خبریں

سی جے آئی رنجن گگوئی نے جسٹس تہل رمانی کے خلاف کارروائی کے لئے سی بی آئی کو اجازت دی

سپریم کورٹ کےکالیجئم نے جسٹس وجیہ کے تہل رمانی کا تبادلہ میگھالیہ ہائی کورٹ میں ہونے پر از سر نوغور کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد 6 ستمبر کوانہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔

چیف جسٹس وجیہ کے تہل رمانی (فوٹو: پی ٹی آئی)

چیف جسٹس وجیہ کے تہل رمانی (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سی بی آئی کو چیف جسٹس رنجن گگوئی سے جسٹس وجیہ کے تہل رمانی کے خلاف مبینہ خفیہ رپورٹ پر ‘قانون کے مطابق’ کارروائی کئے جانے کی اجازت مل گئی ہے۔جسٹس تہل رمانی نے حال میں مدراس ہائی کورٹ کی چیف جسٹس کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔جسٹس تہل رمانی نے سپریم کورٹ کالیجئم کے میگھالیہ ہائی کورٹ منتقل کرنے کے حکم پر از سر نو غور کرنے کی ان کی درخواست ٹھکرانے کے بعد استعفیٰ د ے دیا تھا۔

سرکاری ذرائع کے مطابق، اس کے بعد خفیہ  بیورونے حال  میں 5  صفحے کی رپورٹ سونپی تھی۔اس واقعہ  کی تصدیق کرتے ہوئے ذرائع نے جائیداد کی لین دین میں مبینہ بے ضابطگی اور مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر انتظامیہ کے حق میں کچھ فیصلے لینے کی رپورٹ کا ذکر کیا ۔ کالیجئم نے 28 اگست کو ان کا تبادلہ کرنے کی سفارش کی تھی۔

اس کے بعد جسٹس تہل رمانی نے ان کے تبادلے کی تجویز پر پھر سے غورکرنے کے لئے کالیجئم کو ایک رپورٹ دی تھی۔انہوں نے کالیجئم کے فیصلے کی مخالفت بھی کی تھی۔سپریم کورٹ  کے کالیجئم میں  جسٹس اے ایس بوبڈے،جسٹس این وی رمن،جسٹس ارون مشرا اور جسٹس آر ایف نریمن شامل تھے۔چنئی  اور ان کے ہوم اسٹیٹ  مہاراشٹر کی کچھ جگہوں پر وکیلوں نے کالیجئم کےفیصلےکی مخالفت کی تھی ۔سپریم کورٹ کے کالیجئم  کے ان کے تبادلے کی سفارش پر پھر سے غورکرنے کی درخواست کو ٹھکرا نے کے کچھ دن بعد جسٹس تہل رمانی نے 6 ستمبر کو استعفیٰ دے دیاتھا۔

انہوں نے اپنا استعفیٰ صدر جمہوریہ  رام ناتھ کووند کو بھیجا تھا اور اس کی ایک کاپی سی جے آئی گگوئی کو بھی بھیجی تھی۔اس کے بعد 12 ستمبر کو ہائی کورٹ نے کہا کہ مختلف  ہائی کورٹ کے چیف جسٹس او ر ججوں  کے تبادلے کی  ہر سفارش ٹھوس وجوہات پر مبنی ہے۔جسٹس تہل رمانی کا نام لئے بغیر ہی سپریم کورٹ کے سکریٹری جنرل سنجیو ایس کل گاؤنکر کے کورٹ کی طرف سے  جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ججوں  کے تبادلے کی وجوہات کا انکشاف  ادارے کے مفادمیں  نہیں کیا جاتا لیکن سپریم  کورٹ کا کا لیجئم،ایسے حالات میں جہاں یہ ضروری ہو جائے گا،اس کا انکشاف  کرنے سے نہیں ہچکچائےگا۔

گزشتہ 21 ستمبر کو جاری ایک سرکاری نوٹیفیکشن کے مطابق، صدر جمہوریہ نے جسٹس تہل رمانی کا استعفیٰ منظور  کر لیا تھا۔اس میں کہا گیا تھا کہ ان کا استعفیٰ 6 ستمبر سے فوری اثر سے قبول کر لیا جائے گا۔اس کے بعد ایک دیگر نوٹیفیکشن میں بتایا گیا تھا کہ جسٹس وی کوٹھاری کو مدراس ہائی کورٹ کا کارگزار  جج بنایا گیا ہے۔

غور طلب ہے کہ جسٹس گگوئی کی قیادت  والے کالیجئم نے تہل رامنی کو میگھالیہ ہائی کورٹ میں ٹرانسفر  کرنے کی سفارش کی تھی،جو کہ مدراس ہائی کورٹ کے مقابلے کافی چھوٹا ہائی کورٹ ہے۔انہیں گزشتہ سال 8 اگست کو ہی مدراس ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا تھا۔کالیجئم نے میگھالیہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اے کے متل کا تبادلہ مدراس ہائی کورٹ کرنے کی سفارش بھی کی تھی۔ جسٹس تہل رمانی سے 3 اکتوبر ،2020 کو ریٹائر ہونے والی تھیں۔ان کو 26 جون 2001 کو بامبے ہائی کورٹ کا جج بنایا گیا تھا۔

بامبے ہائی کورٹ کے کارگزار چیف جسٹس کے عہدے پر کام کرتے ہوئے جسٹس تہل رمانی نے مئی 2017 میں  بلقیس بانو گینگ ریپ معاملے میں سبھی 11 لوگوں کو مجرم قرار دیتے ہوئےان کی  عمر قید کی سزا کو برقرار رکھا تھا۔ہائی کورٹ نے اس معاملے کو گجرات کی عدالت سے مہاراشٹرا منتقل کیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے خواتین قیدیوں کا اسقاط حمل کرانے کا حق دینے جیسا اہم فیصلہ دیا تھا۔2001 میں بامبے ہائی کورٹ کی جج  بننے سے پہلے تہل رمانی مہاراشٹر حکومت کے لئے سرکاری وکیل تھیں۔تہل رمانی کا استعفیٰ منظور کئے جانے کے بعد جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی چیف جسٹس گیتا متل ایک ایسی خاتون جج ہیں جو کسی ہائی کورٹ کی قیادت کر رہی ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)