خبریں

راجستھان ہیومن رائٹس  کمیشن نے لو-ان ریلیشن شپ  کے خلاف قانون بنانے کی مانگ کی

کمیشن نے ریاستی حکومت سے لو-ان کے بڑھتے رجحان کو روکنے کے لئے اور سماج میں خواتین کی باعزت زندگی کے حق کو محفوظ کرنے کے لئے قانون بنانے کی سفارش کی ہے۔

(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی : راجستھان ہیومن رائٹس کمیشن نے بدھ کو ریاستی حکومت سے لو-ان ریلیشن شپ کے بڑھتے رجحان کو روکنے کے لئے اور سماج میں خواتین کی باعزت زندگی کے حق کو محفوظ کرنے کے لئے قانون بنانے کی سفارش کی ہے۔کمیشن کے صدرجسٹس پرکاش ٹاٹیا اور جسٹس مہیش چندرشرما کی ایک عدالتی بنچ نے بدھ کو ریاست کے چیف سکریٹری اور محکمہ داخلہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری کو ایک خط لکھ‌کر ریاستی حکومت سے سفارش کی ہے کہ اس معاملے میں قانون بنائیں۔

کمیشن نے مرکزی حکومت سے بھی قانون بنانے کی اپیل کی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ کمیشن کے سامنے لو-ان ریلیشن شپ کے کچھ معاملے سامنے آنے کے بعدچند مہینے پہلے تمام فریقین سے لو-ان ریلیشن شپ میں رہ رہیں خواتین کے تحفظ  کے متعلق  قانون بنانے کے لئے تجویز مانگی گئی تھی۔تمام فریقین کی تجاویزاور ان کی قانونی رائے کے بعد کمیشن نے پایا کہ ہر شخص کو باعزت زندگی جینے کا حق ہے، جو کہ ہندوستانی آئین میں بنیادی حقوق میں شامل ہے۔

آج تک کے مطابق،کمیشن نے کہا ہے کہ اگر اس طرح کے لو-ان ریلیشن شپ ریاست میں ہیں تو اس کو جلد سے جلد رجسٹرڈ کروایاجائے۔کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے 27 پیج کی اپنی ہدایت میں کہا ہے کہ لو-ان ریلیشن شپ کو عدالت  نے بھی صحیح نہیں مانا ہے۔کمیشن کی دلیل ہے کہ بنا شادی کے کوئی عورت کسی کے ساتھ رہتی ہے تو اس کو رکھیل کہا جاتا ہے اور رکھیل کبھی بھی سماج میں وہ درجہ نہیں پا سکتی ہے جو ایک شادی شدہ عورت پاتی ہے۔ اس لئے کسی عورت کا رکھیل بننا عورت کی عزت نفس اور اس کے تحفظ پر حملہ ہے۔ اس کو روکنے کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔

عدالتی بنچ نے اپنی سفارش میں کہا، ‘ کسی عورت کی رکھیل کی زندگی کسی بھی نظریے سے عورت کی باعزت زندگی نہیں کہی جا سکتی ہے۔ رکھیل اپنے آپ میں ہی انتہائی خراب  اور قابل نفرت خطاب ہے۔ ‘جن ستا کے مطابق جسٹس پرکاش ٹاٹیا نے 2017 میں لو-ان ریلیشن شپ کو ‘سوشل ٹیررازم’ کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ سماج کو آلودہ کر رہا ہے۔ لو-ان ریلیشن شپ میں چھوڑی گئی عورت کی حالت طلاق شدہ عورت سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔

غور طلب ہے کہ جسٹس مہیش چندر شرما نے بھی اس سے پہلے 2017 میں ایک متنازعہ بیان دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ مور برہمچاری ہے اس لئے قومی پرندہ ہے۔شرما نے کہا تھا، ‘ ہم نے مور کو قومی پرندہ اس لئے بنایا کیونکہ مور تاعمر کنوارا رہتا ہے۔ اس کے جو آنسو آتے ہیں، مورنی اس کو پی‌کر حاملہ ہوتی ہے۔ مور کبھی بھی مورنی کے ساتھ سیکس نہیں کرتا۔ مور پنکھ کو بھگوان کرشن نے اس لئے لگایا کیونکہ وہ کنوارا ہے۔ سادھو سنت بھی اس لئے مور پنکھ کا استعمال کرتے ہیں۔ مندروں میں اس لئے مور پنکھ لگایا جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح گائے کے اندر بھی اتنی خوبیاں ہیں کہ اس کو قومی جانور بنایا جانا چاہیے۔ ‘

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)