فکر و نظر

بی جے پی کی وضع کردہ تعریف کے مطابق ’اچھا مسلمان‘ کیسے بنا جائے-عارف محمد خان کے مرتب کردہ رہنما خطوط

 بی جے پی کے اچھے مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ مسلمانیت بنیادی طور پر ہندوستان کی قومی شناخت کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ کیونکہ اسلام بیرون ہند سے آیاہے اور مسلمانوں نے ابھی تک ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو پوری طرح نہیں اپنا یا ہے لہٰذا اسلام میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کا بھارتی کرن ٹھیک طرح سے ہونا چاہئے۔

عارف محمد خان، فوٹو: پی ٹی آئی

عارف محمد خان، فوٹو: پی ٹی آئی

عارف محمد خان کا تقرربحیثیت گورنر کیرالہ اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک ایسے مسلمان  کی علامت ہیں جو بی جے پی کی وضع کردہ تعریف کے مطابق ایک اچھا مسلمان ہوتا ہے۔حالانکہ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ طلاق ثلاثہ کو جرم قرار دئے جانے کے حق میں ان کی جارحانہ تائید بھی میدان سیاست میں ان کی اِس نئی ترقی میں معاون ثابت ہوئی ہے پھر بھی بحیثیت گورنر ان کے تقررکی اہمیت کو یہ کہہ کر کم نہیں کیا جا سکتا کہ کلی  طورپر اس کی وجہ مسلم خواتین کے حقوق کے جارح علمبردار کے طور پر ان کی امیج ہے۔بحیثیت ایک’اچھا مسلمان’خان صاحب اُس سیاسی استعارے کی نمائندگی کرتے  ہیں جو تمام سیاسی جماعتوں کے نزدیک ملک کے عام مسلمانوں کی مثالی امیج ہونی چاہئے۔

تاہم بی جے پی کا’اچھا مسلمان’ کانگریس کے اچھے مسلمان سے واضح طور پر مختلف ہے اوروہ  موجودہ سیاسی ماحول سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔

اچھا مسلمان بننے کی شرطیں

بنیادی طور پر ہندوستانی سیاست میں ایک’اچھے مسلمان’ کی تعریف پر پورا اترنے کی تین شرطیں ہیں۔ثقافتی سرمائے کا مالک ہونا؛یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ ایک قانونی مسلم لیڈریا نمائندہ ہے اس کے پاس ثقافتی سرمایہ ہونا چاہئے۔کسی معروف خاندان سے تعلق، تعلیم یافتہ ہونا، سیاسی پس منظراور سیاسی طاقت تک رسائی،ثقافتی سرمائے کے لازمی اجزاء ہیں۔دقیانوسی علماء بنام آزاد خیال مسلمانوں میں عام فرق کا تذکرہ یہاں  بے محل ہے۔ آزادی کے بعد ابھرنے والے تمام قائدین کی پہلی نسل کا تعلق دولت مند اور طاقتور گھرانوں سے تھا۔ اپنا ثقافتی سرمایہ انہوں نے سیاست میں اپنا مقام بنانے کے لیے صرف کیا تھا۔

ثقافتی سرمائے کی سب سے زیادہ غیرمعذرت خواہانہ تفسیر 1990  کی دہائی میں ہندوستانی سیاست میں سیکولراور فرقہ پرست کیمپس کے درمیان شدید اختلافات کے بعد سامنے آئی تھی۔کچھ’ترقی پسند’مسلمانوں کی سیکولرزم کے لیے خدمات کا ذکر کرتے ہوئے مشیرالحسن نے اپنی کتاب  Legacy of Divided Nation: India’s Muslims Since Independence (اشاعت 1997 ) میں بحث کی ہے کہ ترقی پسند دانشواران کو سیکولر اقداراُن کے اپنے گھرانوں سے ورثے میں ملے تھے اور انھوں نے ہندوستان میں سیکولراقدار کوباقی رکھاہے۔

مشیر صاحب نے محمد حبیب (مؤرخ)، ان کے بھائی محمد مجیب اور ان کے بیٹے عرفان حبیب کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے، ان کے بقول، ہندوستان میں سیکولرزم کے فروغ میں بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ مشیرصاحب نے صحافی سیما مصطفیٰ کے خاندان کا بھی تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ؛

‘رفیع احمد قدوائی کے گھرانے کا حصہ ہیں۔ ان کی دادی مجاہد جنگ آزادی اور سوشل ایکٹوسٹ تھیں؛ لندن میں مقیم صحافی حسن سرورکے والد بحیثیت سول سروینٹ حکومت برطانیہ کے ملازم ہونے کے باوجود کانگریس کے ہمدرد تھے اور ان کی والدہ نے معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے برقعے کو خیر باد کہا تھا۔'(ص: 320 )

ان شخصیات کی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے ساتھ ساتھ جو ثقافتی سرمایہ  انہیں ورثے میں ملا تھا اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

سیاسی طور پر درست ہونا

ثقافتی ورثہ  مسلمانوں کی اشرافیہ کمیونٹی کو ایسے اچھے مسلمانوں میں تبدیل نہیں کرتا جو حکومت وقت کی وضع کردہ تعریف سے مطابقت رکھتے ہوں۔ لہٰذا اپنے سیاسی اقدار کا مظاہرہ کرنے کے لیے  انہیں غالب سیاسی درستگی پربھی ایمان لانا پڑتا ہے۔1960 کی دہائی میں کانگریس کی مسلم قیادت مسلمانوں کو مستقل قومی دھارے میں شامل ہونے کی ترغیب دیا کرتی تھی۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے کہ ہندوستان میں ایک مثالی مسلمان کا کیا کردار ہونا چاہئے وہ اپنی تقاریر اور تحاریر میں اکثر تاج محل جیسی علامات اور مغل شہنشاہ اکبرکا ذکر کیا کرتے تھے۔ فی الحقیقت کانگریس کی انتخابی مجبوری کے پیش نظر وہ اپنے وجود کو سختی کے ساتھ ہندوستان کے شاہانہ دور کی یاد گار کے طور پر پیش کرنے پر مجبور تھے۔

سیاسی جماعت کی فرمابرداری

‘اچھا مسلمان’بننے کے لیےسیاسی جماعت سے وفاداری اور اس کی فرمابرداری بہت ضروری ہے۔ شاہ بانو کیس میں کانگریسی مسلمانوں کا کردار اس کی ایک واضح مثال ہے۔ اُس وقت کانگریس سے بہت سے’ترقی پسند’مسلمان وابستہ تھے۔ مگر وہ کانگریس کے وفادار رہے اورکسی نے کانگریس کے مسلم پرسنل لاء بورڈ بالخصوص اس کے قائدمولانا علی میاں کو خوش کرنے اوراسے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کے طریقہ کار پر سوال نہیں اٹھایا۔ عارف محمد خان وہ واحد قائد تھے جنہوں نے 1986 میں  کانگریس کی اس سیاسی درستگی کی مخالفت کی تھی۔ کیونکہ شاہ بانو کیس پران کا موقف کانگریس سے مختلف تھا، لہٰذا وہ راجیوگاندھی حکومت سے مستعفی ہو گئے۔

بی جے پی کے’اچھے مسلمان’ کا امتیاز

بی جے پی کے لیے’اچھے مسلمان’ کی تعریف میں مذکورہ تین نکات کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے۔ ظفر سریش والا، ظفر اسلام، مختار عباس نقوی، شاہ نواز حسین، نجمہ ہیپت اﷲ اور عارف محمد خان کے پاس اپنا ثقافتی سرمایہ ہے پھر بھی وہ غالب سیاسی درستگی کے اصول پر عمل کرتے ہیں اور مسلمانوں سے متعلق بی جے پی کی فکرکو نہایت ایمانداری کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں۔ البتہ وہ کانگریس کے اچھے مسلمانوں سے دو لحاظ سے مختلف ہیں۔

اول یہ کہ کانگریس کے’اچھے مسلمان’ نہرو کے’وحدت میں کثرت’ کےسیدھے سادے فلسفے کو بنیاد بنا کراپنی مسلمانیت مثبت انداز میں پیش کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی قوم پرستی کا دفاع کرنے کے لیے ان کی دلیل یہ ہوتی ہے ؛حالانکہ اسلام بیرون ہند سے یہاں آیا ہے مگر یہ ہندوستانی روایات کے ساتھ گھل مل گیا ہے اور اس طرح مسلمان حب الوطن بھی ہیں اور قوم پرست بھی۔اس کے بر عکس بی جے پی کے اچھے مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ مسلمانیت بنیادی طور پر ہندوستان کی قومی شناخت کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ، کیونکہ اسلام بیرون ہند سے آیاہے اور مسلمانوں نے ابھی تک ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو پوری طرح نہیں اپنا یا ہے لہٰذا اسلام میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کا بھارتی کرن ٹھیک طرح سے ہونا چاہئے۔

ظفر اسلام صاحب مشورہ دیتے ہیں کہ مسلمانوں کوخود ساختہ علیحدگی سے نجات حاصل کرنی چاہئے؛نجمہ ہیپت اللہ کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کو پہلے اپنا محاسبہ کرنا چاہئے؛ اور یکساں سول کوڈ (جیسے کہ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے)پر عارف محمد خان کےموقف کی بنیاد آر ایس ایس کے بھارتی کرن کے پرانے فلسفے پر مبنی ہے۔دوسرے یہ کہ بی جے پی کے مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ مسلمان نہ بی جے پی میں آتے ہیں نہ آنے سکتے ہیں۔ مسلمان بنام بی جے پی کا قضیہ کھڑا کرنے سے  بحیثیت قوم پرست اپنا مقام محفوظ  بنانے ہی میں ان کو مدد نہیں ملتی بلکہ مسلم مخالف رحجان کو بھی اس سے فروغ ملتا ہے جس کا محور ہندوستانی مسلمانوں کی ممکنہ علیحدگی پسندی اور/ یا انتہا پسندی والی سوچ ہے۔

لہٰذا عارف محمد خان جیسے قائدین کے لیے یہ نا گزیر ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کوایک ایسے مسئلے کے طور پر پیش کریں جو ہنوز حل نہیں ہو سکا ہے۔ آخر کار وہ’اچھے مسلمان’ کی عمدہ مثال ہیں۔

(ہلال احمد سی ایس ڈی ایس میں ایسو سی ایٹ پروفیسر ہیں اورحال میں شائع ہونے والی کتاب Siyasi Muslims: A Story of Political Islams in Indiaکے مصنف ہیں۔)