ادبستان

بی جے پی کا نیو انڈیا دراصل نفرت اور تعصب کا عام ہو جانا ہے

بک ریویو: اپنی نئی کتاب-مودی نامہ ،میں مصنف سبھاش گاتاڈے کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے طور پر نریندر مودی کے پچھلے پانچ سالوں کا سفر آنے والے پانچ سالوں کے لئے وارننگ ہے۔

نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

گزشتہ لوک سبھا انتخاب میں نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی’شاندار’ جیت سے جڑے کئی سوال ابھی بھی ان سلجھے ہیں اور ان کو جوابات کی پہلے سے زیادہ درکار ہے۔مثلاً، کسانوں کے بحران، بےروزگاری اور افراط زر جیسی بنیادی باتیں اس انتخاب کا مدعا کیوں نہیں بن پائیں؟ ایسا کیوں ہے کہ عام لوگوں کے لئے بھی ہندو مذہب کے ٹھگوں اور ٹھیکداروں کی شدت پسندی اور سفاکی بےمعنی ہو گئی؟ کیوں ایک جارحانہ اور پدرانہ شدت پسندی  ہمارے سماج کے لئے عام-سی بات ہو گئی ہے؟ایسا کیوں ہے کہ آج بےحد ضروری مدعےبھی غیرضروری ہوتے جا رہے ہیں؟ اس کے پیچھے صرف ‘بگ منی’ اور میڈیا ہے یا اس سے بھی بڑی کوئی اور رکاوٹ ہے؟ یہ کیوں کر ہوا کہ سنگھ پریوار دہائیوں سے بوئی جا رہی رائٹ ونگ کےاحساس کو ہوا دینے کے لائق  ہو گیا؟ تنوع اور شمولیت کی آوازوں کو کیسے خاموش کرا دیا گیا؟

مصنف اور کارکن سبھاش گاتاڈے کی حال ہی میں لیفٹ ورڈ بکس سے ‘مودی نامہ ‘ نام سے شائع نئی کتاب ان سوالوں سے اس سمجھ کے ساتھ متصادم ہے کہ یہ انتخابی فارمولہ اور جوڑ-توڑ سے کہیں آگے اور گہرے ہیں۔ کیونکہ اصل میں مودی اور بی جے پی نے انتخابی نقشوں کو ہی نہیں بدلا ہے، بلکہ سماجی معیار اور اصولوں میں توڑ-پھوڑ کی شروعات بھی کر دی ہے۔کتاب میں سبھاش کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے طور پر نریندر مودی کے پچھلے پانچ سالوں کا سفر آنے والے پانچ سالوں کے لئے وارننگ ہے۔ وہ اس کے کئی واضح اسباب شمار کرتےہیں۔پہلی یہ کہ ہندوستانی آئین کے اقدار اور اصولوں کے لئے ان کی وابستگی برائے نام ہے۔ دوسری یہ کہ آئین سازوں کے ذریعے بنائے گئے ادارہ جاتی اختیارات اور توازن کو الٹ-پلٹ دینے میں بھی ان کو کوئی ہچک نہیں۔

تیسری یہ کہ وہ ہندوستانی جمہوریت کو مذہب کی بنیاد پر اکثریت کا ملک بنا دینا چاہتے ہیں، جس کے لئے مذہبی اقلیتوں اور سیاسی مخالفوں کو اندرونی دشمنوں کی طرح پیش کرتے ہیں۔ چوتھی یہ کہ ہندوستان اپنی مذہبی رواداری  کی روایت اور فرقہ وارانہ مستقبل کے درمیان پھنس‌کر رہ گیا ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ ان اسباب کو شمار کرتے ہوئے سبھاش اس سچائی کو فراموش نہیں کرتےکہ مودی سماجی درجہ بندی اور مذہبی عدم رواداری کے جن بیجوں کی توسیع کی اپنی صلاحیت’ثابت’ کرنے میں کامیاب رہے ہیں، وہ کہیں نہ کہیں ملک کی’مذہبی رواداری کی روایت’میں بھی تھی ہی۔ان کی مانیں تو پلواما دہشت گرد انہ حملے کے تناظر میں اندھ-راشٹربھکتی کو بیرونی دشمن اور کٹر دشمن جیسے خیالات سے جمع کرنے، اس سے پیدا ہونے والے جنون  کو اپنے حق میں استعمال کر لینے اور اینٹی جنگ میڈیا کی خود سپردگی کر دینے میں اس کو صاف صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔

عدم اتفاق کو دبائے، کچلے اور مارے جانے کے اس بےحد خطرناک دور میں، جب کئی لوگوں  نے اپنی عقلمندی کو چالاکی میں بدلتے ہوئے خاموشی اختیار کرلیا ہے اور دوسری طرف کئی لوگ ہوا کے رخ کے حساب سے اندھ-بھکتوں اور اندھ-آلوچکوں کی فہرست کو تیار کرنے میں لگے ہیں۔’ مودی نامہ ‘ میں ہر طرح کے تضاد سے پرے رہ‌کر نریندر مودی کے پانچ سال کے ‘کرشمہ ‘ کامعروضی تجزیہ کیا گیا ہے۔اس کو پڑھتے ہوئے مشہور مؤرخ رومیلا تھاپر کی مشہور کتاب The Public Intellectual in Indiaبار بار یاد آتی ہے، جس میں وزیر اعظم مودی کی مدت کار میں بڑھ رہی عدم رواداری کا تنقیدی تجزیہ کیا گیا تھا۔

کتاب سے یہ صاف نہیں ہوتا کہ ان کو ‘مودی نامہ ‘کے طور پر اس کا نام رکھنےکی ترغیب کہاں سے ملی۔ لیکن انہوں نے یہ ترغیب مغل بادشاہ اکبر کے درباری عالم ابوالفضل کی تاریخی کتاب ‘آئین اکبری’کے تیسرے’ اکبرنامہ ‘نام کے حصے سے لی ہے، جس کو اکبر کے وقت کی سب سے مستند تاریخ بتایا جاتا ہے۔کتاب کے قارئین میں جو ‘ بھکت ‘ ہوں‌گے، ان کو بےحد مایوسی ہوگی کہ ‘مودی نامہ ‘ میں مودی کے ساتھ اتنی بھی جانبداری نہیں برتی گئی ہے، جتنے اکبر کے انصاف اور نظام  کا بیان کرتے ہوئے اکبرنامہ میں۔یوں اس کو اس شکل میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ نیوز چینلوں کے کیمروں اور ‘ بھکتوں ‘ کی تعریف کی خوش آمدیدکہنے والے ہمارے وزیر اعظم معروضیت کی کسوٹی پر پل دو پل بھی کھڑے نہیں رہ پاتے!اس لحاظ سے دیکھیں تو سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اپنی تنقید کے جواب میں ابھی بھی ان سے زیادہ خوداعتمادی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ان کا اصل تجزیہ آنے والی تاریخ میں ہوگا۔

بہر حال، پانچ ابواب میں تقسیم’مودی نامہ ‘کا مقدمہ بتاتا ہے کہ لفظ اور خیال ہر قسم، ہر رنگ اور ہر لکیر کے بنیادپرستوں کو ڈراتے رہے ہیں یعنی عدم اتفاق کا مجرمانہ بتاناکوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن مرکز اور کئی ریاستوں میں ہندوتووادیوں کی حکومتوں کے تحت وہ زیادہ خطرناک ہو چلا ہے۔اس قدر خطرناک کہ گھائل  ہونا ایک مشترکہ پیمانہ ہو گیا ہے، جس سے ایک نئی قسم کی جارحیت صاف صاف دکھائی دے رہی ہے۔

modi nama

آزادذہنوں  سے نپٹنے کے لئے ہتھیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے، حساس لوگوں پر بھی حملے کئے جا رہے ہیں اور ان حرکتوں کو جواز فراہم کرنے کے لئے ‘علم (پڑھیے: جہل)کی کتابوں ‘ کا سہارا لےکر خیال کو ہی جرم بنا دیا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پورا جنوبی ایشیا ایسے تشدد کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔کتاب کا پہلا باب ‘پوتر کتاب کی چھایا میں’اسی مقدمےکی توسیع معلوم ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جمہوریت بحران میں ہے کیونکہ غنڈہ گردی گلوبل ہوتی جا رہی ہے اور بدمعاشوں کے پاپولسٹ رہنما اقتدار کی اونچائی پر جا پہنچے ہیں۔انہوں نے کھانے تک  کو جرم کے زمرے میں رکھ  کر بھوک اور بھوکوں کے لیے بےحد ظالمانہ رویہ اپنا لیا ہے، جبکہ بھوک ہندوستانی تجربے کا مرکزی حصہ رہی ہے۔ لوگوں کو خاطر خواہ  کھانا ملنے کو یقینی بنانے کے راستے تلاش کرنے کے بجائے وہ یہ طے کرنے میں مبتلا دکھتے ہیں کہ لوگوں کو کیا کھانا اور کیا نہیں کھانا چاہیے۔

یہاں مصنف کی مرکزی فکر یہ ہے کہ پوتر کتاب کی چھایا میں اس قسم کے پاگل پن اور جمہوریت کے جنون کی کوئی انتہا نہیں دکھتی۔’لنچستان’نام کا دوسرا باب قانون کی حکومت کو بھیڑ کے تشدد میں تبدیل ہوتے دیکھتا اور کہتا ہے کہ ‘ بی جے پی کا نیو انڈیا دراصل نفرت اور تعصب کا عام ہو جانا ہے۔ یہ نیا’ عام’ ایک طرح سے کارپوریٹ کے مفادات اور ہندوتوا کے شدت پسندوں کے درمیان کا ایک ناپاک اتحاد ہے، جو قانون کی حکومت کو الٹ دینے، اداروں کو اندر سے ناکام کرنے اور ڈر‌کے ماحول کی تعمیر سے واضح ہوتا ہے۔

‘تیسرا باب ‘ پوتر گائے ‘، مارک ٹوین کے اس واقعے سے کہ ‘یہ عجیب لوگ ہیں، ان کو انسان کی زندگی کے علاوہ سب کی زندگی پوتر دکھتی ہے ‘ شروع ہوکرآر ایس ایس ی کے اس ‘ قدیم خیال ‘ کی معروضی تنقید کرتا ہے کہ ‘ پرانوں  میں گائے کو انسان سے بھی زیادہ پوتر مانا گیا ہے۔’اگلے باب ‘ جاتی اتپیڑن پر مون ‘میں اسی’چنتن’کا اس صورت میں تجزیہ کیا گیا ہے کہ ‘آر ایس ایس کی پرانی قیادت چاہتی تھی کہ ‘منواسمرتی’ہندوستانی آئین کی جگہ لے تاکہ ذات کی درجہ بندیبے انتہا پوتر بنی رہے۔ 70 سال بعد بھی ذات کی درجہ بندی کی بات آنے پر سنگھ اور بی جے پی کا نظریہ اسی قسم کا عہد وسطیٰ کی سوچ سے میل کھاتا ہے۔’

یہ اس ایک سچائی  سے ہی ثابت ہو جاتی ہے کہ وہ ہندو یکجہتی کی بات کرتے ہوئے بھی اونچ-نیچ کے سلسلے پر ٹکے ذات پات کو چیلنج دینے سے لگاتار انکار کرتے رہتے ہیں۔پانچویں اور آخری باب ‘منو کا سموہن ‘ کا خلاصہ  ہے کہ جب ہندوستان کے آئین کا اعلان ہوا تب ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ اس نے منو کی حکومت کا خاتمہ کیا ہے، اس کے باوجود یہ دکھ رہا ہے کہ منو کی واپسی ہو رہی ہے۔

اس ‘واپسی’کی لمبی تفصیل کے بعد سبھاش گاتاڈے نے بتایا ہے کہ مودی کہتے ہیں کہ وہ ڈاکٹرامبیڈکر کے ‘شاگرد ‘ ہیں، لیکن جہاں منو کی بات آتی ہے، ان دونوں کے درمیان ایک لمبی کھائی اور وسیع فاصلہ دکھائی دیتا ہے۔اپنی وارننگ پوری کرنے سے پہلے سبھاش یہ کہنا نہیں بھولتے کہ ملک کی ان ساری طاقتوں کے لئے یہ دروں بینی کا وقت ہے، جو متنوع ہندوستان کا خواب دیکھتے ہیں۔ یقیناً، اس دروں  بینی کے لئے ‘مودی نامہ’ایک بےحد ضروری کتاب ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)