فکر و نظر

شہلا رشید کے مخالف ان سے اتنا چڑھتے کیوں ہیں؟

سیڈیشن کا سنگین الزام یہ بتاتا ہے کہ حکومت ٹرولس سے متفق ہے اور یہ مانتی ہےکہ  شہلا ایک خطرناک انسان ہیں۔

شہلا رشید، فوٹو: انسٹا گرام

شہلا رشید، فوٹو: انسٹا گرام

شہلا رشید نوجوان ہیں، اسمارٹ ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، اپنی بات کہنے کاہنررکھتی ہیں اور عوامی مسائل سے پورا واسطہ رکھتی ہیں۔ہندوستان کو ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہیں۔ کوئی اور وقت ہوتا، تو ان کا ذکر رسالوں کی پسندیدہ ‘ینگ انڈینس ٹولک فار ‘یا ’30انڈر 30’جیسی فہرستوں میں ہوتا۔لیکن آج وہ سیڈیشن  کے الزامات کا سامنا کر رہی ہیں، اور ہندوستان کی آن لائن (اور یقینی طور پر آف لائن) آبادی کا ایک بڑا بولڈحصہ ان سے نفرت کرتا ہے اور ان کوگالیاں دیتا ہے۔ ان کو غدار بتاکر ٹرول کیا جاتا ہےاور ان کو لےکر سیکڑوں طرح کے نازیبا میم شیئر کئے جاتے ہیں۔

سیڈیشن کا سنگین الزام یہ بتاتا ہے کہ اقتدار انٹرنیٹ کے پھبتی بازوں سےمتفق  ہے کہ وہ ایک خطرناک انسان ہیں۔ فی الحال کے لئے ان کو کورٹ سے عبوری راحت مل گئی ہے، لیکن یہ بدل سکتا ہے اور ایسی صورت میں وہ لمبے وقت کے لئے جیل جاسکتی ہیں۔اوپر ان کے جن اوصاف کاتذکرہ  کیا گیا، شاید و ہی روئٹ ونگ اور ہندوتوا کےلٹھیتوں اور اقتدار کو ناراض کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف ان کو پریشان کرتی ہیں، بلکہ دنیا کو لےکر ان کے نظریے کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ اس میں اگر یہ جوڑ دیا جائےکہ وہ کمیونسٹ ہیں، ایک خاتون ہیں، ایک مسلم ہیں، ایک کشمیری ہیں-تب وہ ان کے لئے اور باعث نفرت بن جاتی ہیں۔

عورتوں سے اپنی حد میں رہنے کی امید کی جاتی ہیں اور مسلمانوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ سر جھکاکر اپنی زندگی گزاریں، نہ کہ سب کا دھیان اپنی طرف کھینچیں۔ کشمیری کو، جو ہندتووادیوں کی نظر میں تب تک دہشت گرد ہیں، جب تک کہ اس کے الٹ ثابت نہ ہو جائے، زبان پر تالا لگاکر رکھنا چاہیے۔رشید نہ صرف بولتی ہیں، بلکہ بلند آواز میں، وضاحت اور پورے دم خم کے ساتھ بولتی ہیں۔ یہ نشان زد کرنا بھی اہم ہے کہ وہ کبھی آپا نہیں کھوتی ہیں-ان کی آواز ہمیشہ نرم ہوتی ہے اور وہ کافی سوچ سمجھ کر بولتی ہیں۔لیکن وہ اپنا نظریہ صاف رکھتی ہیں۔ وہ ان بڑے نام والوں جیسی نہیں ہیں، جواپنے خیالات کو چھپا لیتے ہیں اور غیرجانبداری دکھانے کے لئے جھوٹی مساوات کی ریاکاری کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔فوج کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالی کو لےکر ان کے حالیہ ٹوئٹر تبصروں نےنہ صرف انٹرنیٹ کے پھبتی بازوں اور بی جے پی حامیوں کو، بلکہ فوج کو بھی ناراض کر دیا۔ انہوں نے پورے غصے میں فوراً اس کی تردید کی۔ اس کے بعد ان پرسیڈیشن  کا معاملہ جڑ دیا گیا۔

گزشتہ چند سالوں میں حکومت کھلے ہاتھ سے سیڈیشن کے الزام لگاتی رہی ہے۔ یقینی طور پر اس کی سب سے بڑی  مثال تب دیکھنے کو ملی جب جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں طالبعلموں کی بھیڑ کے دوران مبینہ طور پر’ہندوستان مخالف ‘نعرے سنائی دینے کے بعد کنہیا کمار اور دیگر کئی پر سیڈیشن کا معاملہ درج کیا گیا تھا۔اس کا ویڈیو جتنی تیزی سے حکومت کے ‘متر چینلوں’ تک پہنچا اور جتنی تیزی سےبی جے پی رہنماؤں نے اس کی مذمت کی(ٹکڑے ٹکڑےگینگ نعرے کی ایجاد تبھی کی گئی تھی)-وہ مؤثرتھا۔ حالانکہ اس بات کے قابل اعتماد ثبوت سامنے آئے ہیں کہ یہ ایک چھیڑچھاڑ کیاگیا ویڈیو تھا اور کمار اور دوسروں نے وہ نعرے نہیں لگائے تھے، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔

دہلی میں ہوئے ایک مظاہرہ کے دوران گجرات کے ایم ایل اے جگنیش میوانی،کنہیا کمار، اکھل گگوئی کے ساتھ شہلا(فوٹو : پی ٹی آئی)

دہلی میں ہوئے ایک مظاہرہ کے دوران گجرات کے ایم ایل اے جگنیش میوانی،کنہیا کمار، اکھل گگوئی کے ساتھ شہلا(فوٹو : پی ٹی آئی)

دہلی حکومت نے حال ہی میں کنہیا کمار اور ان کے دوستوں  کے خلاف بغاوت کے الزامات کو ‘کمزور ‘قرار دیا ہے۔ لیکن اس سچائی کے باوجود کہ شاید ہی سیڈیشن کے معاملے میں کوئی قصوروار ثابت ہوا ہے اور ملک کے شہریوں نے اس قانون کےخلاف آواز اٹھائی ہے، حکومت اس کا دھڑلےسے استعمال کر رہی ہے۔شہلا رشید کے معاملے میں، فوج اور حکومت کے ذریعے سخت الفاظ میں الزامات سےانکار کر دینا کافی ہونا چاہیے تھا۔ ساتھ میں شہلا کو یا کسی اور کو انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات کو ثابت کرنے کا کھلا چیلنج دیا جا سکتا تھا۔ فوج جیسے پیشہ ورتنظیم کو ایسے الزامات کا جواب دینے میں اہل ہونا چاہیے۔

لیکن سکیورٹی اہلکاروں کے ارد-گرد ایک روشنی کا ہالہ کی تعمیر کرنے اور اس کو چالاکی سے ہندوستان کے تئیں محبت سے جوڑ دینے نے فوج سے سوال پوچھنے کو سیڈیشن کے زمرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ہندوستان، ہندودھرم، اقتدار اور حکومت سب کو ایک ایک میں ملاکر ایک ساتھ کھڑا کر دیا گیا ہے، جو الزامات اور تنقیدوں سے پرے ہیں۔ مخالفت میں آواز اٹھانےوالوں کو باقاعدہ منظم طریقے سے’ملک مخالف ‘یا غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے، جو اپنے ملک سے محبت نہیں کرتے ہیں۔ اس پیغام کو بالغ آبادی میں ہی نہیں، بلکہ اسکولوں اور کالجوں کی سطح تک نشر کیا جا رہا ہے۔

اس کی عالم کاری کا مطلب ہے کہ اب غیر رسمی بات چیت میں بھی ایسا کچھ کہنامشکل ہو گیا ہے، جس کی وضاحت کسی آدمی کے ذریعے ملک مخالف کے طور پر کی جا سکتی ہے۔ پسند نہ آنے والی باتوں پر نظر رکھنے لئے رکشک  گروہوں یا محلہ دیش بھکت  کمیٹیوں  کی تشکیل کتنی جلدی کی جاتی ہے، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔شہلا ایک قدم آگے چلی گئیں۔ انہوں نے کشمیر(وہ جہاں کی رہنے والی ہیں)میں جو ہو رہا ہے، اس کو لےکرصرف دکھ ظاہر نہیں کیا،بلکہ ایک دعویٰ بھی کر دیا۔ شاید ان کے پاس اپنے دعوے کی حمایت میں ثبوت ہے،لیکن اگر ان کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں بھی ہے اور وہ افواہوں پر بھی منحصر ہیں، توبھی ان کو اپنی بات کہنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

ان کے دعووں کی تردید کی جا سکتی ہے یا ان پر ہتک عزت کا مقدمہ چلایا جاسکتا ہے، لیکن ان پر قانون کی دفعات لگانا اور ان کو ہندوستان کا دشمن قرار دیناسراسر غلط ہے۔ یہ کشمیری کے پیدائشی طور پر ہندوستان مخالف ہونے کے نظریہ کو مضبوط کرتا ہے اور یہ ویسے لوگوں کے لئے ایک وارننگ کی طرح ہے، جن کے خیال ‘مین اسٹریم’کے خلاف جاتے ہیں۔ان دنوں ایسے لوگوں سے ملنا بےحد عام بات ہو گئی ہے، جو اپنی بات رکھتےہوئے کافی محتاط رہتے ہیں، یا ذاتی مکالمہ کے دوران بھی کھلتے نہیں ہیں۔ ایسی سخت کارروائی کے بعد وہ اور بھی پھونک-پھونک‌کر قدم رکھیں‌گے۔ سرکاری منشا تنقید کا منھ بندکرنے کی ہو سکتی ہے،لیکن یہ ہندوستان جیسی جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہے۔

کشمیر سے ٹکڑوں میں آوازیں باہر آ رہی ہیں۔ عالمی میڈیا نے عام کشمیری کی پریشانیوں،یہاں تک کہ مقامی لوگوں کے ذریعےمظاہرہ کے بارے میں لکھا ہے،لیکن ہندوستان کے مٹھی بھر میڈیا ہاؤس ہی کشمیر کے حالات پر قابل اعتماد اورحقیقی طریقے سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔خبروں کے لئے مین اسٹریم کے پریس پر منحصر شخص شاید یہی سوچے‌گا کہ وہاں سب کچھ ٹھیک ہے اور مقامی لوگ اپنی قید اور بڑے ہندوستانی صنعت کاروں کے ذریعے نئےہوٹل اور نئی رہائشوں کی تعمیر سے نوکری کے امکان کا جشن منا رہے ہیں۔ لیکن سچائی کو دبایا نہیں جا سکتا ہے۔

شہلا رشید، جن کی فیملی کشمیر میں ہیں، ان کئی لوگوں میں سے ہیں اور وہی بول رہی ہیں، جو ان کے کانوں تک پہنچ رہا ہے۔ حکومت اور مین اسٹریم کے میڈیا کےدعووں کی ایک ہم منصب  ابھراہے۔ آج یا کل اور زیادہ لوگ آواز اٹھائیں‌گے اورجب بھی وہاں ابلاغ کے ذرائع بحال ہوں‌گے، وہاں کے لوگوں کی ذاتی کہانیاں باہر آئیں‌گی۔کیا ہر کسی پر سیڈیشن  کا الزام لگایا جائے‌گا؟اس پورے معاملے کا تکلیف دہ حصہ یہ ہے کہ رشید کے خلاف سیڈیشن کے الزامات کی بڑے پیمانے پر مذمت دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ ادارہ جاتی مدد کو تو بھول ہی جائیے-ہندوستانی حقوق انسانی کی تنظیم، وہ چاہے جیسےبھی ہوں، کو مؤثر طور پر خاموش کرا دیا گیا ہے-اہم لوگوں کی خاموشی بھی شور کر رہی ہے۔ لیکن اہم لوگوں کی بھی اس مسئلے پر خاموشی حیران کرنےوالی ہے۔

حالانکہ خود رشید فطری طور پر بہادر اور بولڈ نظر آئی ہیں اور اپنےخلاف لگائے گئے الزامات کو ‘گھٹیا، سیاست سے ترغیب شدہ اور ان کو خاموش کرانے کی کوشش کہا ہے۔ ‘یہ ان کو دوسروں  سے الگ کرتا ہے اور یہی وہ وجہ ہے، جس کی  وجہ سے وہ ان سے نفرت کرتے ہیں۔