خبریں

جادھو پور یونیورسٹی ملک مخالف عناصر کا اڈہ، سرجیکل اسٹرائک کی ضرورت: بنگال بی جے پی

کولکاتا کی جادھو پور یونیورسٹی میں 19 ستمبر کو ایک پروگرام میں شامل ہونے گئے مرکزی وزیر اور بی جے پی رہنما بابل سپریو کے ساتھ طلبا کے ایک گروپ نے مبینہ طور پر دھکا-مکی کی تھی۔

دلیپ گھوش (فوٹو بہ شکریہ : فیس بک)

دلیپ گھوش (فوٹو بہ شکریہ : فیس بک)

نئی دہلی: مغربی بنگال میں بی جے پی صدر دلیپ گھوش نے گزشتہ جمعہ کو الزام لگایا کہ جادھو پور یونیورسٹی کیمپس ملک مخالف عناصر اور کمیونسٹوں  کا اڈہ بن گیا ہے۔ ہمارے کیڈر کو چاہیے کہ اس کو ختم کرنے کے لئے وہاں بالاکوٹ کی طرز پر سرجیکل اسٹرائک کریں۔ گھوش نے الزام لگایا کہ ریاست میں ترنمول حکومت مرکزی وزیر بابل سپریو کا قتل ہونے تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس واقعہ کے بارے میں مرکزی وزیر امت شاہ کو خط لکھ‌کر بتائیں‌گے۔

گھوش نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، ‘ جادھو پور یونیورسٹی ملک مخالف اور کمیونسٹ سرگرمیوں کا اڈہ ہے۔ وہاں پہلی بار ایسا واقعہ نہیں ہوا ہے۔ جس طرح ہماری سکیورٹی فورسیز نے پاکستان میں دہشت گرد کیمپوں کو تباہ کرنے کے لئے سرجیکل اسٹرائک کی تھی، جادھوپور کیمپس میں ملک مخالف اڈوں کو تباہ کرنے کے لئے ہمارے کارکنوں کو اسی طرح کی سرجیکل اسٹرائک کرنی چاہیے۔ ‘

گھوش نے یونیورسٹی میں سپریو کو بھیڑ سے بچانے کے لئے گورنر جگدیپ دھن کھڑ کے وہاں پہنچنے کے فیصلے کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا، ‘ ریاستی حکومت خاموش بیٹھی تھی اور سپریو کے مارے جانے کا انتظار کر رہی تھی۔ ‘ انہوں نے جادھو پور یونیورسٹی میں لاء اینڈ آرڈر کو کنٹرول میں نہیں رکھ پانے کی وجہ سے وہاں کے وائس چانسلر سرنجن داس کے فوری طور پر  استعفیٰ کی مانگ بھی کی۔

غور طلب ہے کہ  سپریو کو جادھو پور یونیورسٹی میں کالے جھنڈے دکھائے گئے اور ان کے ساتھ دھکا-مکی بھی ہوئی۔ جگدیپ دھن کھڑ جو یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہیں، وہ پولیس کے ساتھ وہاں سپریو کو بچانے پہنچے تھے۔ معلوم ہو کہ گزشتہ 19 ستمبر کو بی جے پی سے رکن پارلیامان اور مرکزی وزیر بابل سپریو اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے ایک پروگرام میں حصہ لینے کے لئے جادھو پور یونیورسٹی پہنچے تھے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 19 ستمبر کو دن میں 2:30 بجے سپریو جب یونیورسٹی پہنچے تو لیفٹ نظریہ والے طلبا کے ایک گروپ نے ان کا گھیراؤ کیا۔ اس دوران طالب علموں نے ان کو کالے جھنڈے دکھائے اور واپس جانے کو کہا تھا۔ سپریو نے واپس جانے سے انکار کر دیا، جس کے بعد طالب علموں کے گروپ سے ان کی بحث ہو گئی۔ اس بیچ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سرنجن داس نے بیچ بچاؤ کرنے کی کوشش کی اور سپریو سے پروگرام کی جگہ پر چلنے کو کہا۔

رپورٹ کے مطابق، یہ تعطل تقریباً ایک گھنٹے تک بنا رہا۔ اس کے بعد سپریو جب پروگرام کی جگہ  پر پہنچے تب بھی طالب علموں کا مظاہرہ جاری تھا۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد طالب علموں نے تقریباً پانچ گھنٹے تک سپریو کا گھیراؤ کئے رکھا۔ ان کو کیمپس سے جانے سے روکے رکھا۔ مظاہرین نے الزام لگایا کہ بابل سپریو نے کچھ طالب علموں کی بے عزتی کی اور ان کو دھمکی دی۔ پروگرام کے بعد سپریو کے ساتھ مبینہ طور پر پھر سے دھکا-مکی کی گئی۔

سپریو نے الزام لگایا کہ ان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔ انہوں نے کہا، ‘ مجھے کئی بار پیٹا گیا۔ میرے بال کھینچے گئے اور مجھے لات-گھونسوں سے مارا گیا۔ یونیورسٹی کے طالب علموں سے اس کی امید نہیں تھی۔ اگر میرے وہاں آنے سے ان کو کوئی دقت تھی تو ان کو بات کرنی چاہیے تھی۔ ان کو مجھ سے مارپیٹ نہیں کرنی چاہیے تھی۔ وہ مجھے کہیں جانے سے روک نہیں سکتے۔ مغربی بنگال میں تعلیمی نظام کی یہ حالت ہے۔ ‘

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)