فکر و نظر

تلنگانہ لبریشن ڈے کو بی جے پی فرقہ وارانہ رنگ کیوں دے رہی ہے؟

17 ستمبر 1948 کو ہندوستانی یونین میں حیدر آباد کا انضمام ہوا تھا، جس کا ایک بڑا حصہ تلنگانہ ہے۔ اس انضمام کو الگ الگ مکتبہ فکر کے لوگ الگ الگ نظریے سے دیکھتے ہیں اور اس کی تشریح کرتے ہیں۔ بی جے پی اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے تحت اس کو مسلمان حکمراں سے ہندو آبادی کو ملی آزادی کے طور پر پیش کر رہی ہے۔

فوٹو بشکریہ : وکی میڈیا کامنس

فوٹو بشکریہ : وکی میڈیا کامنس

ہرسال جب بھی 17 ستمبر آتا ہے، تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے دل میں تلنگانہ کے لئے بے پناہ  جذبات  امڈ پڑتا ہے۔ نظام اور اس کے دورحکومت میں ہوئے ظلم و ستم پر وہ اس موقع پر خاصے غصہ کا اظہار کرتی ہے۔وہ نظام کے خلاف جدو جہد کرنے والے بہادروں اور ان کی قربانیوں کی کہانیاں سناتے نہیں تھکتی ہے۔یہ سب دیکھ‌کر تاریخ سے بےخبر لوگوں کو یہ احساس ہو سکتا ہے کہ بی جے پی یا ان کے پیش رو ادارہ کے لوگوں نے سچ مچ نظام کے خلاف جدو جہد کی ہوگی، لیکن کڑوی سچائی یہ ہے کہ نظام-مخالف جدو جہد میں نہ بی جے پی، نہ ہی آر ایس ایس اور نہ ان کی معاون-تنظیموں  کا ذرا بھی رول تھا۔

ضروری نہیں ہے کہ کسی جدو جہد میں رول  نہ ہونے محض سے کسی کو اس تحریک کی تعریف نہیں کرنی چاہیے یا پھر اس پر تنقید اورتبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن دقت یہ ہے کہ بی جے پی اس جدو جہد کی تعریف نہیں کر رہی ہے، بلکہ اس کو فرقہ پرستی کا رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔بی جے پی-آر ایس ایس کے رہنماؤں کی کوشش یہ ثابت کرنے کی ہے کہ چونکہ اس وقت کے حکمران مسلمان تھے اس لئے انہوں نے ہندو مذہب کے لوگوں پر ظلم کیا تھا۔ وہ تلنگانہ کے لوگوں کی مسلح بغاوت کو مسلمان حکمرانوں کے خلاف ہندو عوام کی جدو جہد کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جبکہ  سچائی یہ ہے کہ تلنگانہ کے تمام مذاہب کے لوگوں نے نظام کے خلاف جدو جہد کی تھی۔ وہ جدو جہد مذہب سے پرے تھی۔ اس سچائی کے باوجود بی جے پی یہ کوشش کر رہی ہے کہ اس کوفرقہ پرستی کا رنگ دیا جائے تاکہ آگے چل‌کر اس کو انتخابی فائدہ ملے۔تلنگانہ مسلح جدو جہد کو بھنا کرسیاسی روٹیاں سینکنا بی جے پی-آر ایس ایس کی منشا ہے۔ خاص طور پر وہ اب 17 ستمبر کو تلنگانہ میں اقتدار حاصل کرنے کی ایک گہری چال کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

تلنگانہ کی جدو جہد اور اس کی وجہ

تلنگانہ مسلح تحریک مطلق العنان حکومت-زمیندارانہ نظام  کو اکھاڑ پھینک‌کر جمہوریت قائم کرنے کے لئے ہوئی تھی۔ وہ جدو جہد کسی مذہب کے خلاف نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی وہ اسلام مخالف تحریک تھی کیونکہ اس وقت کا حکمراں نظام مسلمان تھا۔دراصل نظام کی حکومت کی مضبوط اور جامع بنیاد ہندو جاگیردار اور زمین دار ہی تھے، خاص طور پر ہندو زمیندار ہی اس کی حکومت کے مضبوط ستون تھے۔ وہ جدو جہد سب سے پہلے ہندو زمین دار کے خلاف ہی شروع ہوئی تھی جس کو دبانے کے لئے نظام کی پولیس اور فوج میدان میں اتری تھیں۔

اس تاریخ کو جھٹلانے کی کوشش کے تحت بی جے پی ان زمین داروں  کی بات نہیں کر رہی ہے جن کے خلاف وہ جدو جہد ہوئی تھی اور نہ ہی وہ یہ بتاتی کہ اس زمانے میں گاؤں میں بندھوا مزدوری کی روایت کو کون لوگ چلا رہے تھے جس کو اس جدو جہد کی بدولت رد کیا گیا تھا۔بی جے پی اس زمانے میں تلنگانہ کے گاؤں میں قائم ‘رعایا ریاستوں'(عوامی حکومتوں)کا ذکر تک کرنا پسند نہیں کرتی جس کی رہنمائی میں غریب کسانوں-مزدوروں کے درمیان زمینیں بانٹی گئی تھیں۔

دراصل بی جے پی زمین دار سے زمینیں چھین‌کر غریب عوام کے درمیان بانٹے جانے کی حمایت ہی نہیں کرتی۔ اتناہی نہیں، یونین کی فوجوں نے عوام کے درمیان بانٹی گئی زمینوں کو پھر سے زمینداروں کے حوالے جو کیا تھا، اس کی بی جے پی نے کبھی تردید نہیں کی تھی۔گاؤں میں’رعایا ریاستوں’کو تباہ کرکے، گاؤں سے بھاگے ہوئے زمین دار کو واپس لاکر، پھر سے گاؤں میں اقتدار کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں سونپنے پر بھی بی جے پی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مختصراً  کہا جائے تو، جن مدعوں کو لےکر تلنگانہ کے کسانوں کی مسلح تحریک چلی تھی ان مدعوں کا نہ تو بی جے پی (یا اس کی پیش رو تنظیموں) نے کبھی حمایت کی تھی، نہ ہی اب ان مدعوں سے اس کو ہمدردی ہے۔

اس کے باوجود  کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں تھا، پھر بھی وہ نظام-مخالف مسلح جدو جہد کی تعریف کرتے نہیں تھک رہی ہے۔ آخر کیوں؟

کیونکہ 1946 سے 1951 کے درمیان چلی تلنگانہ مسلح کسان جدو جہد کے متعلق تلنگانہ کے لوگوں کے دلوں میں آج بھی بہت احترام ہے۔ اس لئے بی جے پی کی کوشش یہ ہے کہ اس جذبہ کوبھناتے ہوئے اس کو توڑا مروڑا جائے اور اس کو فرقہ پرستی کا رنگ دے دیا جائے تاکہ مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔اس کی ایسی حکمت عملی کی کئی حالیہ مثالیں بھی ہیں۔ شمالی ہندوستان  میں، خاص طورپر اتر پردیش میں انتخابات کے ٹھیک پہلے بی جے پی نے کس طرح فرقہ پرستی کو ہوا دی تھی، اس سے سب  واقف ہیں۔ ٹھیک اسی طرح تلنگانہ میں بھی 17 ستمبر کے نام سے فرقہ وارانہ  جذبات کو بھڑکانا بی جے پی کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

تلنگانہ کی آزادی()لبریشن کے نام سے بی جے پی جو دلیلیں دے رہی ہے وہ تمام جھوٹی اور خیالی ہیں، اس میں کوئی دورائےنہیں ہے۔ مثلاً، اول-بی جے پی یہ کہتی ہے کہ جب پورے ہندوستان کو آزادی ملی تھی، تب تلنگانہ کو نہیں ملی تھی، جو تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش بھر ہے۔سچ یہ ہے کہ حیدر آباد ریاست انگریزوں کی کالونی تھی ہی نہیں۔ برٹش انڈیا کی حکومت کے ساتھ کچھ معاہدے ضرور تھے، لیکن حیدر آباد ریاست کی الگ فوج، الگ کرنسی، الگ ٹیلی مواصلات، الگ ریڈیو اسٹیشن اور الگ ریلوے اسٹیشن تھے۔ وہ پوری طرح سے ایک آزاد ملک تھا۔

15 اگست 1947 کو انگریزوں کے چلے جانے کے بعد حیدر آباد ریاست ان تمام معاہدوں سے بھی آزاد ہوئی تھی اور ایک آزاد ملک کے طور پر سامنے آئی تھی اس لئے بی جے پی کی یہ تشہیر کہ 15 اگست 1947 کو تلنگانہ کو آزادی نہیں ملی، نری بکواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔دوسری-تاریخ کے ساتھ بی جے پی کی چھیڑچھاڑ کی ایک اور مثال یہ ہے کہ وہ 17 ستمبر 1948 کو حیدر آباد ریاست کے ہندوستانی یونین میں انضمام کو آزادی (لبریشن) بتاتی ہے۔ بقول بی جے پی ہندوستانی یونین کی فوجوں نے نظام کو ہراکر تلنگانہ کے عوام کو آزادی دلائی۔

لیکن  سچائی یہ ہے کہ تب تک کمیونسٹوں کی رہنمائی میں تلنگانہ کی عوام نے نظام حکومت کی ناک میں دم کر رکھا ہوا تھا۔ تین ہزار سے زیادہ گاؤں میں نظام حکومت کو نیست و نابود کیا گیا تھا اور نظام کے زمین دار کی لاکھوں ایکڑ زمینیں چھین لی گئی تھیں۔ گاؤں میں عوامی حکومتوں (رعایا ریاست) کی تشکیل ہوائی تھی۔ کمیونسٹ طاقتیں دن بہ دن مضبوط ہوتی جا رہی تھیں۔کہا جاتا ہے کہ حکومت ہند کو یہ ڈر ستانے لگا تھا کہ کہیں حیدر آباد کمیونسٹ کے ہاتھوں میں نہ چلا جائے۔ اسی ڈر سے انہوں نے آناً فاناً میں پولیس کارروائی کے نام سے تلنگانہ پر حملہ کیا تھا اور تلنگانہ کا ہندوستان میں انضمام کیا تھا جبکہ ہندوستانی یونین کے ساتھ نظام کی صورت حال (status quo) بنائے رکھنے کا سمجھوتہ پہلے سے نافذ تھا۔

اسی کو لےکر بی جے پی کے لوگ تشہیر کرتے رہتے ہیں کہ ولبھ بھائی پٹیل نے تلنگانہ کو آزادی دلائی تھی۔ تو پھر بی جے پی یا آر ایس ایس کے لوگوں کو ان سوالوں کا بھی جواب دینا ہوگا-اگر پٹیل نے تلنگانہ کو آزادی دلائی تھی تو اسی نظام کو پٹیل نے تلنگانہ کا ریاستی سربراہ کیسے مقرر کیا تھا؟ جب خود نظام ہی ‘ریاست کے سربراہ ہوں تو وہ کس طرح کی آزادی کہلاےگی؟نظام کے دورحکومت میں ہوئے استحصال-مظالم کے بارے میں کمیونسٹ سے بھی بڑھ-چڑھ‌کر تشہیر کرنے والی بی جے پی-آر ایس ایس کے لوگ اس سوال کا جواب کیوں نہیں دیتے کہ آخر نظام کو جیل میں رکھنے کے بجائے ‘ریاست کا سربراہ کیوں بنایا گیا تھا؟ اس کے لئے وہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کی تنقید کیوں نہیں کرتے؟

سوالوں کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوگا۔ نظام کے نیم فوجی دستہ ‘رضاکاروں’کے سردار قاسم رضوی نے لوگوں پر جو ظلم وستم کئے تھے، اس کے بارے میں جاننے-سننے والے یہی کہیں‌گے کہ اس کو پھانسی دی جانی چاہیے تھی۔ لیکن پٹیل جی نے اس کے ساتھ کیا کیا تھا؟ کچھ دنوں تک جیل میں رکھنے کے بعد اس کو پاکستان  جانے دیا گیا تھا۔ قاسم رضوی کی موت بوڑھے ہونے کے بعد ہی کراچی میں ہوئی۔قاسم رضوی کےمظالم کا حوالہ دےکر ہی ہندوستانی فوج کی مدد سے ہزاروں بےقصور مسلمانوں کا فسادات میں قتل کروایا گیا تھا۔ آخر پٹیل نے اس پر اجتماعی قتل، انسانی حقوق کی پامالی، جنگی جرائم وغیرہ کے معاملے درج کرواکر پھانسی کی سزا کیوں نہیں دلوائی؟ کیا بی جے پی-سنگھ کے لوگوں کے پاس اس کا جواب ہے؟

نظام کو جیل میں نہیں ڈالا گیا اورقاسم رضوی کو پھانسی نہیں دی گئی۔ لیکن دوسری طرف نظام-رضوی کے خلاف لڑنے والے تلنگانہ کے تقریباً4000 لوگوں کو ہندوستانی فوجوں نے مار ڈالا تھا۔ کیا یہی ہے تلنگانہ کی آزادی؟ کیا اسی لئے سردار پٹیل کو تلنگانہ کا’ نجات دہندہ’ مان لیں؟بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ نظام کے خلاف لڑنے والے نلّا نرسنہولو جیسے کئی کمیونسٹ رہنماؤں کو نظام کی عدالت نے پھانسی کی سزائیں دی تھیں۔ ہندوستانی یونین میں حیدر آباد کے انضمام کے بعد سپریم کورٹ میں ان سزاؤں کو رد کرنے کی اپیلیں داخل کی گئی تھیں، لیکن ہندوستانی کی عدالت عظمیٰ نے ان اپیلوں کو خارج کیا تھا۔

اس کے بعد جب عالمی سطح پر جینیوا اور لندن میں ان پھانسی کی سزاؤں کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے تب جاکر اس وقت کے ہندوستان کے صدر نے ان کو عمر قید کی سزاؤں میں تبدیل کیا۔ یعنی جہاں ایک طرف نظام کو ریاست کا سربراہ بنایا جاتا ہے اور رضوی کو جیل میں محفوظ رکھا جاتا ہے، وہیں دوسری طرف نظام کے خلاف لڑنے والے 4000 لوگوں کو مار دیا جاتا ہے اور اس جدو جہد کی قیادت کرنے والے کمیونسٹ کو دی گئی پھانسی کی سزاؤں کو رد کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔سردار پٹیل کی رہنمائی میں تلنگانہ کی جس ‘آزادی’کی بات بی جے پی کر رہی ہے، اس کی اصلیت یہ ہے۔ بی جے پی یہ کوشش کر رہی ہے کہ تلنگانہ کے  تاریخ کو جھٹلاکر، جھوٹ، آدھا-سچ اور تاریخ کی مسخ شدہ قرأت کی بنیاد پر اقتدارپر قبضہ‌کیا جائے۔

(مضمون نگار آزاد مبصر ہیں۔یہ مضمون بنیادی طور پر تیلگو میں لکھا گیا ہے۔)