خبریں

ہندوستان میں یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کی گئی: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ غور کرنا دلچسپ ہے کہ ریاست کی پالیسی کے ڈائریکٹو پرنسپل سے جڑے حصہ چار میں آئین کے آرٹیکل 44 میں آئین سازوں نے امید کی تھی کہ ریاست پورے ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کے لئے کوشش کرے‌گی۔ لیکن آج تک اس بارے  میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو ملک کے شہریوں کے لئے یونیفارم سول کوڈ تیار کئے جانے پر زور دیا اور افسوس ظاہرکیا کہ سپریم کورٹ  کی ‘ حوصلہ افزائی ‘ کے بعد بھی اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس انیرودھ بوس کی بنچ نے کہا کہ یہ غور کرنا دلچسپ ہے کہ ریاست کی پالیسی کے ڈائریکٹو پرنسپل سے  جڑےحصہ چار میں آئین کے آرٹیکل 44 میں آئین سازوں  نے امید کی تھی کہ ریاست پورے ہندوستان میں یونیفارم سول کوڈ کے لئے کوشش کرے‌گی۔ لیکن آج تک اس بارے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

بنچ نے 31 صفحہ کے اپنے فیصلے میں کہا، ‘ حالانکہ ہندو قوانین کو سال 1956 میں کوڈیفائیڈ کیا گیا تھا، لیکن اس عدالت کی حوصلہ افزائی کے بعد بھی ملک کے تمام شہریوں کے لئے یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے ۔ ‘ دی  ہندو کے مطابق، فیصلے میں کہا گیا 1985 میں شاہ بانو کے معاملے میں اس عدالت کے اکسانے کے باوجود حکومت نے یونیفارم سول کوڈ لانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔

عدالت نے توجہ  دلاتے ہوئے کہا کہ گووا ایک ‘ بہترین مثال ‘ ہے جہاں یونیفارم سول کوڈ ہے اور مذہب کی پرواہ کئے بغیر سب پر نافذ ہے، ‘ سوائے کچھ محدود حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے۔ ‘ گووا میں مروجہ اس کوڈ کے تحت ریاست میں رجسٹرڈ شادی کرنے والا ایک مسلم شخص ایک سے زیادہ شادی نہیں کر سکتا ہے، ایک شادی شدہ جوڑا یکساں طورپر جائیداد شیئر کرتا ہے، شادی سے پہلے سمجھوتے ضروری ہوتےہیں اور طلاق کے بعد مرد اور خاتون کے بیچ جائیداد یکساں طورپر تقسیم ہوتی ہے۔

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک ایسے معاملے میں آیا ہے جس میں یہ سوال اٹھا تھا کہ گووا کے باشندوں کا حق پرتگالی سول کوڈ، 1867 سے منضبط ہوگا یا Indian Succession Act ،1925 سے منضبط ہوگا۔ جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس انیرودھ بوس کی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملک میں کہیں بھی رہ رہے گووا کے باشندوں  کی جائیداد سے متعلق وراثت  دینے اور ریاست کا باشندہ ہونے سے متعلق حق پرتگالی سول کوڈ، 1867 سے منضبط ہوگا۔

سپریم کورٹ  نے اس سوال پر بھی غور کیا کہ کیا پرتگالی سول کوڈ کو غیر ملکی قانون کہا جا سکتا ہے۔ بنچ  نے کہا کہ یہ قانون تب تک نافذ نہیں ہوتا جب تک کہ حکومت ہند کے ذریعے تسلیم شدہ نہ ہو اور پرتگالی سول کوڈ ہندوستانی پارلیامنٹ کے ایک قانون کی وجہ سے گووا میں نافذ ہے۔ بنچ نے کہا، ‘ اس لئے پرتگالی قانون جو بھلےہی بنیادی طور پرغیر ملکی ہو، لیکن وہ ہندوستانی قوانین کا حصہ بنا اور یہ اب ہندوستانی قانون ہے۔ یہ اب غیر ملکی قانون نہیں ہے۔ گووا ہندوستان کا خطہ ہے، گووا کے سبھی لوگ ہندوستان کے شہری ہیں۔ ‘

بتا دیں کہ، گووا تب تک ایک پرتگالی نوآبادی تھا جب تک اس کو ہندوستان کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔ حالانکہ، 2018 میں ہندوستان کے ایک لاء کمیشن کے consultation paper نے کہا تھا کہ اس سطح پر ملک میں یونیفارم سول کوڈ نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی کوئی اس کی مانگ‌کر رہا ہے۔ کمیشن نے کہا تھا کہ سیکولرزم ملک میں موجود اکثریت کی تردید نہیں کر سکتا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)