خبریں

خود سے الگ لوگوں کے خلاف زہر اگلنے کا ذریعہ بن گئی ہے آزادی: جسٹس چندرچوڑ

سپریم کورٹ کے جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا، المیہ یہ ہے کہ گلوبل سوسائٹی نے ہمیں ان لوگوں کے تئیں عدم روادار  بنا دیا ہے، جو ہم سے الگ ہیں۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، فوٹو بہ شکریہ:Increasing Diversity by Increasing Access

سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، فوٹو بہ شکریہ:Increasing Diversity by Increasing Access

نئی دہلی: ایک کثیر تہذیبی  سماج بنانے کے لئےآرٹ  کی اہمیت کو بریکٹ کرتے ہوئے جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے  کہا، ‘ انسانیت کی ہمہ گیر ترقی کے لئے آرٹ  کو آزادانہ طورپر تمام جہتوں میں توسیع دینے کی ضرورت ہے۔ خطرہ تب پیدا ہوتا ہے جب آزادی کو دبایا جاتا ہے، چاہے وہ ریاست کے ذریعے ہو، لوگوں کے ذریعے ہو یا خود آرٹ کے ذریعے ہو۔ ‘

انڈین ایکسپریس کے مطابق، انہوں نے کہا، ‘ المیہ یہ ہے کہ گلوبل سوسائٹی نے ہمیں ان لوگوں کے تئیں عدم روادار  بنا دیا ہے، جو ہم سے الگ ہیں۔ آزادی ان لوگوں پر زہر اگلنے کا ایک ذریعہ بن گئی ہے، جو الگ طرح سے سوچتے ہیں، بولتے ہیں، کھاتے ہیں، کپڑے پہنتے ہیں۔ ‘

امیجننگ فریڈم تھرو آرٹ پر ممبئی میں لٹریچر لائیو انڈی پینڈینس ڈےاسپیچ دیتے ہوئے چندرچوڑ نے کہا، ‘ میری سمجھ سے سب سے زیادہ پریشانی کی بات ریاست کے ذریعے آرٹ کو دبانا ہے… وہ بینڈٹ کوئین ہو، چاہے ناتھو رام گوڈسے بول تویہ، چاہے پدماوت یا دو مہینے پہلے مغربی بنگال حکومت کے ذریعے بھوبھشیوتر بھوت پر لگائی گئی پابندی ہو کیونکہ اس میں سیاستدانوں کے بھوت کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ سیاستدان اس بات سے بہت پریشان تھے کہ یہاں ایک ہدایت کار ہے، جس کے پاس سیاست میں موجود بھوتوں کے بارے میں بات کرنے کی ہمت تھی۔ ‘

ایک سماعت کے دوران جسٹس چندرچوڑ نے کہا تھا، ‘ موجودہ صورت حال  کو چیلنج دینے والے آرٹ  میں ریاست کے نقطہ نظر سے لازمی طور پر شدت پسند ی  ہو سکتی ہے، لیکن یہ آرٹ کو دبانے کی وجہ نہیں ہو سکتی … آج ہم تیزی سے عدم رواداری کو اپنے آ س پاس دیکھ رہے ہیں، جہاں آرٹ  کو دبایا یا مسخ کیا جا رہا ہے۔ آرٹ  پر حملہ سیدھے آزادی پر حملہ ہے …آرٹ مظلوم طبقے کو حق دبانے والی اکثریتی کمیونٹی کے خلاف آواز بلند کرنے کی قوت دیتا ہے۔ اس کو محفوظ کئے جانے کی ضرورت ہے۔ ‘

قانون، تھیٹر اور آرٹ کمیونٹی کے مشہور لوگوں سے بھرے کمرے میں تقریباً 50 منٹ تک اپنی تقریر میں انہوں نے کہا، ‘ مظلوم طبقے کے زندہ تجربے کو اکثر مین اسٹریم آرٹ  سے باہر رکھا جاتا ہے۔ کچھ خاص طبقے کو آواز دینے سے انکار کرکے آرٹ خود مظلوم بن جائے‌گا اور ایک جابرانہ تہذیب کو بڑھاوا دے سکتا ہے۔ ‘انہوں نے کہا، ‘ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ سبھی آرٹ سیاسی ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو آرٹ صرف رنگوں، الفاظ یا موسیقی کا زیور بن‌کر رہ جاتا۔ ‘

ستمبر 2018 میں ہم جنسی کو جرم کے دائرے سے باہر کرنے والا اہم فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے پانچ ججوں میں سے ایک جسٹس چندرچوڑ نے کہا، ‘ جب ایل جی بی ٹی کیوکے حقوق کے مدعے پر ہمارے پہلے کے فیصلے کو چیلنج کیا جا رہا تھا، تو وکیلوں میں سے ایک نے ذکر کیا کہ سپریم کورٹ کے پہلے کے دور میں، بنچ سے آئے سوالوں میں سے ایک تھا، ‘ کیا آپ نے کبھی کسی ہم جنس پرست سے ملاقات کی ہے؟ ‘ ہمیں کئی دہائیوں کے بعد ایک غلطی کو صحیح کرنا تھا۔ ‘

اس دوران ایودھیا مدعے سے جڑے سوال پر انہوں نے کہا، ‘ میں بہت ہی معمولی وجہ سے اس معاملے پر بات نہیں کروں‌گا کیونکہ میں اس بنچ کا حصہ ہوں جو اس کی سماعت کر رہی ہے۔ لیکن ہر شہری کو انصاف پانے کا حق ہے۔’