خبریں

آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے متعلق عرضی پر 14 نومبر کو سماعت کرے‌گی سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 پر مرکزی حکومت کے فیصلے کو چیلنج دینے والی نئی عرضی پر روک لگا دی ہے۔

(فوٹو : رائٹرس)

(فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل کو جموں و کشمیر کے لئے خصوصی درجے کو رد کرنے والے آرٹیکل 370 میں ترمیم کے آئینی جواز کو چیلنج دینے والی عرضی پر 14 نومبر کو سماعت شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔حالانکہ، عدالت نے آرٹیکل 370 پر حکومت کے فیصلے کو چیلنج دینے والی نئی عرضی پر روک لگا دی۔جسٹس این وی رمنا کی صدارت والی پانچ ججوں کی بنچ نے مرکز کو معاملوں میں جوابی حلف نامہ دائر کرنے کے لئے چار ہفتے کا وقت دیا اور اس کا جواب داخل کرنے کے لئے عدالت نے درخواست گزاروں کو ایک ہفتے کا وقت دیا۔

سپریم کورٹ کی اس بنچ میں جسٹس این وی رمنا کے ساتھ جسٹس ایس کے کول، جسٹس آرسبھاش ریڈی، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت شامل ہیں۔این ڈی ٹی وی کے مطابق، اس معاملے کی سماعت کے دوران جموں و کشمیر انتظامیہ نے اپنا جواب داخل کرنے کے لئے چار ہفتے کا وقت مانگا، لیکن درخواست گزار نے مرکز اور ریاستی حکومت کو وقت دئے جانے کی مخالفت کی۔ اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ ہمیں اس معاملے میں وقت دینا ہوگا۔ کورٹ نے سماعت کے دوران کہا کہ آخر اتنے اہم معاملے میں وقت کیوں نہ دیا جائے۔

سی جے آئی رنجن گگوئی کی رہنمائی والی سپریم کورٹ کی تین ججوں والی بنچ نے سوموار کو جموں و کشمیر میں جاری پابندی اور بنیادی سہولیات تک پہنچ کی کمی کو چیلنج دینے والی عرضی کو 1 اکتوبر کو آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم کرنے کے خلاف دائر عرضی پر سماعت شروع کرنے والی بنچ کے پاس بھیج دیا تھا۔پہلے یہ بنچ آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم کرنے کے خلاف دائر عرضی پر سماعت شروع کرنے والی تھی۔ حالانکہ، اب یہ بنچ جموں و کشمیر میں جاری پابندی اور آرٹیکل 370 کے خلاف دائر دونوں ہی طرح کی عرضی پر سماعت کرے‌گی۔

جموں و کشمیر میں جاری پابندی کو چیلنج دینے والی عرضی کو آئینی بنچ کے پاس بھیجتے ہوئے سی جے آئی رنجن گگوئی نے کہا تھا،’ہمارے پاس اتنے معاملوں کو سننے کا وقت نہیں ہے۔ ہمارے پاس آئینی بنچ (ایودھیا معاملہ) کا معاملہ چل رہا ہے۔ ان عرضیوں پر کشمیر بنچ سماعت کرے‌گی۔ ‘جموں و کشمیر میں جاری پابندیوں کی وجہ سے سپریم کورٹ میں کئی ہیبئس کارپس عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔ اس میں نو جوان وکیل محمد علیم سید کی عرضی ہے جو کہ اپنے بوڑھے ماں باپ کے لئے پریشان ہیں۔

سی پی آئی ایم رہنما سیتارام یچوری نے اپنی پارٹی کے ممبر ایم وائی تاریگامی سے ملنے کے لئے عرضی لگائی ہے۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی پی رہنما محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے اپنی ماں سے ملنے کے لئے عرضی لگائی ہے۔حالانکہ، عدالت نے ان لوگوں کی صحت کے بارے میں بتانے کے لئے انتظامیہ کو ہدایت دینے کے بجائے درخواست گزاروں کو ہی جموں و کشمیر جاکر ملنے کا حکم دیا۔

دیگر عرضیوں  میں ریاست میں جاری پابندی میں لوگوں کے حالات پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ ان میں ایک عرضی ماہر حقوق اطفال  اکانشی گانگولی اور پروفیسر شانت سنہا کے ذریعے داخل کی گئی جنہوں نے جموں و کشمیر میں بچوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لئے جانے کی تصدیق کرنے کی مانگ کی ہے۔وہیں، ایک دیگر عرضی میں ایک ڈاکٹر نے ریاست میں طبی سہولیات کی کمی کا مدعا اٹھایا ہے۔ اس میں کانگریس رہنما غلام نبی آزاد کی عرضی بھی شامل ہے۔

ایک دیگر عرضی میں کشمیر ٹائمس کی انورادھا بھسین نے ریاست میں میڈیا اور ابلاغ ذرائع پر لگی پابندی کو چیلنج دیا ہے۔انہوں نے عرضی میں کشمیر اور جموں کے کچھ ضلعوں میں صحافیوں اور میڈیا اہلکاروں کی بلا روک ٹوک آمد ورفت پر لگی پابندی میں فوراً ڈھیل کے لئے مرکز اور جموں و کشمیر انتظامیہ کو ہدایت دئے جانے کی مانگ کی تھی۔ان کی عرضی کے مطابق، میڈیا اہلکاروں کو اپنا کام کرنے دینے اور خبر کرنے کے حق کے لئے آئین کے آرٹیکل 14، 19 (ایک) (اے) اور 19 (ایک) (جی) اور 21 اور کشمیر وادی کے باشندوں کو جاننے کے حق کے تحت ہدایت دئے جانے کی مانگ کی گئی تھی۔