خبریں

بہار: زمین کے مالک تو بن گئے، لیکن زمین نہ ملی

بہار میں لینڈ ریفارمز‌کے تحت جن کے پاس زمین نہیں تھی ان کو زمین کا پٹہ دیا گیا تھا۔ کاغذات پر تو یہ لوگ زمین کے مالک بن گئے ہیں، لیکن اصل میں اب تک ان کو زمین کا قبضہ نہیں مل سکا ہے۔

 امر رام، جن کو 17 سال پہلے زمین کے حق کا پرچہ ملا تھا، لیکن ان کو قبضہ اب تک نہیں مل سکا ہے۔ (فوٹو : امیش کماررائے)

امر رام، جن کو 17 سال پہلے زمین کے حق کا پرچہ ملا تھا، لیکن ان کو قبضہ اب تک نہیں مل سکا ہے۔ (فوٹو : امیش کماررائے)

48 سالہ امر رام کو 17 سال پہلے 2002 میں بہار حکومت نے 91 ڈسمل زمین کا پرچہ دیا تھا۔ کئی نسلوں سے  بےزمین امر رام کے ہاتھ میں جب ایک اے-فور سائز کے کاغذ کا ٹکڑا آیا، تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ لیکن یہ خوشی کافور ثابت ہوگی، اس کا علم ان کو بالکل بھی نہ تھا۔ امر رام مشکل سے دو سال ہی اس91 ڈسمل زمین کے مالک رہ پائے۔

 امر رام کہتے ہیں،’حکومت کا اہلکار ہمارے ساتھ گئے تھے اور زمین کامالکانہ حق ہمیں دیا تھا۔ دو سال ہی گزرے تھے کہ ایک دن زمیندار (زمین چک بندی سےپہلے زمین کا مالک)کے گرگے کھیت میں پہنچے اور فصل سمیت کھیت پر قبضہ جما لیا۔ ‘

امر رام سرکاری زمین پر رہ رہے تھے۔ 9 سال پہلے یعنی 2010 میں کسی طرح ایک پٹہ زمین خرید‌کر اس پر گھر بنایا ہے۔ وہی ایک پٹہ زمین ان کے قبضہ میں ہے۔ وہ مغربی چمپارن کے رام نگر بلاک  کے برگجوا گاؤں میں رہتے ہیں۔ جب ہم چمپارن کا ذکر کرتے ہیں، تو ہمیں مہاتما گاندھی یاد آتے ہیں۔ چمپارن ہی وہ جگہ ہے،جہاں سے مہاتما گاندھی نے ستیہ گرہ کا پہلا تجربہ کیا تھا، جس کو چمپارن ستیہ گرہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تجربہ  کامیاب بھی ہوا تھا اور یہاں کے کسانوں کو نیل کی کھیتی سے آزادی ملی تھی۔بتیا شہر کی تین مہانی پر کتھئی رنگ کے باپو کا آدم قدمجسمہ چمپارن کی تاریخی اہمیت کی منادی کرتا ہے۔مگر المیہ ہے کہ اسی چمپارن میں امر رام بھی ہیں،جو سرکاری فائلوں میں تو 17 سال سے زمین کےمالک ہیں، لیکن اصل میں ان کو زمین ملی ہی نہیں۔

امر رام حالانکہ اکلوتے شخص نہیں ہیں، جو کاغذات پر زمین کے مالک ہیں۔پورے بہار میں ایسے لوگوں  کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان کا سروے کریں تو ان میں سےزیادہ تر ایس سی –ایس ٹی کے لوگ سامنے آئیں‌گے۔ مغربی چمپارن میں ہی ایسے لوگوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جن کو زمین کاپرچہ تو ملا، لیکن زمین پر قبضہ نہیں مل پایا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مغربی چمپارن میں تقریباً ایک لاکھ 65 ہزار لوگوں  کو زمین کا پرچہ دیا گیا اور ان میں سے 12 ہزار کو چھوڑ‌کر باقی لوگوں کو زمین بھی مل چکی ہے۔

لیکن پرچہ ہولڈرز کے حق کے لئے تحریک چلا رہے امر رام اور دیگر لوگو ں کادعویٰ ہے کہ ایک لاکھ 65 ہزار میں سے 20-30 فیصد لوگوں کوہی زمین مل پائی ہے۔ مغربی چمپارن کے لوریا بلاک ڈ کے بارواں کلا گاؤں باشندہ 65 سالہ کپل مانجھی کو 1995 میں ہی زمین کا پرچہ مل گیا تھا، لیکن زمین اب تک نہیں ملی ہے۔ انہوں نے بتایا،’12 ایکڑ کا ایک پلاٹ تھا، جس کو 22 لوگوں کے نام کیا گیا تھا۔ حکومت کی طرف سے ہمیں اس کے کاغذات بھی مل گئے تھے، لیکن زمینداروں نے قبضہ نہیں کرنے دیا۔ تب سے اب تک زمین دلوانے کے لئے کوئی پہل نہیں ہوئی ہے۔ ‘

دراصل، مغربی چمپارن ہی نہیں پورے بہار میں دیکھیں تو زمین مختص کا معاملہ غیرمتوازن ہے۔ کچھ لوگوں کے پاس ہزاروں ایکڑ زمین ہے تو کسی کے پاس اپنی جھوپڑی ڈالنے کے لئے زمین بھی میسر نہیں ہے۔ ایسا ہوا کیسے، کیا شروع سےہی زمین کا بٹوارا ایسا تھا؟ ان سوالوں کاجواب ڈھونڈنے کے لئے انگریزوں کی حکومت کو یاد کرنا ہوگا۔ انگریز ہندوستان میں آئے تو تھے کاروبار کرنے لیکن وہ حکمراں بن گئے۔ یہاں کی زمین کافی زرخیز تھی، تو اس پر ویسی فصلوں کو اگانے کا دباؤ بنانے لگے، جوتجارتی طور سے زیادہ فائدہ دینے والی ہو۔ کسان جب ایسا کرنے سے منع کرتے تو ان کی زمین ہڑپ لی جاتی یا پھر اتنی مال گزاری تھوپ دیتے کہ کسان چکا نہیں پاتا۔ ایسے میں ان کی زمین پر قبضہ کر اس کونیلام کر دیا جاتا۔

لوک سبھا انتخاب میں لوگوں نے پرچہ ہولڈرز کا مدعا اٹھایا تھا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

لوک سبھا انتخاب میں لوگوں نے پرچہ ہولڈرز کا مدعا اٹھایا تھا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

 انگریزوں کے’پارٹنر ان کرائم ‘ کسانوں کے اپنے لوگ کوٹھی والے اورچوکیدار تھے۔ مغربی چمپارن کے کچھ پرانے لوگ تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ انگریز جب گھوڑے پر سوار ہوکر نکلتے تھے تو راستے میں ان کو کسانوں کی جھوپڑی پر پھیلی لتامیں درجنوں کدو اور کدو جیسی سبزیاں دکھتیں۔ یہ دیکھ‌کر وہ تعجب کرتے کہ یہاں کی جھوپڑی پر سبزیاں اگ رہی ہیں تو ان کےکھیت کتنے زرخیز ہوں‌گے! پھر کیا تھا، انگریز ان کسانوں کی مال گزاری 10 گنا بڑھا دیتے۔ کسان بھلا اتنی رقم کہاں سے دیتے۔سو ان کو زمین سے ہاتھ دھونا پڑتا اور اس طرح زمین کے مالک کسان مزدور بن جاتے۔ زیادہ مال گزاری لاد‌کر زمین قبضہ کرنے کی بےشمار کہانیاں مغربی چمپارن میں مل جائیں‌گی۔

مقامی سماجی کارکن شمس الحق کہتے ہیں،’میرے آباواجداد کے پاس 16 بیگھہ  زمین تھی۔ ان میں 11 بیگھہ  زمین انگریزوں نے قبضہ کرکے نیلام کر دیا تھا۔’انہوں نے کہا کہ ایسے ہزاروں معاملے ہیں، جو بتاتے ہیں کہ آج جو لوگ بے زمین ہیں، وہ کبھی اچھی خاصی زمین کے مالک ہوا کرتے تھے۔ برگجوا گاؤں کے 70 سالہ سنہاسن رام کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سنہاسن رام کو سال 2002 میں حکومت نے 90 ڈسمل زمین کاپرچہ دیا تھا۔ وہ بےزمین  ہیں، لیکن ان کے آباواجداد بےزمین  نہیں تھے۔ ان کے پاس 7 بیگھہ زمین تھی۔

سنہاسن رام کہتے ہیں،’انگریزوں نے مال گزاری بڑھا دی تھی۔ میرےآباواجداد کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ مال گزاری دے سکیں، اس لئے جب انگریزوں کی خدمت میں لگے دیسی سپاہی پیسہ لینے آتے، تو وہ بھاگ جاتے۔ ایسا دو-تین بار ہوا توانگریزوں نے زمین پر قبضہ کرکے اس کو نیلام کروا دیا۔ جس زمین دار کے پاس پیسہ تھا،اس نے زمین خرید لی۔’

اس طرح ایک بڑا کسان طبقہ بےزمین  ہو گیا اور مٹھی بھر زمین دار کے پاس برقرار زمین چلی گئی۔ انگریزوں کا مغربی اور مشرقی چمپارن کے کسانوں پر غیر انسانی ظلم اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ مہاتما گاندھی کو سال 1917 میں یہاں آنا پڑا تھا۔ مہاتما گاندھی چمپارن (مشرقی اور مغربی) میں 38 جگہوں پر ٹھہرے تھے اور تقریباً 8000 کسانوں نے ان کو بتایا تھا کہ انگریز کس طرح ان پر ظلم کر رہے تھے۔ سروے کی بنیاد پر دو سال پہلے چھپی کتاب ‘گاندھی کا چمپارن : چمپارن کاگاندھی ‘ میں 1950 میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کی صدارت میں بنے چمپارن فارم جانچ کمیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیاہے کہ سال 1918 تک ڈھائی لاکھ ایکڑ کھیت رعایا کے ہاتھوں سے نکل‌کر سودخوروں، چینی مل اور زمینداروں کے پاس چلےگئے تھے۔

ملک آزاد ہوا تو حکومت نے زمین دار اور سودخوروں کے پاس پڑی برقرار زمین کو اپنے قبضے میں لینا شروع کیا۔ اس وقت کی بہار حکومت نے اس کے لئے بہار لینڈریفارمز(فکسیشن آف سیلنگ ایریا اینڈ ایکوجشن آف سرپلس لینڈ)ایکٹ بنایا۔ اس کے تحت تقریباً دو فصلی سینچائی کھیت ہونے پر فی بالغ مرد کو 15 ایکڑ، ایک فصلی سینچائی کھیت ہونے کی صورت میں 18 ایکڑ اور بارش پرمنحصر کھیت ہونے پر 25 ایکڑ زمین چھوڑ کراضافی زمین حکومت نے اپنے قبضےمیں لے لیا۔ریونیو اور لینڈ ریفامرزمحکمہ کے ذرائع بتاتے ہیں کہ زمین حدبندی سے پورےبہار میں حکومت کو تین لاکھ 99 ہزار ایکڑ زمین ملی۔ اس کے علاوہ آچاریہ ونوبا بھاوے کی بھودان تحریک سے بہار حکومت کو 6.49 لاکھ ایکڑ زمین ملی۔

الگ الگ وقت میں ریاستی حکومت نے لوگوں  کا انتخاب کر کےتقریباً دو لاکھ 59 ہزار ایکڑ زمین بانٹ تو دی، لیکن حکومت کے پاس خودیہ ریکارڈ نہیں تھا جس سے پتہ  لگتا کہ آخرکار کتنے بےزمین  کو زمین کے کاغذات دئےگئے۔ ا س کے تعین کے لئے بہار حکومت نے سال 2014 آپریشن دخل-دہانی شروع کی۔ اس کام میں 2377763 زمین کے پرچہ ہولڈرز کی شناخت کی گئی۔ سرکاری اعداد و شمار کی مانیں تو محض 151040 پرچہ ہولڈرز کو زمین نہیں مل پائی ہے۔ لیکن جانکاروں کے مطابق بےدخل پرچہ ہولڈرز کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سےزیادہ ہے، کیونکہ اس میں وہ پرچہ ہولڈر شامل نہیں ہیں، جن کے معاملے میں مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

زمین کا پرچہ(فوٹو : امیش کمار رائے)

زمین کا پرچہ(فوٹو : امیش کمار رائے)

ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ ان غریب اور پچھڑے طبقوں سے آنے والے پرچہ ہولڈرز کو زمین نہیں ملی، تو پھر وہ آخرکار ہے کس کے پاس؟ اس سوال کا جواب بہت مشکل نہیں ہے۔ زمین پر قبضے کے لئے دربدر بھٹک رہےپرچہ ہولڈرز سے پوچھنے پر اس سوال کا جواب ملتا ہے کہ زمین پر دبنگوں اورزمینداروں (وہ مالدار جن کی اضافی زمین حکومت نے زمین-حدبندی ایکٹ کے تحت لے لی) کاقبضہ ہے۔ اس کی تہہ میں جائیں تو پتہ  چلتا ہے کہ سرکاری نظام نے جانے انجانے میں ان زمینداروں اور دبنگوں کو زمین پر قبضہ کرنے کے لئے مدد دی۔

اتناہی نہیں کئی معاملوں میں تو عدالتی کارروائیاں ہی ان کے لئے رحمت ثابت ہو گئیں۔ عدالتی کارروائیوں کی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ انہی میں ایک معاملہ بتیا کے زمین دار شتروندم شاہی کا بھی ہے۔ ان کی اضافی زمین حکومت نے 80 کی دہائی میں ہی لے لی تھی۔ حالانکہ زمین لینے کے لئے حکومت اور زمین دار کے درمیان قانونی لڑائی بھی چلی تھی، مگر آخرکار کورٹ نے حکومت کے حق میں فیصلہ دیا اور زمین حکومت کو مل گئی تھی۔ اس میں سے کچھ زمین حکومت نے سال 2002 میں لوگوں  کے نام کر دی اور ان کو پرچہ جاری کر دیا۔ پرچہ جاری کرنے کےساتھ ہی انتظامیہ نے زمین پر قبضہ بھی دلوا دیا۔ پرچہ ہولڈرز نے بھی زمین پر زراعت شروع کر دی۔حکومت کے اس فیصلے کے خلاف زمین دار فیملی سال 2004 میں پٹنہ ہائی کورٹ چلا گیا۔

زمین دار فیملی نے کورٹ میں کہا کہ کلکٹر نےبنا کسی نوٹس سے ان کی زمین بانٹ دی، جبکہ حکومت کورٹ کے حکم پر ہی 80 کی دہائی میں زمین لے چکی تھی۔ کورٹ نے زمین بٹوارے پر روک لگاتے ہوئے حکومت کو زمین کی جانچ کرنے کاحکم دیا۔ پرچہ ہولڈرز کے مطابق، کورٹ میں معاملہ جاتے ہی زمین دار نے ان کو زمین سے بےدخل کر دیا۔ پرچہ ہولڈرز کا الزام تو یہ تک ہے کہ انہوں نے (زمین دار) زمین پر لگی فصل تک نہیں کاٹنے دی۔ کورٹ میں معاملہ جانے کے بعد سماعتوں کے دوران زمین دار کے حق  کے لوگ اکثر غائب رہنے لگے، تو پرچہ ہولڈرز نے کورٹ سے اپیل کی کہ ان کی باتیں سن‌کرمعاملے کی فوری تکمیل کی جائے۔ کورٹ نے پرچہ ہولڈرز کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے چھے مہینے کے اندرزمین کے مالکانہ حق کا تعین کرکے معاملہ نپٹانے کو کہا، لیکن ضلع کلکٹر کے یہاں بھی زمین دار فیملی کے نمائندہ حاضر نہیں ہوتے۔

اس وجہ سے معاملہ پھر کھنچنے لگا۔ اس طرح سال 2004 میں شروع ہوامعاملہ 15 سال کے بعد اس سال 22 جنوری کو حل کی طرف پہنچا۔ تفتیش-جانچ‌کے بعد کلکٹرنے زمیندار کی 2106.99 ایکڑ زمین کوسرپلس (زمین-حدبندی ایکٹ کے تحت اضافی زمین جس پر قانوناً حکومت کا قبضہ ہوگا)اعلان کیا۔ 100 صفحات میں پھیلے اس حکم میں بیوراوار بتایا گیا ہے کہ کب حکومت نےزمین قبضے میں لی اور اس کے بعد کیا-کیا ہوا۔ کلکٹر نے اپنے حکم میں یہ بھی بتایاکہ کس طرح زمیندار بار بار کورٹ کے حکم کے خلاف اپیل دائر کرتے ہیں اور فرضی طریقےسے کاغذات تیار کئے جاتے ہیں۔

حکم کے آخری حصے میں کلکٹر لکھتے ہیں، ‘یہ اصول لمبے عرصے سے آخری شکل سےعمل آوری کے لئے زیر التوا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس میں اس اصول کی عمل آوری نہیں ہوئی ہے، لیکن زمیندار کے ہرایک بار اس عدالت کے منظور حکم کے خلاف اپیل کرنے کارجحان، کوفرضی طریقے سے تیار شدہ کاغذات، زمین-حدبندی کا پیچیدہ اورلمبے عمل کی وجہ سے بار بار یہ اصول اس عدالت میں نئے سرے سے حکم منظور کرنے کےپوائنٹ پر واپس حاصل ہو جاتا ہے۔ اور پسندیدہ عدالتوں کے حکم کے مدنظر دوبارہ 1973 میں شروع کیے گئے عمل کو دہرانا لازمی ہو جاتا ہے۔ ‘

کلکٹر کا یہ اعتراف بتاتاہے کہ زمیندار کورٹ کے حکم کے باوجود بار باراپیل کر کے معاملہ کو اٹکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ شک تب اور بھی پختہ ہو جاتا ہے، جب الگ الگ عدالتوں میں سیلنگ سے متعلق معاملوں کی تعداد دیکھتے ہیں۔ سرکاری ذرائع کی مانیں تو صرف مغربی چمپارن کی پانچ عدالتوں میں ہی ایسے 183 معاملے زیرالتوا ہیں۔ وہیں، پٹنہ ہائی کورٹ میں زمین-حدبندی سے جڑے 264 معاملے زیر التوا بتائے جا رہے ہیں۔

سنہاسن رام کو 90 ڈسمل زمین کاپرچہ ملا تھا، لیکن اب تک ان کو قبضہ نہیں مل پایا ہے۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

سنہاسن رام کو 90 ڈسمل زمین کاپرچہ ملا تھا، لیکن اب تک ان کو قبضہ نہیں مل پایا ہے۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

اس  پورے معاملے میں ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ درجنوں معاملوں میں کورٹ اور کلکٹر کا حکم پرچہ ہولڈرز کے حق میں جانے کے باوجود اب تک ان کو زمین نہیں دلائی جا سکی ہے۔شتروندم شاہی کے ہی معاملے کو دیکھیں تو کلکٹر کا حکم اس سال 22 جنوری کو ہی آ گیا تھا، لیکن اب تک پرچہ ہولڈرز کوزمین نہیں ملی ہے۔ پرچہ ہولڈرز کی لڑائی لڑ رہے امر رام کہتے ہیں،’حکومت کی طرف سے کہا گیاتھا کہ جلدہی اخباروں میں اس سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کی جائے‌گی اور پرچہ ہولڈرزکو زمین دینے کا عمل شروع ہوگا، لیکن سات مہینے گزر جانے کے بعد بھی کچھ ہوتا نہیں دکھ رہا ہے۔ اس بیچ زمین دار لوگ پرچہ ہولڈرز کو ملی زمین اونے پونے دام پر بیچ رہا ہے۔ اس سے بعد میں پھر قانونی پیچیدگی بڑھے‌گی۔ ‘

 گزشتہ دنوں بھاگل پور کے نارائن پور بلاک  کے 100 سے زیادہ پرچہ ہولڈرز نے میٹنگ کرکے حکومت سے زمین پر قبضہ دلانے کے لئے تحریک کرنے کی بات کہی۔اس بلاک کے 300 لوگوں کوزمین کا پرچہ تو دیا گیا، لیکن زمین پر قبضہ نہیں ہو سکا۔ اجلاس میں شامل ہونےوالے پرچہ ہولڈرز نے بتایا کہ وہ لوگ 25 سالوں سے زمین کی رسید کٹا رہے ہیں، لیکن ان کو اب تک زمین نہیں ملی ہے۔ جان کار بتاتے ہیں کہ زمین-حدبندی ایکٹ میں صرف بالغوں کے لئے زراعت لائق زمین چھوڑنے کا اہتمام ہے، اس لئے کئی زمین دار نے اضافی زمین قبضہ‌ میں رکھنے کےلئے اپنے نابالغ بچوں کو بھی بالغ بتا دیا تھا۔

اس طرح کے معاملے جب خوب آنے لگے تو حکومت نے عمر کے تعین کے لئے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بنائی تھی۔ الزام ہے کہ اس ٹیم نے بھی خوب گھپلا کیا اور نابالغ کوبالغ بتاکر زمین دار کو فائدہ پہنچایا۔ فرضی واڑا کا ایک ایسا ہی ایک معاملہ اجاگر ہونے پر سال 2007 میں شتروندم شاہی کے پوتے اور آر جے ڈی  کے سابق ایم ایل اے رنوجئے شاہی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے نابالغ بیٹے کو بالغ بتاکر اس کے نام پر زمین کی خریدوفروخت کی تھی۔ بتیا کے ڈپٹی کلکٹرسدھانشو رنجن نے بتایا کہ جن پرچہ ہولڈرزکو دبنگوں اور زمینداروں نے بےدخل کر دیا تھا، ان کے لئے بلاک میں کیمپ کھولےگئے تھے، تاکہ ان کو پھر سے قبضہ دلوایا جائے۔

حالانکہ پرچہ ہولڈرز کو زمین پرقبضہ دلوانے کی پیچیدگیوں سے وہ بھی آگاہ ہیں۔ انہوں نے بتایا،’زمین-حدبندی کے تحت جن زمینداروں سے اضافی زمین حکومت نے لی، ان زمینداروں نے زمین سے قبضہ نہیں چھوڑا۔ وہیں، حکومت کی جو اپنی زمین تھی، اس پر پہلے سے لوگ غیر قانونی طور پر بس گئے۔ حکومت نے اس زمین کا پرچہ جب بے زمینوں  کو دیا، تو وہاں پہلے سے ہی لوگ بسے ملے، تو پرچہ ہولڈرز کو زمین مل نہیں پائی۔ ‘

پرچہ ہولڈرز کو زمین دلانے کی لڑائی لڑ رہے لوک سنگھرش سمیتی کے پنکج مانتے ہیں کہ لینڈ ریفارمز بہار حکومت کے ایجنڈےمیں ہے ہی نہیں۔ انہوں نے کہا، ‘لینڈ ریفارمز کبھی حکومت کا ایجنڈہ  رہا ہوگا، لیکن ابھی تو بالکل نہیں ہے۔ ابھی ہندو-مسلمان ایجنڈہ  ہے۔ ‘پنکج کہتے ہیں،’سرکاری مشینری اور نچلی سطح کے ریونیو افسروں کی کوتاہی کی وجہ سے ہی پرچہ ہولڈرز کو اب تک زمین نہیں مل پائی ہے۔’

ریونیو اورلینڈ ریفارمزمحکمہ کے ایک افسر نے پرچہ ہولڈرز کو زمین پر قبضہ دلوانے کے سوال پر کہا، ‘جو معاملے کورٹ میں زیر التوا ہیں، ان پر تو کچھ کیانہیں جا سکتا ہے۔ مگر جن معاملوں میں کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے، ان میں فوری کارروائی کرنی ہوگی۔ ‘اس بارے میں محکمہ کے وزیر رام نارائن منڈل سے رابطہ کیا گیا، لیکن ان سے بات نہیں ہو پائی۔ ان کو میل بھی کیا گیا ہے، جواب آنے پر اس رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائے‌گا۔ وہیں، کلکٹر سدھانشو رنجن پرچہ ہولڈرز کی بے دخلی کےمستقل حل کے لئے ایک پینل بنانے پر زور دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’اس کے لئے جنگی پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک پینل بنائے، جس میں اچھے وکیل اور افسر ہوں تاکہ جلد سے جلد اس مسئلہ کا حل نکالا جا سکے۔ ‘

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)