خبریں

انٹرنیٹ کا استعمال آئین میں ملے بنیادی حقوق کا حصہ ہے: کیرل ہائی کورٹ

کیرل کی کالی کٹ یونیورسٹی کے ایک کالج کے بی اے کی طالبہ نے ہاسٹل میں موبائل استعمال نہ کرنے کے حکم کو چیلنج کیا تھا۔ ہاسٹل میں رات 10بجے سے صبح چھ بجے تک لڑکیوں کو موبائل کے استعمال کی اجازت نہیں تھی۔

علامتی تصویر(فوٹو : رائٹرس(

علامتی تصویر(فوٹو : رائٹرس(

نئی دہلی: اپنے ایک اہم فیصلے میں کیرل ہائی کورٹ  نے مانا کہ علم حاصل کرنے کے لئےطلبا کے وسائل  اور طریقوں پر روک لگاکرڈسپلن  نہیں تھوپا جانا چاہیے۔عدالت نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ کا استعمال آئین کے آرٹیکل 21کے تحت تعلیم اور پرائیویسی کے حق کا حصہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے اس اسٹوڈنٹ کو کالج کے ہاسٹل میں پھر سے ایڈمیشن دینے کی ہدایت دی جس کو موبائل فون کے استعمال پر روک-ٹوک کی مخالفت کرنے پر نکال دیا گیا تھا۔عدالت میں کالج ہاسٹل سے نکالی گئی اسٹوڈنٹ  کو پھر سے داخلہ دینے کی ہدایت دی ہے۔

گزشتہ جمعرات کو اپنے فیصلے میں جسٹس پی وی آشا نے کہا، ‘اقوام متحدہ  نے پایا ہے کہ انٹرنیٹ کا استعمال کرنا ایک بنیادی آزادی ہے اور یہ تعلیم کے  حق کو یقینی بنانے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ ایسا کوئی بھی ضابطہ یا ہدایت جو طالبعلموں کے اس حق کو نقصان پہنچاتا ہے، اس کو قانوناً اجازت نہیں دی جا سکتی۔’اپنی عرضی میں متاثرہ اسٹوڈنٹ نے کہا تھا کہ ہاسٹل کاضابطہ  اس کی اظہار رائے کی آزادی، پرائیویسی  اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔کالی کٹ یونیورسٹی کے شری نارائن گرو کالج کے بی اے کے دوسرے سال کی اسٹوڈنٹ فہیمہ شیرین نے ہاسٹل سے نکالے جانے کو چیلنج کرتے ہوئے ایک عرضی ڈالی تھی۔ اس عرضی پر عدالت نے یہ فیصلہ دیا ہے۔

عرضی میں 19سالہ متاثرہ  نے کہا کہ ہاسٹل میں رہنے والوں کو ہاسٹل کے اندر رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک موبائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ گریجویٹ طالبات کو ہاسٹل میں لیپ ٹاپ استعمال کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اس طرح کی پابندیاں صرف لڑکیوں کے ہاسٹل میں ہی لگائی گئی ہیں۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ  جون مہینے میں ہاسٹل میں یہ اصول نافذ کیا گیا تھا۔ ہاسٹل کی طالبات کو رات 10بجے سے صبح چھ بجے تک اپنے موبائل فون اور لیپ ٹاپ وارڈن کے پاس جمع کرنا ہوتا تھا۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ موبائل فون کے استعمال پر پوری طرح سے پابندی اور پڑھائی کے گھنٹوں میں اس کو جمع کروانے کی ہدایت پوری طرح سے غیرضروری ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ڈسپلن قائم کرتے ہوئے  موبائل فون کے مثبت پہلو کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔

این ڈی ٹی وی سے بات چیت میں شیرین نے کہا، ‘اسٹڈی کے علاوہ ہم موبائل فون اور انٹرنیٹ کا استعمال بہت ساری چیزوں کے لئے کرتے ہیں۔ میں اپنی اسٹڈی، مفوضہ کام  اور ریسرچ کے لئے ہمیشہ انٹرنیٹ کا استعمال کرتی ہوں۔ جب سیلف اسٹڈی کا وقت ہوتا تھا تب ہم اس کا استعمال ہی نہیں کر سکتے تھے، اس لئے میں نے اپنا موبائل فون وارڈن کے پاس جمع کرنے سے منع کر دیا تھا۔ میرے اس فیصلے کی میرے والد نے بھی حمایت کی تھی۔’

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)