خبریں

سپریم کورٹ نے کہا، شادی کو لے کر شکوک  وشبہات کے باوجود جنسی رشتہ بنانا ریپ نہیں

عدالت نے کہا، قانون کے تحت ایک مرد کو ریپ کا ملزم بنایا جاسکتا ہے  اگر یہ ثابت کردیا جائے کہ اس نے شادی کا جھوٹا وعدہ کرکے کسی عورت کے ساتھ جسمانی رشتہ قائم کیاتھا۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ریپ سے متعلق اپنے ایک تبصرے میں کہا ہے کہ ، اگر کوئی عورت یہ جانتے ہوئے کسی مرد سے جنسی تعلقات بنانا جاری رکھتی ہے کہ ان کی شادی نہیں ہوپائے گی تو وہ یہ الزام نہیں لگا سکتی کہ اس کے پارٹنر نےشادی کا جھوٹا وعدہ کرکے اس سے تعلق قائم کیا۔ جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور اندرا بنر جی کی بنچ نےایک خاتون  اسسٹنٹ کمشنر آف سلیس ٹیکس کی طرف سی آر پی ایف کے  ڈپٹی کمانڈنٹ کے خلاف دائر ریپ کے معاملے کو خارج کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔

ٹائمس آف انڈیا کی ایک خبر کے مطابق، عدالت نے کہا کہ دونوں گزشتہ6 سال تک ایک دوسر ے کے ساتھ اس رشتے میں تھے۔ ا س دوران وہ کئی بار ایک دوسرے کے گھر پر ٹھہرے ۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دونوں کے بیچ آپسی اتفاق سے یہ رشتہ قائم ہوا تھا ۔ایک رپورٹ کے مطابق،یہ ایک دوسرے کے ساتھ سفر کرتے تھے اور باقاعدگی سے ملتے تھے اور وہ کئی بار یہ جاننے کے لیے ساتھ میں ہاسپٹل بھی گئے کہ خاتون حاملہ ہے یا نہیں۔

 خبر کے مطابق، شکایت گزار خاتون نے سی آر پی ایف کے افسر پر الزام لگایا تھا کہ 2008 میں اس نے شادی کا وعدہ کرکے جبراً اس کے ساتھ جسمانی رشتہ بنایا تھا ۔ اس دوران وہ کئی بار ایک ساتھ رہے ۔ لیکن 2014 میں سی آر پی ایف افسر نے ذات پات کی بنیاد پر شادی کو لے کر شکوک و شبہات کا اظہار کرنا شروع کردیا ،اس کے باوجود اگلے  دو سال تک ان کا رشتہ جاری جارہا ۔ بعد میں جب مرد نے کسی اور خاتون سے سگائی  کی بات خاتون کو بتائی تو شکایت گزار خاتون نے 2016 میں اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرا ئی ۔

لیکن جب معاملہ عدالت پہنچا تو بنچ  نے کہا کہ جھوٹا وعدہ کرنے اور وعدہ توڑنے میں فرق ہے ۔ اس نے کہا کہ خاتون کے ذریعے درج کرائی گئی  ایف آئی آر سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ ملزم وعدہ نبھانا نہیں چاہتا تھا یا دونوں کے بیچ جنسی تعلقات اس وعدے کی بنیاد پر بنائے گئے تھے۔ عدالت نے کہا ، 2008 میں کیا گیا وعدہ 2016 میں نہیں نبھایا گیا ، اس کا یہ مطلب نہیں نکالا جاسکتا کہ اس کا وعدہ جھوٹا تھا۔ شکایت گزار کی ایف آئی آر سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے رشتے میں 2008سے ہی رکاوٹیں تھیں اور شادی کو لے کر تنازعہ ہونے کے بعد بھی دونوں جنسی تعلقات بناتے رہے۔

عدالت نے کہا،قانون کے تحت ایک مرد کو ریپ کا ملزم بنایا جاسکتا ہے اگر یہ ثابت کردیا جائے کہ اس نے شادی کا جھوٹا وعدہ کرکے کسی عورت کے ساتھ جسمانی رشتہ قائم کیاتھا۔عدالت نے مزید کہا کہ ہر معاملے میں ایک مرد کو ملزم نہیں بنایا جاسکتا ،اس کے باوجود کہ وہ وعدے کے مطابق شادی نہیں کر پا تا ہے۔عدالت نے کہا کہ ایسے معاملوں میں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ شادی کا وعدہ عورت کو عزت دینے کے لیے کیا گیا تھا اور اسی وجہ سے عورت جسمانی رشتہ بنانے کو راضی ہوئی  تھی۔عدالت نے کہا کہ ایک وعدے کی خلاف ورزی کو جھوٹا وعدہ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے وعدے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وعدہ کرتے ہوئے اس کا ارادہ اس کو نبھانے کا نہیں تھا۔