خبریں

اتر پردیش: تین طلاق سے متعلق ایف آئی آر کی تعداد میں اضافہ، گزشتہ تین ہفتے میں 216 مقدمہ درج

اتر پردیش میں تین طلاق کے سب سے زیادہ 26 کیس میرٹھ میں درج ہوئے ہیں۔ اس کے بعد سہارن پور میں 17 اور شاملی میں 10 کیس درج کئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیامانی حلقہ وارانسی میں تین طلاق کے 10 کیس سامنے آئے ہیں۔

علامتی تصویر (فوٹو : پی ٹی آئی)

علامتی تصویر (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: تین طلاق سے متعلق قانون بننے کے بعد اتر پردیش میں اس سے جڑے مقدموں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اتر پردیش پولیس کے ایک اعلیٰ منصب پر فائز ایک افسر نے منگل کو بتایا، ‘ اتر پردیش میں تین طلاق کی متاثرہ خواتین اپنے شوہروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کے لئے بڑی تعداد میں آ رہی ہیں۔ گزشتہ ایک اگست کو مسلمان عورت (شادی پر حقوق کےتحفظ) آرڈیننس، 2019 کے نافذ ہونے کے بعد سے لےکر 21 اگست تک ریاست میں طلاق بدعت کے ابھی تک 216 معاملے درج کئے جا چکے ہیں۔ ‘

ان میں سب سے زیادہ 26 مقدمے میرٹھ میں، سہارن پور میں 17 اور شاملی میں 10 مقدمے درج کئے گئے ہیں۔ ان ضلعوں میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔ افسر نے بتایا کہ مشرقی اتر پردیش میں وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیامانی انتخابی حلقہ وارانسی میں تین طلاق کے 10 مقدمے درج کئے گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ درج مقدموں کے مطابق، تین طلاق کے زیادہ تر معاملے جہیز، جائیداد کے تنازعے اور گھریلو تشدد کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان 216 معاملوں میں سے دو تین کو چھوڑ‌کر کسی میں بھی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ اصول کے مطابق، سات سال سے کم سزاکے اہتمام والے معاملوں میں خصوصی حالات کو چھوڑ‌کر گرفتاری نہیں ہوتی ہے۔

ڈی جی پی اوپی سنگھ نے کہا کہ کچھ ٹرپل طلاق فون، ایس ایم ایس کے ذریعے یا سیدھے ہی خواتین کو دئے گئے ہیں۔ ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) اوم پرکاش سنگھ نے بتایا  تین طلاق  سے متعلق قانون کو اور مؤثر بنانے کے لئے ہم ا س کے ملزمین کی گرفتاری کے امکانات تلاش رہے ہیں۔ اس کے لئے تمام تکنیکی پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس بہت جلد مسلم خواتین کو انصاف دلانے کے لئے مقدمے درج ہونے سے پڑنے والے اثر کا تجزیہ کرے‌گی۔ غور طلب ہے کہ مسلمان عورت (شادی پر حقوق کےتحفظ) آرڈیننس، 2019 مسلم شوہر کے ذریعے دئے جانے والے طلاق بدعت یعنی کہ تین طلاق کو غیر قانونی بتاتا ہے۔ نئے قانون کے مطابق، اگر کوئی مسلم شوہر اپنی بیوی کو زبانی طور پر، لکھ‌کر یا الیکٹرانک طریقے سے یا کسی بھی دیگر طریقے سے طلاق بدعت دیتا ہے تو یہ غیر قانونی مانا جائے‌گا۔

تین طلاق  میں کوئی مسلم شوہر اپنی بیوی کو فوری طور سے تین بار ‘ طلاق ‘ بول‌کر اس سے رشتہ  ختم کر لیتا ہے۔ قانون میں ‘ تین طلاق ‘ دینے والے مسلم مرد کو تین سال تک کی قید ہو سکتی ہے اور اس پر جرمانہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں یہ بھی اہتمام کیا گیا ہے کہ تین طلاق کی متاثرہ خاتون اپنے شوہر سے اپنے لیے اور اپنی  اولادوں کے لئے گزر بسر کابھتہ حاصل کرنے کی  حقدار ہوگی۔ اس رقم کو مجسٹریٹ طے کرے‌گا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)