فکر و نظر

امید سحر کی بات سنو…

کچھ عرصے سے ہندوستان سے بہت دکھ دیوا باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ کبھی کسی کو گائے کا گوشت کھانے پر مار دیا جاتا ہے تو کبھی کسی کشمیری مسلمان کو کرائے پر گھر دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا نام ایک گالی بن چکا ہے کہ جس سے ذرا سا بھی مسئلہ ہو اسے پاکستان جانے کا مفت مشورہ یا یوں کہیے دھمکی دے دی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی مذہبی منافرت اپنے عروج پر ہے۔ اقلیتوں کے حالات ان دونوں ملکوں میں کچھ خاص اچھے نہیں۔

عللامتی تصویر، فوٹو:، پی ٹی آئی

عللامتی تصویر، فوٹو:، پی ٹی آئی

ہماری عمر قریب چونتیس برس ہے۔عورت ہوں۔ زمانے کا کہنا ہے کہ عمر بتانا نسوانیت کے شایان شان نہیں۔ لیکن آگ لگے زمانے کو۔ اب تک اس سے کس جنت کی نوید سن لی جو آج کے دن سنائے گا۔ ہمیں اس بات سے چنداں فرق نہیں پڑتا کہ ہم اس کے کس معیار پر پورے اترتے ہیں۔ آپ سب اپنے ہیں۔ مانا کہ یہ آپ سے پہلی ملاقات ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ آپ ہم سے دوبارہ ملنا مناسب نہ سمجھیں۔ کچھ بھی ممکن ہے۔

اجی، بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہم ایسے ہی ہیں۔ تو عمر کا ذکر کچھ یوں آیا کہ آپ سے پہلی ملاقات ہے۔ آپ سے ملنے سے پہلے جو زندگی گزاری اس کے بارے میں جاننا آپ کا بنیادی حق ہے۔ ہم نے زندگی کے انتیس سال پاکستان کے مختلف شہروں میں گزارے۔ ہندوستانی فلموں میں دکھائے جانے والے پاکستانیوں کے برعکس ہم نہ تو بہت مذہبی تھے اور نہ ہی آنکھوں کو سرمے سے تر کیے رکھتے تھے۔ بس آپ جیسے ہی تھے۔

والدہ کا خاندان بٹوارے کے بعد پاکستان آیا تھا۔ روہتک کے ایک شہر جھجھر کا نام ہم نے اس قدر سن رکھا تھا کہ لگتا تھا یہیں لاہور کے عقب میں ہے۔ ہجرت کر کے آنے والے ان تمام رشتے داروں نے پاکستان کے ایک شہر سرگودھا میں منی جھجھر آباد کر رکھا تھا۔ یہاں کا رہن سہن، زبان، بودو باش، کھانا پکانا سب یوں ہی تھا جیسے جھجھر میں ہوا کرتا ہو گا۔ یوسف زئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے اس خاندان کو اپنی زباندانی اور تعلیم پر بہت ناز تھا۔ ان کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ رشتے بھی اپنے جیسے مہاجروں میں ہی کریں۔ ہمیشہ تو یہ نہیں ممکن تھا لیکن اکثر کامیابی مل بھی جاتی تھی۔ یوں منی جھجھر کی ایک گلی سے دوسری گلی میں بارات پیدل ہی چل پڑتی تھی۔

ہماری نانی جان کو اپنا پرانا گھر ازبر تھا۔ باوجود اس کے کہ ہماری نانی مشتری بیگم بہت مضبوط اعصاب کی مالک تھیں اور حال میں رہنا پسند کرتی تھیں، اپنے گھر اور مٹی کو نہ بھول پائی تھیں۔ ایک نئے دیس میں انہوں نے مکان تو کھڑا کر لیا تھا لیکن اس بودو باش کو مکمل طور پر اپنانا ان کے بس میں نہ تھا۔ ساٹھ سال تک ٹھیٹھ پنجابیوں کے شہر  رہنے کے باوجود آج بھی اپنی ہی بولی بولتی تھیں۔ ان کے بچوں نے مقامی زبان سیکھ لی تھی لیکن نانی جان کا فخر ان کو اس بات کی اجازت نہ دے پایا۔

راقم کی والدہ کی پیدائش موجودہ پاکستان کی تھی لیکن اس کے باوجود ان کو بھی ہمیشہ یہی کہتے سنا کہ پاکستان سے باہر جانے کا شوق نہیں۔ اگر موقع ملا تو بس دلی اور آگرہ دیکھوں گی۔ ہم بھی ان کی دیکھا دیکھی یہی سوچتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ خدا نے بعد میں دنیا کے کئی رخ دکھائے لیکن دلی دیکھنا نصیب میں نہ تھا۔

ہمارا بچپن ضیا الحق کے زمانے کے بعد کا ہے۔ ملک ایک ڈکٹیٹر کے تسلط سے نیا نیا آزاد ہوا تھا لیکن ابھی بھی کہیں نہ کہیں اس عہد رفتہ کی باقیات زندہ تھیں۔ مطالعہ پاکستان میں یہ تو پڑھایا جا رہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دشمن ملک تھے لیکن یہ زہر ابھی رگوں میں سرائیت نہ کر پایا تھا۔ جب کبھی انار کلی بازار میں سکھ یاتری شاپنگ کرتے نظر آتے تو والد صاحب انہیں ضرور ملتے اور گھر آنے کی دعوت دیتے۔ وہ ہمیں امرتسر اور چنڈی گڑھ کا بلاوا دیتے۔ اگلے سال وہ یاتری نظر نہ آتے لیکن والد صاحب کی دعوت وہی رہتی۔

جب بڑے ہوئے تو دونوں ملکوں میں نفرت اور پروپیگنڈہ  بہت حد تک ناسور کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ ہمارا دل ابھی بھی یہی کہتا تھا کہ یہ سب چار صاحب اختیار لوگوں کے مفاد کا گیم ہے۔ لیکن دل کا کیا ہے۔ دل تو پاگل ہے۔ دلی جانا ناممکن تھا۔

خدا کا کرنا کیا ہوا کہ وقت کم بخت بدل گیا۔ اچھا ہی ہوا۔ ہم نے نئی دنیائیں دیکھ لیں۔ ملک سے باہر جا کر معلوم ہوا کہ جو نفرتیں ہم اپنے دلوں میں بسائے بیٹھے تھے وہ تو جھٹ سے بھسم ہوئیں۔ ہماری ہمسائی جس کا تعلق ہماری والدہ کے محبوب شہر دلی سے تھا اسی نے ہمیں نئے ملک کے بارے میں ہر چیز سے آگاہ کیا۔ بعد میں اس نے بھی بتایا کہ ہم پہلے پاکستانی تھے جس سے اس کی بات چیت ہوئی۔ جو اس کے ذہن میں تھا ہم اس کے برعکس نکلے۔ بالکل اسی جیسے نکلے۔

یہاں نہ صرف ہمارے کئی ہندوستانی دوست بنے بلکہ کئی ایسے لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی  جن کے لیے ہم سے پہلی ملاقات ایک ہوا تھی۔ ہمیں آج بھی اپنی عزیز از جان سہیلی پریہ کے ساتھ اس کی ایک سہیلی سلکشنا کو ملنا یاد ہے جس نے پریہ سے فرمائش کی تھی کہ وہ اسے اپنی ‘پاکستانی ‘سہیلی سے ملوائے۔ پریہ نے ہمیں بتایا تو ہم دونوں مل کر خوب ہنسے۔ سلکشنا کو یقیناً ہم سے مل کر خوب مایوسی ہوئی ہو گی کہ نہ تو ہم برقع پہنے ہوئے تھے اور نہ ہی فرشی آداب بجا لاتے تھے۔

لال قلعہ، فوٹو: ششانک سنہا/دی وائر

لال قلعہ، فوٹو: ششانک سنہا/دی وائر

کچھ عرصے میں ہمیں اور ہماری سب سہیلیوں کو یہ معلوم ہو گیا کہ ہم ایک ہی جیسے ہیں۔ اپنے ملکوں میں نصابی کتب اور میڈیا کے پروپیگنڈہ کے برعکس ہمارا بہت کچھ ملتا جلتا تھا۔ جیسے ہمیں بیسن ہمیشہ انڈین اسٹور سے ملا اس طرح انہیں بھی بریانی کے لیے شان کا مصالحہ ہی بھاتا تھا۔ کچھ عرصے میں ہمیں بھی ڈوسہ اور سانبھر بھانے لگا تھا۔ ہماری ہندوستانی سہیلیاں ہم سے فرمائش کر کے پالک گوشت بنوانے لگیں ( جی ہاں، ان سب کو گوشت سے مسئلہ نہیں تھا)۔

دونوں اطراف کے اسٹیریو ٹائپ یوں گرنے لگے جیسے نمک کی دیوار پر گرم پانی کا اسپرے ہو گیا ہو۔ ان سب کو لاہور دیکھنے کا شوق تھا اور ہمارے سپنوں میں دلی کے بعد آگرہ اور جے پور بھی شامل ہو چکا تھا۔ وہ ہم سے افطار پر بلانے کا اصرار کرتے اور ہمیں دیوالی کے لڈو ضرور کھانے تھے۔ کبھی کبھی ایسا لگنے لگتا کہ شاید زمانہ پیچھے کی طرف جا رہا ہے۔ ہم دبئی میں نہیں بلکہ جھجھر میں رہتے ہیں جہاں فسادات سے پہلے سب اکٹھے تھے۔

کچھ عرصے سے ہندوستان سے بہت دکھ دیوا باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ کبھی کسی کو گائے کا گوشت کھانے پر مار دیا جاتا ہے تو کبھی کسی کشمیری مسلمان کو کرائے پر گھر دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا نام ایک گالی بن چکا ہے کہ جس سے ذرا سا بھی مسئلہ ہو اسے پاکستان جانے کا مفت مشورہ یا یوں کہیےدھمکی دے دی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی مذہبی منافرت اپنے عروج پر ہے۔ اقلیتوں کے حالات ان دونوں ملکوں میں کچھ خاص اچھے نہیں۔

یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم کبھی دلی نہیں دیکھ پائیں گے۔ ہماری سہیلی پریہ کبھی لاہور نہیں دیکھ پائے گی۔ ہم چاندنی چوک نہ جا سکیں گے اور وہ انارکلی میں بانو بازار کی چاٹ نہ کھا پائے گی۔ ہم صرف اپنے ملکوں سے باہر ہی امن و آشتی سے رہ پائیں گے۔ اپنے ملکوں میں رہتے ہوئے ہم ایک دوسرے کے دشمن ہی رہیں گے۔

امن اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے سامنے غربت کا عفریت کسی بھی بم سے کہیں بڑا ہے۔ کیا ہماری انا ہمارے عوام کی امن کی خواہش اور ضرورت سے زیادہ بڑی ہے؟ کیا اپنے ملک میں اپنے ہی لوگوں کو ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھا پائیں گے؟ دونوں اطراف کی وہ عوام جو ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتی بلکہ اپنے اجداد کا آبائی مکان دیکھنا چاہتی ہے وہ اس آگ میں ہر دم کیوں جھلسے؟

اگر یہ سب یوں ہی چلتا رہا اور ہم دونوں ممالک کے امن پسند عوام یوں ہی پستے رہے تو ہم روٹھ جائیں گے۔ ان ملکوں سے دور ایک نیا جہاں بسائیں گے۔ عید اور دیوالی پر ایک دوسرے کو مبارک باد دیں گے۔ گائے کا گوشت کھانے پر کسی کا خون نہیں بہنے دیں گے۔ آپ اپنی جہنم آپ بسائیے۔ ہم اپنی جنت کا بندوبست خود کر لیں گے۔ انارکلی نہ سہی دبئی میں چاٹ کھا لیں گے لیکن آپ کے بہکاوے میں ہر گز نہ آئیں گے۔ امید سحر کی بات سننے کا وعدہ کیجئے تو ہم آپ کے ساتھ ہیں ورنہ بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔

(مضمون نگارکا تعلق پاکستان سےہے ، ان دنوں آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ @khwamkhwahان کا ٹوئٹر ہینڈل ہے۔)