خبریں

راشٹر واد کے جھو ٹے جذبات پر مبنی فیک نیوز کا سچ 

فیک نیوز کی اشاعت پر کسی ایک مخصوص طبقے، ادارے، یا سیاسی جماعت کی اجارہ داری  نہیں ہے۔ یہ اشاعت کبھی بھی کہیں سے بھی ہو سکتی ہے۔ حالانکہ موجودہ تناظر میں بھگوا افراد یا جماعتیں فیک نیوز کی اشاعت میں سب سے آگے ہیں  لیکن اس کاروبار میں مودی مخالف حضرات بھی پیچھے نہیں ہیں۔

Media Header

5 اگست کو مودی حکومت نے دفعہ 370کو بے اثر کر دیا تھا جس کی وجہ سے صوبہ جموں وکشمیر کو اپنےخصوصی درجے سے محروم ہو گیا۔ مودی حکومت کے اس قدم کے بعد  مسئلہ کشمیر  اس وقت عالمی سطح پر بحث کا موضوع بنا ہوا ہے اور دنیا بھر کے بڑے اخبارات میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس کشمیر کے مسائل اور وہاں کی عوام کی پریشانیوں کو نظر انداز کر کے ہندوستانی  میڈیا نے اس معاملے کو حکومت اور بی جے پی کے لئے پروپیگنڈا کا ہتھیار بنا لیا ہے اور میڈیا چینلوں پر ملک کے دیگر تمام مسائل سے کنارہ کر کے ناظرین کو حب الوطنی  کے جھوٹے جذبات پروسے جا رہے ہیں۔ میڈیا کے اس پروپیگنڈہ  اور پرچار کا براہ راست بڑا فائدہ بی جے پی کو کچھ صوبوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ہونے والا ہے جہاں بی جے پی کے لیڈران خود بھی انتخابی ریلیوں میں بالاکوٹ کی طرح کشمیر کو بھی استعمال کر رہے ہیں!

 گزشتہ ہفتے ری پبلک ٹی وی،اے بی پی نیوز،  زی نیوز، انڈیا ٹوڈے اور ٹائمز ناؤ جیسے تمام چینلوں نے  بالاکوٹ اسٹرائیک کو لے کر یہی جھوٹا پروپیگنڈہ کیا۔ان تمام میڈیا اداروں نے اپنے چینلوں یا سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ایک ویڈیو شائع کیا جس کے تعلق سے دعویٰ کیا گیا کہ  یہ ویڈیو بالاکوٹ ایئر اسٹرائیک کا ویڈیو ہے جس کو ہندوستانی ایئر فورس نے ثبوت کے طور پر جاری کیا ہے۔

 غور طلب ہے کہ جب لوک سبھا انتخابات سے قبل مودی حکومت نے ‘پاکستان میں گھس کر’ایئر اسٹرائیک کا دعویٰ کیا تھا تو قومی اور عالمی سطح پر لوگوں نے اس پر سوال کھڑے کئے تھے اور ہندوستان میں سول سوسائٹی کے ذمہ دار لوگوں نے حکومت سے اس کاثبوت بھی مانگا تھا لیکن بی جے پی کے مقتدر لیڈران نے اپنی ریلیوں میں ان سوالات کو بھی پروپیگنڈا کی نذر کر دیا اور عوام کو یہ پیغام دیا کہ یہ لوگ جو ہماری فوج کی کاوشوں پر شک کرتے ہیں، ان کا ثبوت مانگتے ہیں، یہی اصل غدار ہیں اور ملک کو ان سے بچانا ہے، لہٰذا ، دوبارہ مودی جی کو ہی پرائم منسٹر بنانا ہے!

ری پبلک ٹی وی نے ویڈیو ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ انڈین ایئر فورس نے بالاکوٹ ویڈیو جاری کی اور میجر گورو آریہ نے اس کو  مثبت قدم قرار دیا۔

اے بی پی نیوز نے اس ویڈیو کو ‘ایکس کلوزو فوٹیج’ قرار دیا  اور  پنجاب کیسری نے لکھا، ‘بالاکوٹ میں  ایئر اسٹرائیک کا پہلا ویڈیو جاری، دیکھئے کیسے پاکستان میں گھس کر مارے تھے آتنکی”

 ٹائمز ناؤ نے ٹوئٹ کیا کہ شک کرنے والے لوگوں نے نریندر مودی  پر یقین نہیں کیا تھا، کیا وہ فوج کی پوشاک پہ بھی شک کریں گے۔

الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ ویڈیو بالاکوٹ اسٹرائیک کا اصل ویڈیو نہیں ہے بلکہ8 اکتوبر کو منعقد کی جانے والی ایئر فورس ڈے کی تقریبات کا حصہ ہے جس میں ایئر فورس کی جانب سے یہ پروموشنل ویڈیو جاری کی گئی تھی۔ یہ ویڈیو فلم یا ڈاکیومنٹری کی شکل میں بنائی گئی تھی۔ خبر رساں اجنسی اے این آئی کا ٹوئٹ اس بات کی دلیل ہے۔

لہٰذا یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ میڈیا اداروں نے جس ویڈیو کو بالاکوٹ کا ویڈیو بتاکر عوام کو پروسا تھا اور ان کو گمراہ کیا تھا، دراصل وہ ایک پروموشنل ویڈیو ہے۔

موجودہ دور میں میڈیا کا پروپیگنڈہ  دو باتوں پر منحصر ہے۔ پہلی مودی کی تعریف، ان کی پوشاک، ان کی فقیری، ان کی عالمی اپیل جو خود میڈیا نے بنائی ہے، ان کا آم کھانے کا انداز وغیرہ سب اسی میں شامل ہیں۔ میڈیا پروپیگنڈہ  کا دوسرا پہلو پاکستان کے خلاف زہر فشانی کرنا ہے۔ انھیں دو بیساکھیوں پر میڈیا اور  بی جے پی کا کاروبار چل رہا ہے۔ایئر فورس کی بالاکوٹ اسٹرائیک سے مودی کے اوصاف بیان کرنے کے ساتھ میڈیا نے پاکستان کو بھی نشانے پر لیا اور اس بار میڈیا کا حملہ مودی کے ہم منصب عمران خان پر تھا۔

معاملہ یہ تھا کہ سابق  کرکٹر وریندر سہواگ نے  عمران خان کا ایک ویڈیو ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ امریکی چینل کے ایک اینکر نے عمران خان کو  Welder from Bronx کی تشبیہ دی۔ ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ میں اپنی افسوس ناک تقریر کے بعد یہ شخص  اپنی تذلیل کے نئے مواقع  تلاش کر رہا ہے۔Bronx امریکہ کے نیو یارک شہر کا مضافاتی علاقہ ہے۔ مضافاتی   علاقے شہروں کی آبادی سے بہت دور ہوتے ہیں۔ سہواگ نے اپنے ٹوئٹ سے یہ تصور عام کیا کہ ٹی وی اینکر نے عمران خان کو مضافاتی علاقے برانکز کا ویلڈر قرار دیا ہے۔

سہواگ کے اس ٹوئٹ کو اساس بناکر میڈیا نے فیک نیوز کی اشاعت شروع کر دی اور اس کی بسم اللہ  ری پبلک ٹی وی نے کی!

ری پبلک ٹی وی کے علاوہ اے این آئی، NDTV، ہندوستان ٹائمز نے بھی اس پر خبریں شائع کی۔ NDTV کی خبر ANI کی سنڈیکیٹڈ فیڈ پر مبنی تھی۔ ایسی خبروں پر مدیر کی نظر نہیں ہوتی ہے اور اس طرح مدیر ان خبروں کے لئے جوابدہ نہیں ہوتا ہے۔

الٹ نیوز نے واضح کیا کہ  نیوز اینکر نے welder نہیں بلکہ voter کہا تھا۔ انٹرویو کے دوران جب عمران خان نے امریکہ کی شاہراہوں کی تنقید کی اور چین میں انسانی ترقی کا اعتراف کیا تو نیوز اینکر ہنسنے لگا اور امریکہ کی ترقی سے بےخبری اور تنقید پر عمران خان کی تشبیہ برانکز کے اس ووٹر سے کی جو ہمیشہ شکایت کرتا رہتا ہے۔

وریندر سہواگ کو لفظ voter اور welder کو لے کرغلط فہمی ہوگئی۔ اینکر نے voter بولا تھا لیکن سہواگ کے بیجا وطن پرست ذہن نے اس کو welder پڑھا ! اس ویڈیو میں 13منٹ 17سیکنڈ پر حقیت کو دیکھا اور سنا جا سکتا ہے:

پاکستان، کشمیر، بالاکوٹ اور وطنیت کے جھوٹے جذبات کے اسی تسلسل میں ہفتے کی تیسری بڑی فیک نیوز کشمیر سے تعلق رکھتی ہے اور یہ تصویروں کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے۔آشیش کوہلی  نامی شخص نے ٹوئٹر پر الٹ نیوز کے فیکٹ چیکر ارجن سدھارتھ کو ٹیگ کرتے ہوئے کچھ تصویریں پوسٹ کیں اور لکھا:

ارجن سدھارتھ، تمہارے ہندوستان مخالف پروپیگنڈہ اور فیک ٹوئٹ کے جواب میں یہ تین تصویریں آج ہی کشمیر سے لی گئی ہیں۔

fake 3

آشیش کوہلی نامی یہ شخص خود کو صحافی اور جموں  کا شہری  بتاتا ہے اور ہندوستان کی فنانس منسٹر دفتر کے ٹوئٹر ہینڈل سے اس کو فالو کیا جاتا ہے۔الٹ نیوز کے لئے ارجن سدھارتھ نے انکشاف کیا کہ یہ تصویریں فیک نیوز کے دائرے میں آتی ہیں کیوں کہ ان کا سیاق و سباق اور وقت مختلف ہے۔ الٹ نیوز نے واضح کیا کہ یہ تصویریں اس سال اگست ماہ سے پہلے ہی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔

پہلی تصور کوسمیر یاسر نامی صحافی نے اپنے ویری فائیڈ ٹوئٹر ہینڈل سے  اسی سال22 مارچ کو ٹوئٹ کیا تھا۔

دوسری تصویر کو کشمیر لائف اخبار نے12 اپریل2017 کو شائع کیا تھا۔

تیسری تصویرڈیلی ایکسل سئیر نامی ویب سائٹ سے لی گئی ہے جہاں اس کو20 نومبر2016 میں شائع کیا گیا تھا۔

لہذا، یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آشیش نے جو تصویریں کشمیر میں موجودہ حالات کے جواز میں ٹوئٹ کی تھیں وہ جھوٹی تھیں۔

fake 4

فیک نیوز کی اشاعت پر کسی ایک مخصوص طبقے، ادارے، یا سیاسی جماعت کی اجارہ داری  نہیں ہے۔ یہ اشاعت کبھی بھی کہیں سے بھی ہو سکتی ہے۔ حالانکہ موجودہ تناظر میں بھگوا افراد یا جماعتیں فیک نیوز کی اشاعت میں سب سے آگے ہیں  لیکن اس کاروبار میں مودی مخالف حضرات بھی پیچھے نہیں ہیں۔دیویندر وڈیرہ نامی فیس بک پروفائل سے ایک تصویر عام کی گئی،جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ مودی چھوٹا راجن کے پرانے دوست ہیں اور ان کے قریبی رہے ہیں۔ یہ تصویر مودی کو نشانہ بنانے کے لئے عام کی گئی تھی۔

الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ اس تصویر میں چھوٹا راجن کی شکل کوفوٹو شاپ کی مدد سے لگایا گیا ہے۔ اصل تصویر میں ایسا نہیں ہے۔