فکر و نظر

رویش کا بلاگ: پروفیسر رومیلا تھاپر کو سی وی بھیج دینی چاہیے…

کسی یونیورسٹی کے برباد ہونے کو جتنی سماجی اور سیاسی حمایت ہندوستان میں ملتی ہے، اتنی کہیں نہیں ملے‌گی۔ ہم بغیر گرو کے ہندوستان کو وشو گرو بنا رہے ہیں۔ رومیلا تھاپر کو ہندوستان کو وشوگرو بنانے کے پروجیکٹ میں مدد کرنی  چاہیے۔

رومیلا تھاپر، فوٹو: دی وائر

رومیلا تھاپر، فوٹو: دی وائر

یہ ہمارا نہیں آئینے کا دستور ہے۔ آئینے میں وی سی، سی وی ہی نظر آئے‌گا۔ تبھی وی سی کو خیال آیا ہوگا۔ بغیر سی وی کے وی سی بننا تو ٹھیک ہے لیکن ہماری بادشاہت میں ان کی سی وی کیسی ہوگی جن کی حیثیت وی سی سے بھی زیادہ ہے۔ بس بادشاہ جے این یو کو طلب ہوئی۔ پروفیسر رومیلا تھاپر کی سی وی منگائی جائے۔ رجسٹرار نے بھی شاہی فرمان بھیج دیا۔ کیا پتہ ان کی انا کو ٹھیس پہنچی ہوگی کہ وزیر اعظم مودی کی ڈگری پوچھی گئی۔ اسمرتی ایرانی کی ڈگری پوچھی گئی۔ اب وزیر تعلیم رمیش پوکھریال کے ڈاکٹر ہونے پر تنازعہ ہو رہا ہے۔

جواب نہ دینے کے بعد بھی بار بار پوچھنے کی گستاخی کی گئی۔ جب ڈگری ہوتی تو دے دی جاتی، جب ہے نہیں توکہاں سے دے دی جائے۔ اتنی سمپل بات اگر کوئی نہیں سمجھتا ہے تو انہی سے ان کی سی وی پوچھی جائے۔ ایک شام انہی خیالات میں ڈوبے وی سی کو لگا ہوگا-چلو پوچھنے والوں کی سی وی پوچھی جائے۔ یہ نیک اشارہ ہے۔ رومیلا تھاپر کی سی وی کو لےکر تجسس پیدا ہونا بےحد اچھا اشارہ ہے۔ لکس انڈرگارمنٹ کا اشتہار تھا۔ جب لائف میں ہو آرام تو آئیڈیا آتا ہے۔ تو آئیڈیا آ گیا ہوگا۔ چل گرو، ایک میٹنگ میں کنسلٹ کرتے ہیں، پھر رومیلا تھاپر کو انسلٹ کرتے ہیں۔

ان سے ان کی سی وی مانگتے ہیں۔ پتہ تو کریں کہ کوئی پروفیسر رومیلا تھاپر کیسے بنتا ہے۔ کتنی کتابیں لکھتا ہے، کتنی کتابیں پڑھتا ہے۔ اس ٹاپک پر چرچہ بھی خوب ہوگی۔ بےروزگاری، مندی، کشمیر اور آسام سب ٹھکانے لگ جائیں‌گے۔ سوال کرنے والوں کو گگلی دے دی جائے۔ مجھے وی سی پر فخر ہے کہ انہوں نے رومیلا تھاپر کو بلاکر کورے کاغذ پر نام لکھ‌کر دکھانے کو نہیں کہا۔ اے سے ایپّل نہیں پوچھا اور زیڈ سے زیبرا نہیں پوچھا۔ او سے آؤل نہیں پوچھا۔ بلکہ یہ بھی پوچھا جانا چاہیے۔ میں حماقت کے اس قومی تہوار کو شاندار بنانے کے لئے یہ آئیڈیا دیتا ہوں۔

بادشاہ جے این یو حکومت کو خط لکھیں اور کہیں کہ رومیلا تھاپر کے پرائمری اسکول کا پتہ لگایا جائے۔ دنیا میں نہ ہوں، تو منتر پڑھا کر دنیا میں لایا جائے۔ پوچھا جائے کہ رومیلا تھاپر کلاس میں آتی تھی کہ نہیں۔ ر  سے رشی بولتی تھیں یا نہیں۔ اگر نہیں بولتی تھیں تب ثابت ہو جائے‌گا کہ وہ ہندوستانی روایتوں  کے خلاف ہیں اورشدت پسند کمیونسٹ  تھیں۔

جے این یو انتظامیہ کے اندر کے کمرے میں ہنسی گونج رہی ہوگی۔ جب ضمیر ختم ہو جاتا ہے تو ایسی ہنسی ہی جینے کا سہارا بن‌کر رہ جاتی ہے۔ ان کو اب کوئی شام اداس نہیں کرتی ہوگی۔ کاٹھ کی مشین کی طرح بس وہ کھیلے جانے والے پرزے بن‌کر رہ گئے ہیں۔ ایک یونیورسٹی کے برباد ہونے کا اس سے اچھا ثبوت کیا ہو سکتا ہے۔ یہ ہندی ریاستوں کے نوجوانوں کے لئے خوشخبری ہے۔ قصبوں کی برباد یونیورسٹی سے ہجرت کر کے وہ لمبے وقت سے ایسی بچی-کھچی یونیورسٹی میں آتے رہے ہیں۔ اب ان کے لئے سارے راستے بند ہو گئے ہیں۔ اب وہ اپنے گھر میں آرام کر سکتے ہیں۔ ایک اور یونیورسٹی برباد ہوئی۔

میں ہندی ریاست کے نوجوانوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ان کو جے این یو کے برباد ہونے پر مٹھائی کھانی چاہیے۔ جے این یو کے خلاف ان کی وہاٹس ایپ یونیورسٹی میں ڈھیر سارے میسیج پڑے ہوں‌گے۔ جشن کے وقت ان سب کو پڑھنا چاہیے۔ نوجوانوں کی سیاسی سمجھ تھرڈ کلاس ہو چکی ہے۔ وہ مردہ ہو چکے ہیں۔ بس یہ پوچھنے بھر کے لئے زندہ ہیں کہ دو سال پہلے جو امتحان دیا تھا اس کا رزلٹ کب آئے‌گا۔ اس لئے یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ ملک کے نام پر بیچے جانے والا ہندی ریاست کا نوجوان اس فیصلے میں بھی خوبی ڈھونڈے‌گا۔ باقی کام ہندی میڈیا کر ہی دے‌گا۔

ہندی ریاست کے نوجوان تو کب سے آسام میں بن رہے ڈٹینشن سینٹرمیں رہ رہے ہیں۔ ان کا مستقبل ایسے ہی مدعوں سے بن رہا ہے، جس کو ہندی میں برباد ہونا کہتے ہیں۔ رومیلا تھاپر کو وی سی کو سی وی بھیجنی چاہیے۔ ان کی کتابوں کے نام پھر سے چھپیں‌گے۔ وی سی کو بھی سمجھ آئے‌گاکہ  کوئی رومیلا تھاپر کیسے بنتا ہے۔ نوجوان سومناتھ پر لکھی ان کی شاندار کتاب پھر سے پڑھیں‌گے۔ میں نے اس کے کچھ حصے اپنے بلاگ قصبہ پر لکھے ہیں۔

شنکتلا بھی پڑھیں۔ اشوک اور موریہ سلطنت کا زوال تو پڑھے ہی۔ حالانکہ اب اس سے کسی امتحان میں سوال نہیں آئے‌گا، وہ سب انتظام ہو چکا ہے۔ دی پبلک انٹلیکچول ان انڈیا، دی پاسٹ ایز پریزینٹ بھی پڑھیں۔ اس سے انگریزی بہتر ہو جائے‌گی۔ ہسٹری بہتر نہ ہو اس کا پورا خیال رکھیں۔ وہ ضروری نہیں ہے۔ وہ جتنا خراب ہوگی، اس دور میں آپ کی ترقی اتنی ہوگی۔

باقی یہ اطلاع اہم نہیں ہے کہ پروفیسر رومیلا تھاپر 1991 میں ریٹائر ہو گئی تھیں۔ پروفیسر ایمریٹس ایک اعزاز ہے جو یونیورسٹی اپنی طرف سے دیتی ہے، اس کے لئے کوئی پیسہ نہیں ملتا ہے۔ رومیلا تھاپر کی سی وی جے این یو کی ویب سائٹ پر بھی ہے، لیکن مانگ دینے سے نوجوانوں کو بھٹکانے میں مدد ملتی ہے سو مل گئی۔ ڈیجیٹل انڈیا کے دور میں ڈاک محکمہ نہ بند ہو جائے اس لئے سی وی مانگی گئی ہے۔ ڈاکیہ کو کام دینا ہے۔ رومیلا تھاپر کی سی وی منگانی ہے۔

رومیلا تھاپر کو فخر ہونا چاہیے، ان کی یونیورسٹی نے آخر پوچھا تو رومیلا تھاپر ہیں کیا بلا۔ ان کو وی سی کو سی وی بھیج دینی چاہیے۔ اس سے وی سی لوگوں پر دو طرح کے اثر ہوں‌گے۔ اپنی سی وی میں رومیلا کی کتابوں کے نام ڈال‌کر اپنا بتانے لگیں‌گے۔ تھیسس چراکر ہندوستان میں لوگ وی سی بنتے ہیں۔ ان کو سی وی چرانے کے حق سے محروم کرنا ویسا ہی ہے جیسی ڈکیتی پر نظر نہیں ہے، شہر میں ہنگامہ ہے کہ کسی کی جیب سے پانچ روپے کٹ گئے۔

ایک اثر یہ بھی ہوگا کہ وی سی ڈر جائیں‌گے کہ کوئی ان سے سی وی نہ مانگ دے۔ اگر ہندی ریاستوں میں بیداری آ گئی اور لوگ وی سی کی سی وی پوچھنے لگیں تو کیا ہوگا۔ ویسے وہ بیداری کبھی آئے‌گی نہیں۔ یونیورسٹی کے برباد ہونے کی جتنی سماجی اور سیاسی حمایت ہندوستان میں ملتی ہے، اتنی کہیں نہیں ملے‌گی۔ تبھی تو ہم بغیر گرو کے ہندوستان کو وشوگرو بنا رہے ہیں۔

رومیلا تھاپر کو ہندوستان کو وشوگرو بنانے کے پروجیکٹ میں مدد کرنی چاہیے۔ بس اتنی سی گزارش ہے کہ سی وی میں تھوڑی انگریزی ہلکی لکھیں ورنہ ان پر سنسکرت کو نظرانداز کرنے کا الزام لگ سکتا ہے۔ اور ہاں یہ خبر نان ریزیڈنٹ انڈین تک نہ پہنچے۔ امریکہ اور یورپ میں ان کے بچے شاندار یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں۔ ان کو شرم آ سکتی ہے۔ حماقت کی چاروں طرف جیت ہو۔ پھر کہتا ہوں، پروفیسر رومیلا تھاپر کو سی وی بھیج دینی چاہیے۔

(یہ مضمون بنیادی طور پر رویش کمار کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے)