خبریں

’ہم نے شدید بارش کی وارننگ دی تھی، تاکہ حکومت بہار صورتحال سے نپٹنے کے لئے تیار رہے‘

خصوصی رپورٹ : بہار کی راجدھانی پٹنہ واقع محکمہ موسمیات کے ڈپٹی  ڈائریکٹر نے بتایا کہ 26 ستمبر سے ہی ہم لوگ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ریاست کی ایجنسیوں کو بتا رہے تھے کہ موسلا دھار بارش ہوگی۔ ہم نے ریاستی حکومت کو بھی اس کی اطلاع بھیجی تھی۔

پٹنہ میں سیلاب میں پھنسے لوگوں کو جے سی بی سے نکالا گیا(فوٹو : پی ٹی آئی)

پٹنہ میں سیلاب میں پھنسے لوگوں کو جے سی بی سے نکالا گیا(فوٹو : پی ٹی آئی)

پٹنہ: ادھیڑ عمر کا ایک رکشہ والا سڑک پر سینہ بھر پانی میں کھڑا ہے۔ رکشہ پانی میں کاغذ کی طرح ہل-ڈول رہا ہے۔ پانی لگاتار برس رہا ہے اور رکشہ ڈرائیور رو رہا ہے۔رونے کی آواز اتنی تیز ہے کہ آس پاس کے لوگ صاف طور پر سن پا رہے ہیں۔ چھت سے کچھ لوگ اس کو روتا دیکھ‌کر جذباتی ہو جاتے ہیں اور اس کو کسی طرح ڈھارس بندھاتے ہوئے کہتے ہیں،’مت روئیے نہ! رکشہ یہیں چھوڑ دیجئے اور چلے جائیے۔ ‘ ایک دیگر خاتون اس کو دلاسہ دیتی ہے، ‘یہاں (رکشہ) لگا دیجئے۔ ہم لوگ دیکھتے رہیں‌گے۔ یہاں اونچا ہے۔ ‘

سوشل میڈیا پر وائرل ہوا یہ ویڈیو پٹنہ میں سیلاب کی ٹریجڈی کا نمائندہ ویڈیو بن گیا ہے۔ اس وقت راجیندر نگر ، کنکڑباغ ، سیدپور، بہادرپور سمیت دیگر علاقوں میں پھنسے ہزاروں لوگوں کی ذہنی حالت اسی رکشہوالے جیسی ہے۔

 کثیر منزلہ عمارتوں کا نچلا حصہ بارش کے پانی سے بھرا ہوا ہے۔ اوپری حصے میں رہنے والے لوگ پانی میں گھر گئے ہیں۔ فٹ پاتھ پر رہنے والے ہزاروں لوگ کہاں گئے، کسی کو نہیں پتہ۔ہاسٹلوں میں طلبا-طالبات پھنسے ہوئے ہیں۔ پینے کے پانی اور کھانے کے سامان کی شدید قلت ہے۔ پرچون کی دکانوں کا اسٹاک ختم ہے۔ بازار سے سبزیاں غائب ہیں۔ پانی میں ایک کشتی دکھ جاتی ہے تو بچاؤ کے لئے سیکڑوں آواز ایک ساتھ سنائی پڑنے لگتی ہیں۔

بہار کے ڈپٹی سی ایم سشیل کمار مودی بھی مع اہل و عیال دو دنوں تک راجیندر نگر میں پانی میں پھنسےہوئے تھے۔ سوموار کو این ڈی آر ایف کی ٹیم نے ان کو اور ان کی فیملی کو باہر نکالا۔لیکن ہزاروں لوگ ڈپٹی سی ایم کی طرح خوش نصیب نہیں ہیں کہ بچاؤ ٹیم فوراً پہنچ جائے‌گی۔61 سال کے احمد علی تین دن سے راجیندر نگر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا،’27 ستمبر کی رات سے بارش شروع ہوئی، تو پانی آہستہ آہستہ بڑھنے لگا۔ نچلے حصے میں رہنے والے لوگ گھر چھوڑ‌کر جا چکے ہیں۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘تین دن سے بجلی نہیں ہے۔ بجلی نہیں ہونے سے پانی بھی نہیں آ رہا ہے۔ پہلے سے کچھ پانی بچاکر رکھے تھے، اسی سے کام چل رہا تھا۔ کھانے-پینے کا سامان ختم ہو گیا، تو آج کسی طرح بریڈ منگوائے ہیں۔ ‘پورے بہار میں پچھلے تین دنوں میں پانی اور سیلاب سے 29 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔اتوار کو بہار کے نتیش کمار نے پٹنہ میں بارش کے بعد پیدا شدہ حالات سے نپٹنے کے لئے کیا کیا گیا، اس کا ذکر نہ کر کے معاملہ آب وہوا کی تبدیلی سے جڑا بتایا۔

انہوں نے کہا، ‘پانچ-چھے دنوں سے لگاتار بارش ہو رہی ہے اور ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ آگے بارش کی کیا حالت رہے‌گی۔ ’30 ستمبر کو بہار کے محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ کے وزیر نیرج کمار نے کہا، ‘بے وقت اور زیادہ بارش سے معمولات زندگی بے حال ہوئی ہے۔ ‘ انہوں نے اس ‘ زیادہ بارش ‘ کو قدرتی آفت مانا راحت کاکام کرنے کی بات کہی۔حالانکہ موسمیاتی مرکز کے افسروں نے بتایا کہ پٹنہ اور دیگر حصوں میں زوردار بارش ہوگی، اس کا الرٹ 19 ستمبر سے جاری کیا جانے لگا تھا۔ اس لئے یہ کہنا سراسر غلط ہوگا کہ اچانک بارش ہونے لگی، جس وجہ سےحالات قابو سے باہر ہو گئیں۔

ہندوستانی محکمہ موسمیات کی طرف سے جاری ہونے والے باقاعدہ بلیٹن اور پریس ریلیز سے بھی پتہ چلتا ہے کہ 19 ستمبر سے ہی محکمہ موسمیات کی طرف سے آگاہ کیا جانے لگا تھا کہ بہار میں غیر متوقع بارش ہونے والی ہے۔

ریلیز

ریلیز

ہندوستانی محکمہ موسمیات کی طرف سے 19 ستمبر کو جاری دو ہفتے کے موسم کی پیش گوئی (19 ستمبر سے دو اکتوبر تک) میں صاف طور پر لکھا گیا تھا،  ‘مشرقی ہندوستان (اڑیسہ ، مغربی بنگال، سکم، بہار اور جھارکھنڈ)کے بڑے حصوں  میں پہلے ہفتے کے آخر میں بارش ہوسکتی ہے۔ ‘دراصل، بہار کے اوپر ایک سائکلونک سرکلیشن تیار ہوا تھا، جس وجہ سے زوردار بارش کا اندازہ لگایا گیا تھا۔موسمیاتی مرکز (پٹنہ) کے ایک افسر نے کہا، ‘بہار کو لےکر جو بلیٹن ہندوستانی محکمہ موسمیات کی طرف سے جاری ہوا تھا، اس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ 27 ستمبر سے 3 اکتوبر کے درمیان بہار میں معمول سے زیادہ بارش ہوگی۔ ‘

پٹنہ کے موسمیاتی مرکز کے ڈپٹی ڈائریکٹر آنند شنکر کہتے ہیں،’26 ستمبر کو ہمیں یہ اشارہ مل گیا تھا کہ بارش سے حالات سنگین ہو سکتے ہیں، اس لئے ہم نے 26 تاریخ سے ہی پریس ریلیز جاری کرنا شروع کر دیا تاکہ ریاستی حکومت حالات سے نپٹنے کے لئے پوری طرح تیار رہے۔ ‘ان کے مطابق، 26 تاریخ کے بعد 27 ستمبر کو بھی پریس ریلیز جاری کی۔ 28 ستمبر کو موسمیاتی مرکز نے دو بار پریس ریلیز جاری کی۔ 29 ستمبر کو بھی پریس ریلیز جاری کرکے بارش کی پیش گوئی کی جانکاری دی گئی۔

 آنند شنکر نے آگے کہا، ‘پریس ریلیز جاری کرنے کے ساتھ ہی 26 ستمبر سے ہی ہم لوگ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ریاست کی ایجنسیوں کو بریف کر رہے تھے کہ موسلا دھار بارش ہوگی۔ ہمارے پاس تمام بلیٹن ہیں، جو ہم نے ریاستی حکومت کو بھیجے تھے۔ ریاستی حکومت کے پاس بھی ہوں‌گے۔ ’29 ستمبر کو نتیش کمار نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں کہا تھا، ‘ابھی ہتھیا نچھتّر چڑھا ہے۔ بارش کب ختم ہوگی کوئی نہیں جانتا ہے۔ موسمیات والے بھی صبح کچھ بتاتے ہیں اور دوپہر کے بعد ان کو اپنا اوپنین بدل‌کر جاری کرنا پڑ رہا ہے۔ ‘

لیکن، پچھلے تین-چار دنوں سے ہوئی بارش کو لےکر موسمیاتی مرکز کا کہنا ہے کہ جو بارش ہوئی ہے، اس کی پیش گوئی ایک دم صحیح تھی اور ہوا بھی ایسا ہی ہے۔ آنند شنکر کہتے ہیں،’اس بارش کو لےکر پیش گوئی بالکل صحیح تھی۔ مشرقی بہار میں اتوار کو موسلا دھار بارش ہوئی تھی، اس کو لےکر بھی ہم لوگوں نے متعلقہ محکمہ جات کے ایک ایک افسر کو بریف کیا تھا۔ ‘

پٹنہ واقع نالندہ میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل میں بارش کی وجہ سے پانی بھر گیا تھا(فوٹو : پی ٹی آئی)

پٹنہ واقع نالندہ میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل میں بارش کی وجہ سے پانی بھر گیا تھا(فوٹو : پی ٹی آئی)

محکمہ موسمیات کے ویدر بلیٹن کو ریاستی حکومت کتنی سنجیدگی سے لیتی ہے، یہ اس بات سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ 19 ستمبر کے بلیٹن میں بارش کی پیش گوئی کے باوجود بہار حکومت نے بارش اور سیلاب کو لےکر پہلی میٹنگ27 ستمبر کو کی، لیکن اس میں بھی بہار میں ہونے والی بارش کو لےکر کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔محکمہ آبی وسائل کے ذرائع نے بتایا کہ 27 ستمبر کو وزیراعلیٰ نتیش کمار کی صدارت میں ایک اہم اجلاس ہوا تھا۔ اس میں محکمہ قدرتی آفات اور محکمہ آبی وسائل کے افسر بھی شامل تھے۔ لیکن اجلاس میں نیپال میں 28، 29 اور 30 ستمبر کو 300 میلی میٹر بارش کی پیش گوئی کو لےکر بات ہوئی تھی۔ اجلاس میں پٹنہ میں احتیاطی قدم اٹھانے کو لےکر کوئی بات چیت نہیں کی گئی تھی۔

پٹنہ کے باشندوں کا کہنا ہے کہ ان کو بھی کسی طرح کا الرٹ نہیں ملا کہ پٹنہ میں اتنی بارش ہوگی، ورنہ وہ لوگ پہلے سے ہی حفاظتی اقدامات کرلیتے۔

بہادرپور میں رہنے والے شبھم سوربھ نے بتایا،’تین دن سے میرے کمرے میں ڈھائی فٹ پانی ہے۔ حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملی ہے۔ خواتین کو کسی طرح باہر نکال‌کر ایک ہوٹل میں 950 روپے(روزانہ) کا کمرہ لےکر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم لوگوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ اتنی بارش ہوگی۔ اگر ہمیں پہلے جانکاری مل جاتی تو محفوظ مقام پر چلے جاتے۔ ‘غور طلب ہو کہ پٹنہ سے نکلنے والا پانی گنگا میں جاتا ہے۔ اس کے لئے پٹنہ کی الگ الگ جگہوں پر تین درجن سمپ ہاؤس لگائے گئے ہیں۔ ان کے ذریعے ہی پانی گنگا میں جاتا ہوتا ہے، لیکن زیادہ تر سمپ ہاؤس خراب تھے۔

ادھر، دو ہفتے پہلے سے ہی گنگا کے پانی کی سطح میں اضافہ ہونا شروع ہوا تھا اور گنگا سے متصل علاقوں میں پانی گھسنے لگا تھا۔ کئی سڑکوں پر پانی آ گیا تھا، لیکن حکومت نے نہ سمپ ہاؤس کو ٹھیک کرانے کی زحمت اٹھائی اور نہ ہی موسمیاتی مرکز کے الرٹ کو ہی سنجیدگی سے لیا۔28 ستمبر کی رات سے جب پٹنہ میں حالات کے بےقابو ہونے کی خبریں سوشل میڈیا میں تیرنے لگیں تو انتظامیہ کی نیند کھلی اور انتظامی افسروں نے سمپ ہاؤسوں کا دورہ کیا اور خراب مشینوں کو ٹھیک کرایا۔

پٹنہ سے نکلنے والے گندے پانی کے انتظام وانصرام کے لئے مرکزی حکومت نے نمامی گنگے کے تحت 3582.41 کروڑ روپیے کے منصوبہ کو منظوری دی تھی۔ اس کے تحت 1140.41 کیلومیٹر لمبی سیور لائن بچھائی جائے‌گی، جو 350 ملین لیٹر پانی کو ٹریٹ کرے‌گی۔دو سال پہلے 14 اکتوبر کو وزیر اعظم نریندر مودی نے اس منصوبہ کا سنگ بنیاد بھی رکھا تھا، لیکن اس کا کام کافی سست ہے۔

جانکار بتاتے ہیں کہ اس منصوبہ کی وجہ سے کئی جگہوں پر پانی نکاسی کا پرانا انتظام ٹھپ ہے۔ اس وجہ سے بھی پٹنہ میں پانی جمع ہوا۔پٹنہ میونسپل کارپوریشن کی ڈپٹی میئر میرا دیوی مانتی ہیں کہ پانی کی نکاسی کا انتظام پوری طرح درست نہیں تھا۔ انہوں نے کہا، ‘ پانی کی نکاسی کے انتظام میں کچھ کمیاں تھیں۔ نمامی گنگے منصوبہ کا کام بھی چل رہا ہے، اس لئے کچھ جگہوں پر پانی کی نکاسی کاپرانا نظام ٹھپ تھا۔ کچھ سمپ ہاؤس میں بھی مسئلہ تھا، لیکن اب ان کو ٹھیک کر لیا گیا ہے اور پانی بھی نکل رہا ہے۔ ‘

گنگا کنارے پٹنہ شہر کا ڈوبا ہوا حصہ(فوٹو : پی ٹی آئی)

گنگا کنارے پٹنہ شہر کا ڈوبا ہوا حصہ(فوٹو : پی ٹی آئی)

محکمہ قدرتی آفات کی طرف سے جاری ریلیز کے مطابق، پٹنہ میں این ڈی آر ایف اور ایس ڈی آر ایف کی ایک ایک ٹیم تعینات ہے۔ راحت سامان پہنچانے کے لئے ہیلی کاپٹر کی بھی مدد لی جا رہی ہے۔این ڈی آر ایف اور ایس ڈی آر ایف نے دو دنوں نے 26 ہزار لوگوں کو محفوظ نکالا ہے۔ جن علاقوں میں پانی زیادہ ہے، وہاں ٹریکٹر سے ضروری سامان لوگوں تک پہنچانے کی اسکیم ہے۔بہار کے محکمہ آفات کے وزیر لکشمیشور رائے بارش سے بچاؤ کی تیاریوں کے سوال پر کہتے ہیں، ‘ تیاری تو پوری تھی، لیکن جتنی بارش کی امید نہیں تھی، اتنی بارش ہو گئی، جس سے ایسی حالت پیدا ہوئی۔ ‘

انہوں نے یہ قبول کیا کہ موسمیاتی مرکز کی طرف سے شدید بارش کا الرٹ آیا تھا، لیکن اتنی بارش ہو جائے‌گی، اس کا اندازہ حکومت کو نہیں تھا۔

بہار میں معمول سے زیادہ بارش

بہار میں مانسون کی بارش عام طورپر : 1013.3 میلی میٹر ہوتی ہے۔ موسمیاتی مرکز (پٹنہ) کے مطابق، 30 ستمبر تک 1017.4 میلی میٹر بارش ہوئی ہے، جو معمول سے تقریبا چار فیصد زیادہ ہے۔موسمیاتی مرکز کے مطابق، سپول، سمستی پور، گوپال گنج، سیوان اور بکسر میں ہی معمول سے زیادہ بارش ہوئی ہے۔ وہیں، تین ضلعوں بیگوسرائے، شیخ پورہ اور ارول میں معمول سے کم بارش درج کی گئی ہے۔ دیگر ضلعوں (پٹنہ بھی شامل) کی بات کریں، تو وہاں اب تک جو بارش درج ہوئی ہے، وہ معمول کے مطابق ہی ہے۔پٹنہ میں پانی کے جمع ہونے پر ریاستی حکومت بھلےہی یہ کہہ رہی ہے کہ شدید بارش سے مسئلہ پیدا ہوا، لیکن اعداد و شمار اس دعویٰ کو جھٹلا رہا ہے۔ پٹنہ میں مانسون کی بارش تقریباً 917.2 میلی میٹر ہوتی ہے۔ 29 ستمبر تک پٹنہ میں 785.5 میلی میٹر بارش ہوئی ہے۔

بہار میں اس بار مانسون کی دستک 22 جون کو ہوئی ہے۔ لیکن شروعاتی دور میں بارش کافی کم تھی۔ گزشتہ سال 27 ستمبر تک پورے بہار میں 852 میلی میٹر بارش درج کی گئی تھی، جو اوسط سے 150 میلی میٹر کم تھی۔ اس کا خدشہ تھا کہ اس بار بھی مانسون کی بارش معمول سے کم رہے‌گی۔ستمبر سے مانسون کی وداعی شروع ہو جاتی ہے۔ عموماً ایک ستمبر سے راجستھان سے سب سے پہلے مانسون کی وداعی ہوتی ہے، لیکن اس بار اس میں دیر ہوگی۔ اس کا اثر بہار میں بھی دکھے‌گا۔موسمیاتی مرکز کے افسروں نے کہا کہ بارش کی مقدار کی بنیاد پر دیکھا جائے، تو بہار میں مانسون معمول کے مطابق ہی ہے، لیکن اس بار بہار سے مانسون کی وداعی تھوڑی دیر سے ہوگی۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)