فکر و نظر

احتجاج کرنا کب سے جمہوریت اور ملک کے خلاف ہونا ہو گیا؟

ہانگ کانگ اور کشمیر دونوں ہی اس وقت تاریخ کے ایک جیسے دور سے گزر رہے ہیں ؛ دونوں کی خودمختاری کے نام پر کیا گیا معاہدہ خطرے میں ہے اور ان سے معاہدہ کرنے والے ممالک کی حکومت ان معاہدوں  سے انکار کر رہی ہیں۔

سرینگر میں 8 اگست 2019 کو سُنسان سڑک پر کھڑے سکیورٹی اہلکار(فوٹو : رائٹرس)

سرینگر میں 8 اگست 2019 کو سُنسان سڑک پر کھڑے سکیورٹی اہلکار(فوٹو : رائٹرس)

اس وقت ہانگ کانگ اور کشمیر دونوں کے بارے میں دنیا میں بحث ہو رہی ہے، لیکن فرق صرف اتنا ہے، جہاں ہانگ کانگ اپنے تین مہینہ کے طویل مظاہرہ اور اس کے نئے طور طریقوں کے لئے بحث میں ہے ؛ تو کشمیر فوجی چھاونی بن جانے اور مظاہرہ نہ کرنے دیے جانے کی وجہ سے۔حالانکہ، چین کب تک ہانگ کانگ میں یہ سب ہونے دیتا ہے، یہ ایک بڑا سوال ہے۔ دونوں ہی اس وقت تاریخ کے ایک جیسے دور سے گزر رہے ہیں ؛ دونوں کی خودمختاری کے نام پر کیا گیا معاہدہ خطرے میں ہے۔ ان سے معاہدہ کرنے والے ممالک کی حکومت ان معاہدوں  سے انکار کر رہی ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ چین، جہاں وحدانی  ریاست (Unitary state)اور صرف ایک ہی سیاسی پارٹی کا اقتدار ہے، جو تاناشاہ کی طرح ہے۔ وہیں ہندوستان میں یہ کام وفاقی ڈھانچے اور کئی پارٹی والے جمہوری‎ ملک کی حکومت یہ سب کر رہی ہے۔

حالانکہ، پھر بھی کم سے کم پچھلے کئی مہینوں سے ہانگ کانگ میں لاکھوں لوگ مظاہرہ کر پا رہے ہیں۔ وہیں کشمیر کو چھاونی میں بدل دیا گیا ہے۔ سارے حزب مخالف رہنما اور کارکن نظربند ہیں۔ حزب مخالف پارٹیوں کو سوال کرنے پر بھی غدار وطن قرار دیا جا رہا ہے۔جہاں ہانگ کانگ میں میڈیا آزاد کوریج کر پا رہا ہے، وہیں کشمیر میں میڈیا پر بھی پابندی ہے اور مین اسٹریم  میڈیا جیسے حکومت کا بھونپو بنا ہوا ہے۔کشمیر 3 اگست سے ایسا جیل بنا ہوا ہے، جہاں عام جیلوں کی طرح اپنوں سے ملاقات کی اجازت بھی نہیں ہے۔ وہاں کی پوری آبادی کے جمہوری‎ حقوق چھین لئے گئے ہیں۔ جب تمام اہم حزب مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کی ایک جماعت حالت کا جائزہ لینے وہاں گئی، تو ان کو ہوائی اڈے سے ہی واپس بھیج دیا گیا۔وہاں کے گورنر، جو ہندوستان کی حکومت کے نمائندہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ حزب مخالف جماعت کا وہاں جانا ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس سے حالات کو معمول پر لانے میں رکاوٹ آئے‌گی۔ اس لئے ان جماعتوں کے رہنماؤں کو یہاں نہیں آنے دیا گیا اور شہریوں پر پابندی ان کی جان کی حفاظت کے لئے ہے۔

یعنی وہ سڑک پر نکلنے پر مارے جائیں‌گے۔ حالانکہ، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کو کون مارے‌گا اور کس لئے؟ وہ اس طرح سے سلوک کر رہے ہیں، جیسے وہ کسی عہد وسطیٰ کی ریاست کےمہاراجا ہیں۔آئین نہیں وہ طے کریں‌گے کہ ملکی مفاد کیا ہے؟ اور کون ان کی ریاست میں آئے‌گا اور کون نہیں، یہ بھی وہی طے کریں‌گے۔ ایسا لگتا ہے، جیسے آرٹیکل 370 ہٹنے کے بعد وہاں جمہوریت ختم ہو گئی ہے اور اس کی جگہ پر ‘راجیہ پال شاہی’آ گئی ہے۔ہانگ کانگ اور کشمیر ایک طرح سے ایک ہی دھاگہ سے جڑے ہیں۔ برٹن کی حکومت کے نمائندوں نے تاریخ میں دو الگ الگ وقت میں، ایشیا میں اپنے قبضے کے دو الگ الگ جغرافیائی علاقوں کے بارے میں، دو الگ الگ ملک کی حکومت سے دو الگ الگ معاہدہ پر دستخط کئے۔پہلا معاہدہ 27 اکتوبر 1947 کو اس وقت ہندوستان کے گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن (ہندوستان میں انگریز حکومت کے نمائندہ) نے حکومت ہند کی طرف سے جموں و کشمیر کے اس وقت کے مہاراجا ہری سنگھ کے ساتھ کیا۔

اور دوسرا معاہدہ، برٹن اور آئرلینڈ کی حکومت نے ہانگ کانگ کے بارے میں چین کے ساتھ 19 دسمبر 1984 کو۔ جہاں کشمیر فوری  اثر سے ہندوستان کا حصہ بن گیا، وہیں ہانگ کانگ 1 جولائی 1997 سے چین کا حصہ بنا۔ان دونوں ہی معاہدوں میں دو باتیں اہم تھیں: پہلی، ایک ملک دو قانون اور ؛ دوسری، خودمختاری۔ جہاں ہانگ کانگ نے صرف حفاظت اور غیرملکی معاملوں میں چین کی ماتحتی کو قبول کیا تھا ؛ اس نے مجلس عاملہ، عدلیہ اور قانون سازی کے حقوق اپنے پاس رکھے تھے۔ یہاں تک کہ اس کا اپنا الگ پاسپورٹ، پرچم اور کرنسی بھی ہے۔ اس کی یہ خودمختاری 50 سالوں کے لئے یعنی 2047 تک ہی ہے۔وہیں راجا ہری سنگھ نے جموں و کشمیر کے معاملے میں حفاظت اور غیرملکی معاملوں کے ساتھ-ساتھ مواصلات اور کورٹ کے کچھ حقوق کے ساتھ کچھ دیگر حقوق بھی حکومت ہند کو دئے تھے۔

حکومت ہند اور جموں و کشمیر کے اس وقت کے مہاراجاکے درمیان ہوئے اس پر اقرارنامہ میں دئے گئے نکات پر عمل کرتے ہوئے ہی آئین بننے کے وقت کشمیر کی خودمختاری کو تحفظ دینے کے لئے آرٹیکل 370 کو جوڑا گیا۔ اور وہاں کی زمین پر مقامی لوگوں کو تحفظ دینے کی اگلی کڑی کے طور پر دفعہ 35 اے کو۔آئین میں آرٹیکل 370 کو جوڑتے وقت عارضی لفظ ضرور جوڑا گیا، لیکن وہ ایک شرط اور اس سمجھ کے ساتھ کہ جب ایسا لگے کہ کشمیر کے لوگ اس دھارا میں دئے گئے تحفظ کو ختم کرنا چاہتے ہیں، تب وہاں کی دستور ساز اسمبلی کی رضامندی سے یہ کام کیا جا سکے۔ حالانکہ، یہ الگ بات ہے کہ وہاں کا آئین بنانے کے بعد ہی وہاں کی دستور ساز اسمبلی 26 جنوری 1957 میں ہی تحلیل کر دی گئی تھی۔

چین نے ہانگ کانگ کی خودمختاری میں روک لگانے کے لئے آہستہ آہستہ تبدیلی لانا شروع کیا اور اس کی اگلی کڑی کے طور پر ایک extradition bill لایا، جس کے تحت اگر چین سمیت کسی دیگر ملک میں کسی آدمی کو مجرم مانا گیا ہے (اس میں 37 طرح کے جرم شامل ہیں)، تو ہانگ کانگ سے اس کی واپسی وہاں کی جا سکے‌گی۔

ہانگ کانگ میں بل کے خلاف  مظاہرہ(فوٹو : رائٹرس)

ہانگ کانگ میں بل کے خلاف  مظاہرہ(فوٹو : رائٹرس)

لوگوں کو ڈر ہے کہ چین کی حکومت اس کا استعمال ہانگ کانگ میں جمہوریت ختم کرنے اور اپنے خلاف ہونے والی مخالفت کو کچلنے کے لئے کرے‌گی۔ وہ جب چاہے کسی کو بھی پکڑ‌کر چین لے جائے‌گی، جہاں کا نظام عدل پوری طرح سے حکومت کے اختیار میں ہے۔وہیں ہندوستان کی حکومت پچھلے 69 سالوں سے، یعنی آئین بننے کے ساتھ ہی، یہ کام کرتی آئی ہے۔ اس نے صدر کے حکم سے مرکز کے قانون بنانے کے حق کی 97 انٹری میں سے 93 جموں و کشمیر پر پہلے ہی نافذ کر دیا ہے۔370 جہاں ابھی کچھ خودمختاری دیتا تھا، اس سے بڑی بات تھی، وہ اس کو یہ احساس دلاتا تھا کہ کم سے کم وہاں کی زمین، ہوا، پانی اس کے اپنے تھے۔ وہاں کوئی آدمی صرف اس لئے اس کو خرید‌کر، ترقی کے نام پر، اپنی خود غرضی کے لئے اس کا استحصال نہ کر سکے کہ اس کے پاس پیسہ ہے۔

جیسا کہ شمال-مشرق کو چھوڑ‌کر ملک کے تمام قبائلی علاقوں کے ساتھ ہوا۔ حکومت ہند نے اس کا یہ احساس بھی ایک جھٹکے میں ختم کر دیا۔ لیکن کشمیر کی حالت ہانگ کانگ سے بدتر ہو گئی ہے اور ہماری حکومت چین سے زیادہ تاناشاہ۔یہ کیسا المیہ ہے ؛چین، جو 1989 میں بیجنگ کے تھیانمین اسکوائر میں لاکھوں نہتے مظاہرین کے خلاف فوج کا استعمال کر کے ہزاروں لوگوں  کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے جانا جاتا ہے۔ اس کے اپنے آزادانہ طورپر مقتدر علاقے میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔انہوں نے وہاں کے ہوائی اڈے تک پر کچھ حد تک قبضہ کر لیا تھا۔ سڑکوں پر مظاہرین کھلےعام وہاں کی پولیس سے بھڑتے نظر آ رہے ہیں۔ پھر بھی نہ تو کسی کی آنکھ پھوڑی گئی اور نہ ابھی تک کوئی مارا گیا اور یہ سب دنیا بھر کا میڈیا دکھا رہا ہے۔

وہیں کشمیر میں آرٹیکل 370 ہٹانے کے پہلے اس کو پورا خالی کرا لیا گیا ؛ امرناتھ یاتریوں  سے لےکر سارے ٹورسٹ اور مزدوروں تک کو وہاں سے باہر بھاگا دیا گیا۔ پھر وہاں کے شہریوں کے سارے بنیادی حقوق چھین‌کر ان کو ایک طرح کے ‘وار زون ‘ میں کانٹے دار تاروں اور فوجیوں سے گھیر دیا گیا۔ان سے دشمن ممالک کے شہریوں جیسا سلوک  ہو رہا ہے، لوگ ضروری دوائیاں اور دیگر ذرائع کے لئے ترس رہے ہیں۔ وہاں مظاہرہ تو بہت دور کی بات ہے، لوگوں کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔حالانکہ، اب اس مضمون کے چھپتے وقت تک چین کے ہانگ کانگ میں اپنا فوجی دستہ بھیجنے کی خبریں آنے لگی ہے۔ جو بھی ہو لیکن کم سے کم ان کو اپنی مخالفت کا کچھ موقع تو ملا اور اب کم سے کم چین کی لشکری طاقت کااستعمال تھیانمین اسکوائر کی طرح نہ تو آسان ہوگا اور نہ ہی چھپایا جا سکے‌گا۔

لیکن، حکومت ہند دنیا کو کیا پیغام دے رہی ہے؟ کہ وہ اب اپنے فیصلے کی مخالفت کو ملک سے غداری مانتی ہے اور ہندوستان میں اب جمہوریت ختم ہو گئی۔ وہ موقع آنے پر چین سے بھی زیادہ تاناشاہ بن سکتی ہے اور کسی کو بھی اپنے اتنے بڑے فیصلے کی مخالفت کا بھی کوئی موقع نہیں دے‌گی۔اب یہ سوال 370 اور کشمیر کا نہیں ہے، سوال ہندوستان میں جمہوریت رہے‌گی یا نہیں، اس کا ہے۔

(مضمون نگار سماجوادی جن پریشد سے وابستہ ہیں۔)