فکر و نظر

آرٹیکل 370: کیا اصل میں بی جے پی جموں و کشمیر کے دلتوں کے حقوق کے لئے فکرمند ہے

جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 اور 35 اے ہٹانے کی بحث کے دوران بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے دلتوں کو ریاست میں ریزرویشن کا پورا فائدہ ملنے کا ذکر کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ڈاکٹر امبیڈکر بھی ایسا چاہتے تھے۔ لیکن کیا اصل میں 370 ہٹنے کے پہلے ریاست میں دلتوں کی حالت خراب تھی؟

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

پارلیامنٹ میں جب آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرنے کا بل پاس ہو رہا تھا تو حکومت کو سب سے زیادہ فکر دلت مفاد کی دکھی۔ بل پیش کرتے وقت اور باری باری سے جو بھی دوسرے مقرر بی جے پی کی طرف بولے، سب سے پہلے ان کی فکر دکھی کہ ان آرٹیکل کے ہٹنے سے دلتوں کو ریزرویشن کا پورا فائدہ ملے‌گا۔حالانکہ 2014 سے ان کی خود کی تاریخ ریزرویشن کے تحفظ اور اس کو نافذ کرنے کو لےکے کیا رہی ہے، یہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔ دوسری بار جب حکومت میں آئے تو اعلان پر اعلان کیا کہ زیادہ تر سرکاری کمپنیوں کو بیچنا ہے تاکہ رہا-سہا بھی ریزرویشن ختم ہو جائے۔یہاں تک تشہیر کی گئی کہ وہاں کے والمیکی سماج کا صرف میلا صاف کرنے کے لئے قانون بنا ہے، یہ ثابت بھی کرنے کی کوشش کی گئی کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک  ہوا۔

ڈاکٹر بی آر امبیڈکر آرٹیکل 370 کے خلاف تھے اس کی بھی زور شور سے تشہیرو توسیع کی گئی۔ ایسے میں تفتیش اور جانچ کی ضرورت ہے کہ کیا اصل میں آرٹیکل 370 کے پہلے دلتوں کی حالت خراب تھی۔تاریخ بتاتی ہے کہ ڈوگرہ  ریاست نے کبھی تقریباً 556 والمیکی فیملی کو بسایا تھا۔ گورکھا بھی باہر سے آئے تھے۔ جو بھی باہر سے آئے وہ سب اپنے ہی پیشے تک محدود کر دئے گئے تھے۔بڑی تعداد میں لوگ پاکستان مقبوضہ کشمیر سے بھی آئے۔ ان سبھی کو جموں و کشمیر کی شہریت نہیں ملی اور اب آرٹیکل 35 اے ہٹنے کے بعد، سب کو شہریت فطری طورپر مل گئی ہے۔

اب تک ان سبھی کو سرکاری نوکریاں نہیں ملتی تھی کیونکہ شہریت ہی نہیں تھی۔ والمیکی کمیونٹی کو ایک چھوٹ ضرور دی گئی تھی کہ وہ میونسپل کارپوریشن میں صفائی کے کام میں نوکری کر سکتے ہیں۔ کشمیر میں دلت ہے ہی نہیں، جموں علاقے میں ضرور ان کی آبادی 8 فیصد ہے۔ایس سی –ایس ٹی متحدہ ریاست کے جموں و کشمیر کے صدر آر کے کلسوترا نے مخالفت کی کہ دلتوں کے کندھے پر بی جے پی بندوق رکھ کر نہ چلائے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو بھی ظلم ہوتا ہے وہ اونچی ذات کے ہندو کرتے ہیں نہ کہ مسلم۔

انہوں نے ایک مثال دی  کہ قبل میں رکن پارلیامان رہے شری جگل کشور نے اپنے فنڈ سے اونچی ذات کو الگ سے شمشان گھاٹ بنانے کے لئے رقم منظور کی، جو جگہ بیشناہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ جب اس کی مخالفت ہوئی تب جا کرکے روک لگی۔ ابھی بھی جموں میں الگ الگ شمشان گھاٹ ہیں۔آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ہٹا تو دیا لیکن پچھڑوں اور دلتوں کو فائدہ کیا ہوا یہ جاننا ضروری ہے۔ ابھی تک پچھڑوں کا ریزرویشن وہاں 2 فیصدنافذ تھا جبکہ 27 فیصد ہونا چاہیے۔ ایس سی-ایس ٹی  اور پسماندہ کمیشن قائم کیا جائے‌گا کہ نہیں اس پر ابھی تک حکومت کا کوئی رخ صاف نہیں ہوا۔

اب اور آئین کے 106 آرٹیکل نافذ ہونے ہیں جس میں یہ صاف نہیں ہے کہ 81 واں، 82 واں، 85 واں آئینی ترمیم کیا اس میں شامل ہے۔یہ آئینی ترمیم ریزرویشن سے متعلق ہیں۔ جموں و کشمیر میں 2004 میں ریزرویشن قانون اور ایس آر او 144 پروموشن میں ریزرویشن دینے کے لئے بنا تھا لیکن ہائی کورٹ نے اس کو خارج کر دیا تھا، اب اس کا کیا ہوگا کچھ واضح نہیں ہے۔جموں و کشمیر میں ایس ٹی  کو 10 فیصد، ایس ٹی کو 8 فیصد، پسماندہ طبقے کو 2 فیصد، علاقائی پسماندہ طبقے کو 20 فیصد، غریب اشرافیہ کو 10 فیصد، پہاڑیوں کو 3 فیصد، لائن آف کنٹرول والوں کو 3 فیصد اور سرحد پر رہنے والوں کو 3 فیصد کل 59 فیصد ریزرویشن بنتا ہے۔ اب مرکزی حکومت کے ریزرویشن کے معیار نافذ ہوں‌گے تو کیا حالت ہوگی، یہ تو آنے والا وقت بتائے‌گا۔

آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو وہاں کے دلتوں کی بڑی فکر ہے لیکن جب ان کو موقع ملا تھا تو کیا کیا؟2001 میں نیشنل کانفرنس کے ساتھ میں حکومت بنائی، پی ڈی پی کے ساتھ بھی چار سال کی حکومت رہی ہے۔ کیا بی جے پی کے ایم ایل اے نے اسمبلی میں دلتوں اور پچھڑوں سے متعلق ان سوالوں کو اٹھایا؟اپریل 2015 میں جموں و کشمیر حکومت کی کابینہ  نے فیصلہ لیا کہ بنا ریزرویشن سرکاری نوکری میں بھرتی کی جائے‌گی۔ پری سنگھ سمیت تمام تنظیموں نے جب تحریک چلائی تب جاکر ریزرویشن کوٹہ کو بھی بنیاد مانا۔ دھیان رہے کہ اس وقت بی جے پی اور پی ڈی پی کی حکومت تھی۔

اگر انہوں نے اس سے پہلے ایسے کوئی مدعے اٹھائے ہوتے تو مانا جاتا کہ ان کے ارادے نیک ہیں ورنہ مسلم-ہندو کا کارڈ کھیلنے کے علاوہ اس میں اور کیا ہے؟جب آرٹیکل 370 کا تنازعہ بڑھا تب کچھ سچائی ابھر کر سامنے آئی ورنہ تو لوگ سوچتے تھے کہ جموں و کشمیر میں بھوک مری اور غریبی زیادہ ہے۔ اب جاکر پتہ  لگا کہ کئی سطحوں پریہ ریاست نہ صرف ترقی کا مترادف بنا دیے گئے گجرات سے بلکہ تمام دیگر ریاستوں سے بھی آگے ہے۔نیشنل کانفرنس رہنما شیخ عبداللہ اور بخشی غلام جب وزیراعلیٰ تھے، تب اصلاح اراضی قانون کو سختی سے نافذ کیا، جس سے زمینداری ٹوٹی اور سب کے پاس جوتنے کے لئے زمین مہیا ہو سکی۔

یہ قانون سختی سے اس لئے نافذ ہو سکا کہ آرٹیکل 370 کی وجہ سے زمیندار عدالت کا سہارا نہیں لے پائے ورنہ دسوں سال تک معاملے لٹکے رہتے ہیں۔کئی ریاستوں میں اصلاح اراضی قانون اس لئے کامیاب نہیں ہو پایا کہ عدالتوں میں معاملے دہائیوں سے زیر التوا رہے۔ دلتوں کو بھی اس کا فائدہ ملا۔یہی وجہ ہے کہ وہاں پر دیگر ریاستوں سے حالت بہتر ہے۔ دیگر ریاستوں جیسے جموں و کشمیر میں دلتوں کے ساتھ ریپ، ظلم وستم اور تشدد جیسے واقعات سننے کو نہیں ملتے ہیں۔

اگر ابھی تک دلتوں کا بھلا نہیں ہوا ہے تو یہ موقع اچھا ہے، کچھ کرکے دکھائیں۔ جہاں تک ڈاکٹر امبیڈکر کی رائے آرٹیکل 370 کے بارے میں ہے، تو اس طرح سے ان کی سیکڑوں مانگیں نہیں پوری کی جا سکیں۔ڈاکٹر امبیڈکر ذات پات کو ختم کرنا چاہتے تھے تو کیا ہو پایا؟ زمین کےنیشنلائزیشن  کی بات کہی تھی، وہ بھی نہ ہو پایا۔ وقت اور حالات بدل گئے ہیں، پرانی باتوں کا تذکرہ  کرنے سے مسائل کو سلجھانے کے بجائے الجھانے میں ہی لگے رہیں‌گے۔

ڈاکٹر امبیڈکر نے یہ بھی کہا تھا کہ جموں و کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ لداخ کو یونین ٹریٹری ریاست بنا دیا جائے اور کشمیر کے لوگوں کو یہ آزادی دی جائے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا خودمختاری چاہتے ہیں۔ادھوری سچائی کا تذکرہ  کرکے کسی عظیم شخصیت کو غلط طورپر نہیں پیش کرنا چاہیے، جیسا کہ مایاوتی اور بی جے پی نے کیا ہے۔

(مضمون نگار سابق ایم پی اور کانگریس کے ممبر ہیں۔)