خبریں

کشمیر: فوج پر عوام کو ٹارچر کرنے کا الزام، فوج نے کیا انکار

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی کشمیر کے کچھ گاؤں میں لوگوں نے سکیورٹی اہلکاروں پر مارپیٹ اور شدید طور پر ٹارچر کرنے کے الزامات لگائے ہیں ۔مقامی لوگوں  نے بتایا کہ  انھیں لاٹھیوں اور بھاری تاروں سے مارا گیا اور بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔فوج کا کہنا ہے کہ ان کو ایسے کسی واقعے کا علم نہیں ہے۔

جموں و کشمیر کے رگھوناتھ بازار میں تعینات سی آر پی ایف کا جوان(فوٹو : پی ٹی آئی)

جموں و کشمیر کے رگھوناتھ بازار میں تعینات سی آر پی ایف کا جوان(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی : جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے حکومت کے فیصلے کے  بعدجنوبی  کشمیر کے گاؤں میں لوگوں  نے سکیورٹی فورسز پر مارپیٹ اور تشدد کے الزامات عائد کیے ہیں۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ، ان کے صحافی نے اس حلقے کے تقریباً آدھے درجن گاؤں کا دورہ کیا ،جہاں مقامی لوگوں  نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں لاٹھیوں اور بھاری تاروں سے مارا گیا اور بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔بی بی سی  کو کئی مقامی لوگوں  نے اپنے زخم بھی دکھائے ۔ حالاں کہ بی بی سی کا کہنا ہے کہ وہ حکام کی طرف سے ان الزامات کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

وہیں فوج نے ان الزامات کو’بے بنیاد اور غیر مُصدقہ’قرار دیا ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ،شدید ترین پابندیوں نے کشمیر کو تین ہفتوں سے بھی زائد عرصے سے لاک ڈاؤن کی صورتحال میں دھکیل دیا ہے اور 5 اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے اندرونی حالات سے متعلق معلومات بمشکل باہر آ رہی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ،خطے میں ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں  کو تعینات کیا گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق سیاسی رہنماؤں، کاروباری شخصیات اور کارکنان سمیت تقریباً 3000 افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے۔ کئی افراد کو ریاست کے باہر جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

بی بی سی نے حکام کے حوالے سے جانکاری دی ہے کہ ،یہ اقدامات حفاظتی نوعیت کے ہیں اور علاقے میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے کیے گئے ہیں۔بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے ڈاکٹرز اور محکمہ صحت کے حکام صحافیوں سے کسی بھی مریض کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔حالاں کہ  دیہی علاقوں میں رہنے والوں نے بی بی سی کو اپنے زخم دکھائے اور ان کا الزام سکیورٹی فورسز پر لگایا ہے۔یہاں دو بھائیوں کا الزام تھا کہ انھیں جگایا گیا اور باہر ایک علاقے میں لے جایا گیا جہاں ان کے گاؤں کے تقریباً ایک درجن دیگر مرد بھی جمع تھے۔ یہ لوگ  اپنی شناخت ظاہر ہونے پر سنگین نتائج کے خوف کا شکار تھے۔ان میں سے ایک نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘انھوں نے ہمیں مارا۔ ہم ان سے پوچھتے رہے ’ہم نے کیا کیا ہے؟ آپ گاؤں والوں سے پوچھ لیں اگر ہم نے کچھ غلط کیا ہے؟’ مگر وہ کچھ بھی سننا نہیں چاہتے تھے اور انھوں نے کچھ بھی نہیں کہا، وہ بس ہمیں مارتے رہے۔’

’انھوں نے میرے جسم کے ہر حصے پر مارا پیٹا۔ انھوں نے ہمیں لاتیں ماریں، ڈنڈوں سے مارا، بجلی کے جھٹکے دیے، تاروں سے پیٹا۔ انھوں نے ہمیں ٹانگوں کی پچھلی جانب مارا۔ جب ہم بے ہوش ہو گئے تو انھوں نے ہمیں ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے۔ جب انھوں نے ہمیں ڈنڈوں سے مارا اور ہم چیخے تو انھوں نے ہمارے منہ مٹی سے بھر دیے۔

مبینہ طور پر فوج کی پٹائی کے بعد زخمی ایک شخص(فوٹو بہ شکریہ : بی بی سی)

مبینہ طور پر فوج کی پٹائی کے بعد زخمی ایک شخص(فوٹو بہ شکریہ : بی بی سی)

’ہم نے انھیں بتایا کہ ہم بے قصور ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ یہ کیوں کر رہے تھے؟ مگر انھوں نے ہماری ایک نہ سنی۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم پر تشدد نہ کریں، بس ہمیں گولی مار دیں۔ میں خدا سے موت کی دعا کر رہا تھا کیونکہ یہ تشدد ناقابلِ برداشت تھا۔‘ایک اور نوجوان دیہاتی نے بی بی سے کہا کہ سکیورٹی اہلکار ان سے کہتے رہے ’پتھراؤ کرنے والوں کے نام بتاؤ‘۔انھوں نے سپاہیوں سے کہا کہ وہ کسی کو نہیں جانتے، جس پر انھیں عینک، کپڑے اور جوتے اتارنے کے لیے کہا گیا۔

’جب میں نے کپڑے اتارے تو انھوں نے تقریباً دو گھنٹے تک مجھے بے رحمی سے ڈنڈوں اور سلاخوں کے ساتھ پیٹا۔ جب میں بے ہوش ہو گیا تو انھوں نے مجھے ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے۔‘انھوں نے کہا ’اگر انھوں نے میرے ساتھ یہ دوبارہ کیا تو میں کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ میں بندوق اٹھاؤں گا۔ میں یہ روز روز برداشت نہیں کر سکتا۔‘نوجوان نے مزید بتایا کہ سپاہیوں نے گاؤں میں سب کو خبردار کرنے کے لیے کہا کہ اگر کسی اور نے بھی فورسز کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی تو انھیں ایسے ہی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بی بی سی کو دیے گئے ایک بیان میں فوج نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ کسی بھی  شہری کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایاگیا ہے۔‘فوج کے ترجمان کرنل امن آنند نے کہا ’اس نوعیت کے  الزامات ہمارے نوٹس میں نہیں لائے گئے ہیں۔ یہ الزامات ممکنہ طور پر دشمن عناصر کی جانب سے پروان چڑھائے گئے ہیں۔‘انھوں نے مزید کہا کہ سویلینز کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھائے گئے تھے مگر ’فوج کی جانب سے جوابی اقدامات کے نتیجے میں کوئی زخمی یا ہلاک نہیں ہوا ہے۔‘بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق،ایک شخص نے کہا کہ فوج نے انھیں دھمکی دی تھی کہ اگر وہ عسکریت پسندوں کے خلاف مخبر نہ بنے تو انھیں پھنسا دیا جائے گا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ان کے انکار پر انھیں اس بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی وہ کمر کے بل لیٹ نہیں سکتے۔

ان کا کہنا تھا ’اگر یہ جاری رہا تو میرے پاس اپنا گھر چھوڑ دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ وہ ہمیں ایسے مارتے ہیں جیسے جانوروں کو مارا جاتا ہے۔ وہ ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتے۔‘بی بی سی کو اپنا زخم دکھانے والے ایک اور شخص نے کہا کہ ’15 سے 16 سپاہیوں‘ نے انھیں زمین پر گرایا اور ’تاروں، بندوقوں، ڈنڈوں اور شاید فولادی سلاخوں سے‘ بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔’میں نیم بے ہوش تھا۔ انھوں نے میری داڑھی اس بری طرح سے کھینچی کہ مجھے لگا جیسے میرے دانت باہر گر پڑیں گے۔‘

مبینہ طور پر فوج کی پٹائی کے بعد زخمی ایک شخص(فوٹو بہ شکریہ : بی بی سی)

مبینہ طور پر فوج کی پٹائی کے بعد زخمی ایک شخص(فوٹو بہ شکریہ : بی بی سی)

انھوں نے کہا کہ ان پر ہونے والا تشدد دیکھنے والے ایک لڑکے نے انھیں بتایا کہ ایک فوجی نے ان کی داڑھی جلانے کی کوشش کے تھی مگر دوسرے فوجی نے انھیں روک دیا تھا۔حالاں کہ فوج نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔فوج نے بی بی سی کو دیے  ایک بیان میں  کہا کہ وہ ‘ایک پیشہ ور ادارہ ہے جو انسانی حقوق کو سمجھتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں‘ اور یہ کہ تمام الزامات کی ’فوری تفتیش‘ کی جاتی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این ایچ آر سی) کی جانب سے پچھلے پانچ برسوں میں اٹھائے گئے 37 کیسز میں سے 20 بے بنیاد تھے، 15 میں تحقیقات جاری ہیں اور ’صرف تین کیسز میں الزامات کو قابلِ تفتیش پایا گیا۔‘ بیان میں کہا گیا کہ قصوروار پائے جانے والوں کو سزا دی جاتی ہے۔