خبریں

اشتعال انگیز تقریر کرنے کی وجہ سے شاہ فیصل کو حراست میں لیا گیا: جموں و کشمیر انتظامیہ

راج بھون کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی آدمی کو حراست میں لئے جانے یا رہا کئے جانے میں جموں و کشمیر کے گورنر شامل نہیں ہیں۔ اس طرح کے فیصلے مقامی پولیس انتظامیہ کے ذریعے کئے جاتے ہیں۔

شاہ فیصل، فوٹو بہ شکریہ فیس بک

شاہ فیصل، فوٹو بہ شکریہ فیس بک

نئی دہلی: نوکرشاہ سے رہنما بنے شاہ فیصل کی حراست کو درست گردانتے  ہوئے جموں و کشمیر انتظامیہ نے دہلی  ہائی کورٹ  میں کہا کہ انہوں نے ملک کی سالمیت  اور یکجہتی  کے خلاف سرینگر ہوائی اڈے پر جمع لوگوں کو بھڑکایا۔شاہ فیصل کی Habeas corpus عرضی کے جواب میں داخل حلف نامہ میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے یہ بات کہی ہے۔ فیصل نے عرضی میں الزام لگایا تھا کہ ان کو 14 اگست کو دہلی ہوائی اڈے پر غیر قانونی طریقے سے روکا گیا اور واپس سرینگر بھیج دیا جہاں ان کو نظربند کر دیا گیا ہے۔ریاستی حکومت نے کہا کہ امن و امان قائم رکھنے کے لئے بانڈ بھرنے سے انکار کے بعد بڈگام کےایگزیکٹو مجسٹریٹ کے حکم کے تحت اور آئینی اہتماموں کے مطابق فیصل کی آزادی محدود کی گئی۔

حلف نامہ میں کہا گیا کہ جموں و کشمیر پولیس سے ملی درخواست کی بنیاد پر فیصل کے خلاف لک آؤٹ سرکلر 12 اگست کو جاری کیا گیا اور اسی کے تحت ہندوستان سے باہر جانے سے ان کو روکنے کے لئے قدم اٹھایا گیا۔حلف نامہ میں کہا گیا،’ (دہلی سے) سرینگر پہنچنے پر وہ وہاں جمع  لوگوں کو خطاب کرنے لگے۔ وہ ملک کی سالمیت  اور یکجہتی  کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے لگے، اس سے امن میں خلل کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ ہوائی اڈے کے افسر اور پولیس اہلکار بھی ان کی اس حرکت کےگواہ بنے۔ ‘اس میں کہا گیا کہ آگاہ کئے جانے کے باوجود فیصل نے اپنا خطاب جاری رکھا۔ اس وجہ سے ماحول خراب ہو رہا تھا۔ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے زبانی حکم پر فیصل کو وہاں پر پکڑا گیا اور ان کو 50000 روپے کا بانڈ بھرنے کو کہا گیا۔ حالانکہ، انہوں نے بانڈ بھرنے سے منع کر دیا جس کے بعد مجسٹریٹ نے ان کو حراست میں لینے کا حکم دیا۔

واضح  ہو کہ شاہ فیصل کو جب دہلی ہوائی اڈے پر روکا گیا تھا تب انہوں نے پڑھائی کے لئے امریکہ جانے کی بات کہی تھی۔ جموں و کشمیر انتظامیہ نے کہا کہ یہ تصورسےبالاتر ہے کہ وہ ایسے وقت میں ملک چھوڑ‌کر پڑھائی کے لئے امریکہ جائیں‌گے۔ریاستی حکومت نے اپنے حلف نامہ میں کہا، ‘انہوں نے سول سروس سے استعفی دیا اور سیاست سے جڑ گئے اور ‘ جموں و کشمیر پیپلس موومینٹ ‘ نامی ایک سیاسی تنظیم بنائی۔ ‘حلف نامہ میں کہا گیا کہ کسی بھی ٹھوس مواد کے فقدان میں یہ نہیں مانا جا سکتا کہ ایک سیاسی تنظیم کے رہنما، جو کہ ہمارے ملک کی آئینی اکائی کے ذریعے آئینی کارروائی کے بارے میں کافی شدت پسند  رہے ہیں، وہ ایسے وقت میں بغیر اسٹوڈنٹس ویزا کے ملک چھوڑ‌کر پڑھائی کرنے ہارورڈ یونیورسٹی جائیں‌گے۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، 35 سالہ شاہ فیصل ان 40 مقامی رہنماؤں میں شامل ہیں، جن کو سرینگر میں نظربند رکھا گیا ہے۔شاہ فیصل ایک تربیت یافتہ ڈاکٹر ہیں اور انہوں نےاس سال جنوری میں آئی اے ایس کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔2010 سول سروس کے امتحان میں آل انڈیا ٹاپر رہے پہلے کشمیری آئی اے ایس افسر شاہ فیصل نے ‘ کشمیر میں ہو رہے قتل، ہندتووادیوں کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں کو حاشیے پر دھکیلنے، عدم رواداری اور بڑھتی نفرت ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔

دریں اثناراج بھون کی طرف سے منگل کو جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی آدمی کو حراست میں لئے جانے یا رہا کئے جانے میں جموں و کشمیر کے گورنر شامل نہیں ہیں۔ اس طرح کے فیصلے مقامی پولیس انتظامیہ کے ذریعے کئے جاتے ہیں۔ساتھ ہی راج بھون نے کہا کہ گورنر ستیہ پال ملک کی سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر کو ملے خصوصی درجے کو مرکز کے ختم کرنے کے بعد نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ اور پی ڈی پی صدر مفتی کو نظربند کر دیا گیا تھا۔راج بھون کے ایک ترجمان نے سرینگر میں ایک بیان میں کہا، ‘ ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گورنر نے سابق وزیراعلیٰ (عمر عبداللہ اور مفتی) سے کہا ہے کہ ان کو ان کی رہائش گاہ میں منتقل کر دیا جائے‌گا، بشرطیکہ وہ آرٹیکل 370 کو ہٹانے اور ریاست کو دو حصوں میں بانٹنے کے خلاف وادی میں کوئی بھی بیان نہیں دیں‌گے۔ دونوں فی الحال حراست میں ہیں۔ ‘

انہوں نے کہا کہ یہ واضح کیا جاتا ہے کہ یہ خبریں بالکل غلط اور بے بنیاد ہیں۔ترجمان نے کہا، ‘ جموں و کشمیر کے گورنر کسی بھی آدمی کو حراست میں لئے جانے یا رہا کئے جانے میں شامل نہیں ہیں اور اس طرح کے فیصلے مقامی پولیس انتظامیہ کے ذریعے کئے جاتے ہیں۔ گورنر کی ان رہنماؤں سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ ‘انہوں نے کہا کہ راج بھون اس طرح کی غلط اور کمزور خبروں کی تشہیر کئے جانے کی مذمت کرتا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)