خبریں

تلنگانہ: ہڑتال پر گئے تقریباً 50 ہزار ملازمین‎ کی جا سکتی ہے نوکری

تلنگانہ اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کا حکومت میں انضمام کے ساتھ اپنی مختلف مانگوں کو لےکر جمعہ دیر رات سے غیر معینہ مدت کے لیے ہڑتال پر گئےملازمین‎ کی ہڑتال کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے وزیراعلیٰ کے چندرشیکھر راؤ نے کہا کہ مظاہرہ کرنے والے 50 ہزار ملازمین‎ کو واپس ان کے کام پر نہیں لیا جائے‌گا۔

ٹی ایس آرٹی سی کی ہڑتال کے دوران خالی پڑا حیدر آباد کا مہاتما گاندھی بس اسٹیشن(فوٹو : پی ٹی آئی)

ٹی ایس آرٹی سی کی ہڑتال کے دوران خالی پڑا حیدر آباد کا مہاتما گاندھی بس اسٹیشن(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: تلنگانہ اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن (ٹی ایس آرٹی سی) کے یونین کی غیرمعینہ مدت کے لیےہڑتال کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے وزیراعلیٰ کے چندرشیکھر راؤ (کے سی آر) نے کہا کہ مظاہرہ کرنے والے 50 ہزار ملازمین‎ کو واپس ان کے کام پر نہیں لیا جائے‌گا۔

غور طلب ہے کہ پبلک روڈ ٹرانسپورٹ آرگنائزیشن  کے ملازم اپنے کارپوریشن کی حکومت کے ساتھ انضمام کی مانگ کو لےکر جمعہ دیر رات سے ہی ہڑتال پر ہیں۔ اس کے علاوہ سیلری ریویزن ، نوکری کی حفاظت، بقایا رقم کی ادائیگی اور اسامیوں کو حکومت کی طرف سے بھرنے کی بھی ان کی مانگ ہے۔ تنظیم کے مطابق، کام کر رہے 50 فیصدی سے زیادہ لوگ معاہدے کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں، ان کو پکا کیا جائے۔ اس کے علاوہ بسوں کی تعداد بھی بڑھائی جائے۔

ہڑتال کی وجہ سے جہاں سیکڑوں کی تعداد میں مسافروں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا وہیں ہڑتال کر رہے ملازمین‎ کے کام پر واپس لوٹنے کے لئے حکومت نے سنیچر کی شام 6 بجے تک کاوقت طے کیا تھا۔ حالانکہ، صرف 1200 ملازم واپس کام پر لوٹے جبکہ تقریباً 50 ہزار ملازم ابھی بھی ہڑتال پر ہیں۔ اتوار رات میڈیا کو خطاب کرتے ہوئے کے سی آر نے کہا کہ کام پر واپس نہ لوٹنے والے ملازمین‎ کی نوکری چلی جائے‌گی۔

وزیراعلیٰ نے ایک پریس ریلیز میں کہا، ‘ آج تک ہمارے پاس کارپوریشن میں صرف 1200 ملازم ہیں، کیونکہ باقی کے ملازمین‎ نے رپورٹ نہیں کی ہے اور ان کو کسی بھی حالت میں واپس سروس میں نہیں لیا جائے‌گا۔’ انہوں نے کہا کہ حکومت کو بلیک میل کی حکمت عملی سے نہیں جھکایا جا سکتا۔ اب یونین سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔

10000 سے زیادہ بسیں بس ڈپو میں ہی رہنے کی وجہ سے دشہرہ اور بتوکما تہوار کے لئے گھر جا رہے مسافروں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ افسر 2100 بسوں کو کرائے پر لےکر عارضی ڈرائیوروں اور دیگر مزدوروں کو تعینات کر بس سروس کو جیسےتیسے چلا رہے ہیں۔ سروس  میں کچھ اسکولی بسوں کو بھی لگایا گیا ہے۔ اس بیچ، تلنگانہ ریاست اسٹیٹ روڈٹرانسپورٹ  کارپوریشن (ٹی ایس آر ٹی سی) کے مزدور یونین نے کہا ہے کہ وہ 50 ہزار مظاہر ہ کرنے والے ملازمین‎ کو برخاست کرنے کے ریاستی حکومت کے فیصلے کو چیلنج کریں ‌گے۔

مزدور یونین کے ایک رہنما نے سوموار کو کہا کہ سرکار کی طرف سے جیسےجیسے ان کی برخاستگی یا معطلی کے لئے قدم اٹھایا جائے‌گا، ہم عدالت جائیں‌گے۔ تلنگانہ مزدور یونین کے صدر ای اشوتتھاما ریڈی نے حالانکہ واضح کیا کہ مظاہرہ کرنے والے  ملازمین‎ کو حکومت یا کارپوریشن انتظامیہ کی طرف سے ابھی تک برخاستگی یا معطلی کا کوئی نوٹس نہیں ملا ہے۔

ریڈی نے پی ٹی آئی کو بتایا،’… ملک میں قانون ہے۔ ہماری تقرری  اصولوں کے مطابق کی گئی ہے۔ وہ ہمیں ایسے ہی نہیں ہٹا سکتے۔ یہاں عدالتیں ہیں۔ اگر ضروری ہوا تو ہم عدالت جائیں‌گے۔ ‘ وزیراعلیٰ کے اس حکم کے بعد ریاست میں بی جے پی اور کانگریس حکومت کی مخالفت کر رہی ہیں اور بس ملازمین‎ کو برخاست کئے جانے والے فیصلے کو واپس لینے  کی بات کہہ رہی ہیں۔

تلنگانہ کانگریس کے صدر اُتم کمار ریڈی نے ٹوئٹر پر کہا کہ پارٹی آر ٹی سی ملازمین‎ کے ساتھ کھڑی ہے اور اس تاناشاہی کے خلاف ان کی تمام جدو جہد میں حصہ لے‌گی۔ کانگریس ایم ایل اے گروپ  کے رہنما ملو بھٹی وکرمارک نے حیدر آباد میں صحافیو ں سے کہا کہ پارٹی کے پاس یہ یقین  کرنے کی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ ایک حکمراں ٹی آر ایس ممبر کی ملکیت والی نجی  کمپنی کو کارپوریشن سونپنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘ ان کو پتہ ہے کہ پہلے سے ہی گھاٹے  میں چل رہے کارپوریشن کی آسانی سے نجی کاری کی جا سکتی ہے۔ تلنگانہ کے لوگوں کو اس سازش کو سمجھنا چاہیے اور اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر کے لکشمن نے کہا کہ بنا کسی پختہ وجہ کے کے سی آر کو ایسا یکطرفہ فیصلہ لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان کے  حکم کو عدالت میں چیلنج کیا جائے‌گا اور وہ کبھی نافذ نہیں ہو پائے‌گا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)