میں لکھنے کے پہلے زیادہ نہیں، توبھی پچھلے ایک مہینے کا اخبار پڑھے ہوتے یا ان معاملوں کو جاننے کے لئے گوگل کا ہی سہارا لیا تو ان کو جھارکھنڈ کے تبریز سے لےکے ملک کی ہر ریاست کے معاملے ملتے۔

علامتی فوٹو: رائٹرس

علامتی فوٹو: رائٹرس

حال ہی میں گجرات کے گودھرا کا ایک معاملہ سامنے آیا ہے۔ اور سب سے شرمناک واقعہ تو اس بار لوک سبھا میں ہوا، جب اسدالدین اویسی قانون سازمجلس میں حلف لینے آئے۔ اس دوران بی جے پی رکن پارلیامان نے ‘جئے شری رام ‘کے نعرے لگائے۔آئین کا حلف لینے والے جب اس طرح کی حرکت کریں، تو ملک کی سڑکوں پر کیا ہوتا ہوگا اس کا اندازہ لگانا ان کے لئے مشکل نہیں تھا۔اور موجودہ سوال پر بحث کرنے کے بجائے انہوں نے یہ سوال کیا کہ ان لوگوں نے کشمیری پنڈتوں کے تیس سال پرانے معاملے میں سوال کیوں نہیں اٹھائے؟

ایک طرح سے یہ بتانے کہ کوشش کہ یہ لوگ ہندوؤں پر تشدد کے معاملے میں نہیں بولتے ہے۔ جبکہ یہ ہندو بنام مسلم کا معاملہ نہیں ہے۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ اب بھیڑ تنتر کی فکر صرف 49 لوگوں کے خط تک محدود نہیں ہے۔مذہبی جنون  کا یہ ہتھیار ایک الگ شکل میں گاؤں سماج میں اپنے پاؤں پھیلا چکا ہے۔ ہرجگہ دہشت کا ماحول ہے۔مجھے اس کا اصل احساس مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد ضلع کے آدیواسی بلاک کیسلا میں ہوشنگ آباد، ہردا، بیتول اور کھنڈوا ضلع کے قبائلی علاقوں سے اجلاس میں آئے دلت اور آدیواسی کارکنان کے ساتھ بات چیت میں ہوا۔

24 جولائی کی صبح کی بات ہے، مجھے تب جھٹکا لگا جب اس اجلاس میں انہوں نے بھیڑ کے بڑھتے تشدد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت گاؤں میں رات میں نکلنا مطلب جان کا خطرہ مول لینا ہے ؛ آپ کو بھیڑ مار ڈالے‌گی۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ ہم باہر کام کرنے جائیں اور کوئی باہر والا ہمارے گاؤں میں تجارت کرنے آئے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آج کل وہاٹس ایپ پر بھیڑ کے ذریعے مارنے کی خبر آتی ہے، جس میں کئی باتوں کو لےکر ڈرایا جاتا ہے، جس کو دیکھ‌کر لوگ ایسا کر رہے ہیں۔انہوں نے مثال دےکر بتایا کہ کیسے ایک کاروباری، جو گاؤں سے لوٹ رہا تھا، اس نے غلطی سے گائے کے بچھڑے کو ٹکر مار دی۔ اس کے بعد وہ ایک گاؤں سے بھاگتا، تو اس کو فون کر کے دوسرے گاؤں میں لوگ گھیر لیتے اور اس طرح اس کو پکڑ‌کر مار-مار‌کر ادھ مرا کر دیا۔ کسی نے بتایا کہ اس کے گاؤں میں چادر بیچنے والوں کو بھی اسی طرح مارا۔

پھر جب میں نے اگلے-پچھلے کچھ دنوں کے اخبار دیکھے، تو بھیڑ کے تشدد کی کئی شکل دکھائی دی۔ 24 جولائی بھوپال کے چھولا روڈ میں ساگر سے آئے ایک 25 سالہ نوجوان نے رات گیارہ بجےکے آس پاس  اپنے جاننے والے کے گھر کا پتہ پوچھا، تو بھیڑ نے اس کو بچہ چور سمجھ‌کر پیٹ دیا۔ریاست کے ہی بیتول ضلع میں تو اپنے سینئر رہنما سے مل‌کر لوٹ رہے تین کانگریسی رہنماؤں کو سیتل جھری گاؤں میں بھیڑ نے جم کر پیٹا، آخر میں انہوں نے فون کر پولیس کو بلایا اور کسی طرح اپنی جان بچائی۔

17 جولائی کی بات ہے، اتر پردیش کے بارہ بنکی ضلع کے دیوا علاقے کے راگھوپروا گاؤں میں ایک 22 سالہ نوجوان اپنی سسرال ٹائی کلا گاؤں جا رہا تھا۔ راستے میں راگھوپروا گاؤں کے باہر کتے نے اس کو دوڑا لیا۔ وہ بھاگ‌کر گاؤں کے اندر پہنچا تو گاؤں والوں نے چور سمجھ‌کر اس کو پیٹنا شروع کر دیا۔اس کو پہلے ڈنڈے سے مارا گیا اور پھر حیوانیت کی حد پار کرتے ہوئے گیلا کر کرنٹ دیا گیا۔ پھر اس کے بدن پر تیل ڈال‌کر آگ لگا دی۔

ایک وقت تھا جب سماج کے کمزور طبقوں کی آواز اٹھانا ملک کے تئیں فکرمند ہر بیدار شہری کا فرض مانا جاتا تھا۔ اور خاص طو رپر، دانشوروں کی تو اس معاملے میں خاصی جوابدہی مانی جاتی تھی۔لیکن، آج سماج کے کمزور طبقوں کے لئے آواز اٹھانے والے جانے مانے دانشور، فن کار، ادیب، قلمکار اور سماجی کارکنان کو دہشت گرد بتاکر ان پر ملک کی امیج دھندلی کرنے کی تہمت لگائی جا رہی ہے۔

اس بھیڑ نے آخرکار انوراگ کشیپ کو اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند کرنے پر مجبور کر دیا۔ کل حکومت دہشت گرد انسداد قانون میں دی گئی نئی تعریف کے تحت ان کو سرکاری طور پر دہشت گرد بھی قرار دے سکتی ہے۔اور یہ سب اس کی ہی تیاری ہے، کہ جو منھ کھولے اس کو دہشت گرد اور علاحدگی پسند قرار دے دو۔ اب اس میں 370 کا مدعا اور جڑ گیا۔اگر ہم بی جے پی اور سنگھ کے اپنے ایجنڈے کی آڑ میں ملک کی عوام کے اصلی مدعوں کو مسترد کرتے رہے اور یہ سب جاری رہا، تو ہماری جمہوریت کو ایک بھیڑ تنتر میں بدلتے دیر نہیں لگے‌گی۔

(مضمون نگار سماجوادی جن پریشد سے وابستہ ہیں۔)