خبریں

عشرت جہاں کی ماں کا شنوائی میں حصہ لینے سے انکار، کہا–ناامید اور بے بس ہوچکی ہوں

گجرات پولیس کے مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں ماری گئی عشرت جہاں کی ماں شمیمہ کوثر نے احمدآباد میں ایک اسپیشل سی بی آئی عدالت میں کہا کہ 15 سے زائد سال گزر گئے لیکن پولیس افسروں سمیت سبھی ملزمین ضمانت پر ہیں ۔ انہوں نے سی بی آئی سے ملزمین کے جرم کو طے کرنے کی اپیل کی۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی : گجرات پولیس کے مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں ماری گئی عشرت جہاں کی ماں شمیمہ کوثر نے منگل کو احمد آباد میں ایک اسپیشل سی بی آئی عدالت میں کہا کہ وہ اب اس معاملے کی شنوائی میں حصہ نہیں لے سکتیں  کیوں کہ انصاف کے لیے اتنی لمبی لڑائی کے بعد وہ ناامید اور بے بس محسوس کرتی ہیں۔اسپیشل سی بی آئی عدالت کے جسٹس آر کے چوڑا والا- پولیس ڈی جی پی جی ایل سنگھوی ، سابق ڈی ایس پی ترون بروٹ ، سابق  پولیس سب انسپکٹر جے جی پرمار اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر اناجو چودھری  سمیت چار ملزم پولیس کے ذریعے الزام سے بری کر نے کے لیے دائر عرضیوں پر شنوائی کر رہے ہیں۔

کوثر نے عدالت کو ایک خط لکھ کر کہا کہ ، سزا نہیں دینے کے اس  کلچر سے میں بہت صدمے میں ہوں ، میرا جذبہ ٹوٹ گیا ۔کوثر نے کہا کہ وہ عدالت کی کارروائی سے دوری بنارہی ہیں اور سی بی آئی سے ملزمین کے الزام کو طے کرنے کی اپیل کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ، انصاف کے لیے اتنی لمبی لڑائی کے بعد میں ناامید اور بے بس محسوس کرتی ہوں ۔ 15 سے زائد سال گزر گئے لیکن پولیس افسروں سمیت سبھی ملزم ضمانت پر ہیں ۔ میری بیٹی کے قتل کے مقدمے کا سامنا کرنے کے باوجود کچھ تو گجرات سرکار نے بحال کر دیا ۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی بیٹی بے قصور تھی اور ایک بھیانک مجرمانہ سازش کی وجہ سے اس کو قتل کیا گیا اور یہ سازش اس لیے کی گئی کیوں کہ وہ مسلم عورت تھی اور اس لیے اس کو خطرناک دہشت گرد بتا کر سیاسی مفاد کی تکمیل کی گئی ۔

کوثر نے کہا،’میں نے اپنی وکیل ورندا گروور کو بتا دیا ہے کہ اب لڑنے کی میری خواہش ختم ہو گئی ہے اور وہ سی بی آئی عدالت میں شنوائی میں حصہ نہیں لینا چاہتی۔ اتنے لمبے اور پیچیدہ عدالتی عمل نے مجھے تھکا اور پریشان کر دیا ہے۔’انھوں نے کہا کہ اپنی بیٹی کے لیے انصاف کی ان کی جدو جہد میں انھوں نے پایا کہ وہ گجرات کے کچھ بہت طاقتور پولیس افسروں کو سزا دلانا چاہتی ہیں جو سروس میں ہیں اور جن کو ریاست کا تحفظ حاصل ہے۔

انھوں نے کہا،’کئی کمزور معصوم شہریوں کی جان بچانے کے لیے سزا نہ دینے کے اس کلچر کو مٹانے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف میری لڑائی نہیں ہو سکتی۔ یہ دیکھنا اب سی بی آئی کا کام ہے کہ مجرموں کو سزا ملے۔’کوثر نے کہاکہ ان کی بیٹی کے ‘بے رحمی سے قتل’کو غلط اور غلط طریقے سے انکاؤنٹر قتل دکھایا گیا اور اس کو بد نیتی سے دہشت گردی بتایا گیا۔’

غور طلب ہے کہ مہاراشٹر کے ممبرا علاقے میں رہنے والی 19 سال کی لڑکی   عشرت اور تین دیگر جاوید شیخ عرف پرنیش پلئی، امجد علی اکبر علی رانا اور ذیشان جوہر کو 15 جون 2004 کو احمد آباد کے باہری علاقے میں پولیس کے ذریعے مبینہ طور پر ‘ انکاؤنٹر  ‘ میں مارے گئے تھے۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ چاروں دہشت گردی سے تعلق رکھتے تھے اور وہ گجرات کے اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کا قتل کرنے کی سازش کر رہے تھے۔

سی بی آئی نے اگست 2013 میں 7 لوگوں کے خلاف جارچ شیٹ دائر کی تھی اور فروری 2014 میں 4 اور لوگوں کے خلاف سپلیمنٹری چارج شیٹ دائر کی تھی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)