خبریں

سپریم کورٹ نے تین طلاق قانون کے خلاف دائر عرضی پر مرکز سے مانگا جواب

عرضیوں  میں تین طلاق قانون کو غیر آئینی قرار دینے کی گزارش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے آئین میں ملے بنیادی حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مسلم خواتین کو تین طلاق دینے کی روایت پر روک لگانے والے قانون  کو چیلنج دینے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ غور کرنے کے لئے جمعہ کو راضی ہو گیا۔ نئے قانون کے تحت ‘ تین طلاق ‘ دینے والوں کو تین سال تک کی جیل کی سزا ہو سکتی ہے۔جسٹس این وی رمن اور جسٹس اجئے رستوگی کی بنچ نے اس معاملے میں دائر عرضی پر مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔

عرضی میں مسلمان عورت (شادی پر حقوق کےتحفظ) آرڈیننس، 2019کو ‘ غیر آئینی ‘ قرار دینے کی گزارش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے آئین میں ملے بنیادی حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔

بنچ نے ایک درخواست گزار کی طرف سے پیش سینئر وکیل سلمان خورشید سے کہا کہ وہ اس پر غور کریں‌گے۔خورشید نے بنچ سے کہا کہ ایک ساتھ تین طلاق کو  سزا کے لائق  جرم بنانے اور تقریباً تین سال کی سزا ہونے سمیت اس کے کئی پہلو ہیں، اس لئے عدالت کے لئے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

خورشید نے بنچ کو بتایا کہ درخواست گزار تین طلاق کو جرم بنائے جانے سے فکرمند ہیں کیونکہ سپریم کورٹ سے اس کو ناقابل قبول قرار دے چکا ہے۔ انہوں نے بنچ سے کہا، ‘ اگر تین طلاق جیسی کوئی چیز ہی نہیں ہے تو وہ کس کو جرم بنا رہے ہیں۔ ‘دراصل خورشید پانچ ججوں والی ایک آئینی بنچ کے اس فیصلے کا ذکر کر رہے تھے جس میں مسلم کمیونٹی میں تین طلاق کی روایت کو ناقابل قبول قرار دے دیا گیا تھا۔

اس پر بنچ نے کہا کہ اگر مان لیا جائے کہ کسی مذہبی روایت کو ناقابل قبول قرار دے دیا گیا اور اس کو جہیز اور چائلڈ میرج  کی طرح جرم بھی قرار دے دیا گیا لیکن اس کے باوجود بھی یہ جاری ہے تو اس کا کیا حل ہو سکتا ہے۔حالانکہ بنچ 2019 ایکٹ کے جواز پر غور کرنے پر تیار ہو گئی ہے۔ بنچ نے تین سال تک کی سزا اور اس معاملے میں عدالت کے ذریعے بیوی کو سنے جانے کے بعد ہی شوہر کو ضمانت ملنے کو بھی نوٹس میں لیا ہے۔اس قانون کے جواز کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں 4 عرضیاں دائر کی گئی ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)