خبریں

بی جے پی رہنما منوج تیواری نے کہا، ہم دہلی میں بھی این آر سی نافذ کریں گے

آسام میں ہندوستانیوں کی پہچان کرنے کے لئے سنیچر کو این آر سی کی آخری فہرست شائع کر دی گئی۔ 3.3 کروڑ درخواست گزاروں  میں سے 19 لاکھ سے زیادہ لوگ آخری فہرست میں سے باہر کر دئے گئے ہیں۔

آسام کے بارپیٹا علاقے میں این ار سی کی آخری فہرست میں اپنا نام دیکھنے کے لئے ایک این آر ایس سروس سینٹر کے باہر قطارمیں کھڑے لوگ۔ (فوٹو : اے این آئی)

آسام کے بارپیٹا علاقے میں این ار سی کی آخری فہرست میں اپنا نام دیکھنے کے لئے ایک این آر ایس سروس سینٹر کے باہر قطارمیں کھڑے لوگ۔ (فوٹو : اے این آئی)

نئی دہلی:بی جے پی رہنما منوج تیواری نے آسام کی طرز پر دہلی میں این آر سی کی مانگ کی ہے تاکہ غیر قانون شہریوں کی پہچان کی جاسکے ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ دہلی میں حالات نہایت خطرناک ہیں ۔قابل ذکر ہے کہ بی جے پی رہنما اس سے پہلے بھی پورے میں این آر سی کی مانگ کی ہے۔ وہیں منوج تیواری  کا کہنا  ہے کہ ، این آر سی کی ضرورت ہے کیوں کہ دہلی میں حالات خطرناک بن رہے ہیں ۔ غیر قانونی شہری خطرہ بن گئے ہیں ۔ہم یہاں بھی این آر سی نافذ کریں گے۔

انہوں نے مذکورہ باتیں خبرر ساں ایجنسی اے این آئی سے کہیں ۔ دہلی اسمبلی انتخاب سے پہلے ان کےاس بیان کو بے حد اہم مانا جارہا ہے۔

غور طلب ہے کہ آسام کی آخری این آر سی سنیچر کو صبح 10 بجے شائع کر دی گئی۔ 3.3 کروڑ درخواست گزاروں  میں سے 19 لاکھ سے زیادہ لوگ آخری فہرست سے باہر کر دئے گئے ہیں۔واضح ہو کہ، این آر سی کی کارروائی آسام میں رہنے والے ہندوستانیوں کی پہچان کرنے کے لئے ہے۔ اس کے تحت بنگلہ دیش سے آئے غیر قانونی پناہ گزینوں کو نشان زد کیا جا رہا ہے۔آسام میں تقریباً 2500 این آر سی سروس سینٹر(این ایس کے) بنائے گئے ہیں۔ لوگ شام کے 4 بجے تک وہاں جاکر اپنی درخواست کی حالت کی جانچ‌کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی درخواستوں کی حالت کو این آر اے سی کی ویب سائٹ پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

جمعہ کو آسام کے وزیراعلیٰ سربانند سونووال نے کہا تھا کہ فہرست سے باہر ہونے والے لوگوں کو اپیل کرنے اور غیر ملکیوں سے متعلق ٹریبیونل میں سماعت کا موقع ملے‌گا۔ باہر کئے جانے والے لوگوں کا پورا خیال رکھا جائے‌گا تاکہ کسی کو بھی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

این آر سی کی جانب سے جاری ریلیز کے مطابق،’کلاز 4 (3) کے تحت تمام دعووں، اعتراضات اور کارروائی کے تصفیہ کے بعد پہلے سے ہی شامل تمام لوگوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے، یہ پایا گیا ہے کہ کل 31121004 افراد کی تعداد فائنل این آر سی میں شامل ہونے کے لائق ہے۔ این آر سی کی فائنل لسٹ میں 1906657 لوگوں کو چھوڑ دیا گیا ہے، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے دعوے پیش نہیں کئے ہیں۔فائنل این آر سی ان درخواست گزاروں  کو شامل کرنے یا باہر کرنے کی ایک ضمنی فہرست ہے، جن کے نام پہلے کے ڈرافٹ میں شامل نہیں تھے یا جن کو شامل کئے جانے پر اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا یا جو پہلے کے ڈرافٹ میں تھے، لیکن اس سال جولائی میں ہوئی سماعت کے لئے بلایا گیا تھا۔

ریاست میں این ار سی کنوینر پرتیک ہجیلا کے مطابق جن لوگوں کا نام لسٹ میں شامل نہیں ہے وہ ضروری کاغذات جمع کر پانے میں ناکام رہے۔ہندوستان ٹائمس کے مطابق، سنیچر کی صبح ہزاروں درخواست  گزارقریبی این ایس کےجاکر لمبی قطاروں میں لگ گئے تاکہ وہ فہرست کو دیکھ سکیں۔این آر سی کی فہرست جاری کرنے سے پہلے ہی ریاست میں سکیورٹی  بڑھا دی گئی تھی اور امن وامان قائم رکھنے کے لئے سی آر پی ایف  کی 218 کمپنیاں تعینات کی گئی ہیں۔ صبح 10 بجے شائع ہوئی این آر سی کی فہرست کے بعدسے  کسی ناخوشگوار واقعہ کی اطلاع نہیں آئی ہے۔

قیاس آرائی  اور غلط رپورٹوں پر روک لگاتے ہوئے مرکز اور ریاستی حکومت نے پہلے ہی صاف کر دیا ہے کہ این آر سی کی آخری فہرست سے باہر کئے جانے والے لوگوں کو غیر ملکی قرار  نہیں دیا جائے‌گا۔ان کے پاس 120 دنوں کے اندر غیر ملکی ٹریبونل میں اپیل داخل کرنے کا موقع ہوگا جس کی بنیاد پر غیر ملکی قانون، 1946 اور غیر ملکی عدالتی حکم، 1964 کے تحت ان کی شہریت کا فیصلہ ہوگا۔ریاست میں حکمراں بی جے پی، حزب مخالف کانگریس اور آل انڈیا یونائٹیڈ فرنٹ اور آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو) نے آخری فہرست سے باہر رہ جانے والے لوگوں کو مکمل  قانونی مدد مہیا کرانے کا وعدہ کیا ہے۔

پہلی بار 1951 میں تیار کئے گئے این آر سی کو سپریم کورٹ کے حکم پر سال 2015 تک اپ ڈیٹ کیا گیا تھا۔ غیر قانونی پناہ گزینوں کی پہچان کرنے، ان کے ناموں کو ووٹر لسٹ سے ہٹانے اور واپس بھیجنے کی مانگ کو لےکر اے اے ایس یو نے 1979 میں چھے سالوں تک تحریک چلائی تھی۔این ار سی کا فائنل  ڈرافٹ جولائی 2018 میں جاری ہوا تھا جس میں 40 لاکھ لوگ باہر رہ گئے تھے۔ اس کے بعد اس سال جون میں ایک ضمنی فہرست جاری کی گئی ایک لاکھ دیگر لوگ باہر رہ گئے جس کے ساتھ این آر سی سے باہر رہنے والوں کی کل تعداد 41 لاکھ ہو گئی۔

اس سے پہلے جتنی بار این آر سی فہرست جاری ہوئی ہے تب این ار سی کنوینر پرتیک ہجیلا میڈیا کو خطاب کرتے تھے لیکن اس بار شاید کسی تنازعے سے بچنے کے لئے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس لئے اس بار آخری فہرست کو این آر سی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے تحت جاری کیا گیا۔اس سے پہلے کی فہرستوں میں باہر رہ گئے لوگوں نے جہاں آخری فہرست میں اپنا نام شامل کروانے کے لئے دوبارہ درخواست دی ، وہیں ان میں سے 380000 لوگوں نے دوبارہ درخواست نہیں دی۔ اس کو دیکھتے ہوئے این آر سی افسروں نے آخری فہرست جاری کرنے سے پہلے ان کے دعووں کی ایک بار پھر سے جانچ کی۔

جہاں اے اے ایس یو اور آسام کی دیگر کمیونٹی تنظیم این آر سی کی آخری فہرست کا استقبال کر رہے ہیں، وہیں بی جے پی نے غیر ملکیوں کے شامل کئے جانے اور ہندوستانیوں کو باہر کئے جانے کا دعویٰ کرتے ہوئے آخری فہرست کو پہلے ہی غلط بتا چکی ہے۔اس مہینے کی شروعات میں آسام کے وزیراعلیٰ سربانند سونووال نے اشارہ دیا تھا کہ آخری فہرست کے ایک بار شائع ہونے کے بعد حکومت غلطیوں کو صحیح کرنے کے لئے قانونی قدم اٹھائے‌گی۔

وہیں، جمعہ کو آسام کے سینئر وزیر ہیمنتا بسوا شرما نے کہا، ‘این آر سی کی آخری فہرست شائع ہونے پر جشن منانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم اس کو کوئی تاریخی دستاویز نہیں مانتے ہیں۔ ہمارے لئے یہ صرف ایک مرحلہ پورا ہونے جیسا ہے۔ ہم غیر ملکیوں کی پہچان کرنے کے لئے پہلے ہی کسی اوراختیار پر غور کر رہے ہیں۔ ‘گوہاٹی واقع این جی او آسام پبلک ورکس کے ابھجیت شرما بھی این آر سی کی آخری فہرست سے مایوس ہیں۔ شرما کی 2009 کی عرضی پر ہی سپریم کورٹ نے 2013 میں 1951 کے این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔شرما نے جمعہ کو کہا تھا، ‘دہائیوں کی کوشش کے بعد یہ ادھورا کام ہوا ہے۔ یہ صرف آسام کے اصل باشندوں کو ختم کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔ ‘