خبریں

گود دینے والے اداروں میں گزشتہ تین سال میں 776 بچوں کی موت: آر ٹی آئی

آر ٹی آئی کے تحت ملی جانکاری کے مطابق، گود دینے والے اداروں میں ایک اپریل 2016 سے اس سال آٹھ جولائی تک سب سے زیادہ 124 بچوں کی موت اتر پردیش میں ہوئی۔ اس کے بعد بہار میں 107 اور مہاراشٹر میں 81 بچوں کی موت درج کی گئی۔

(فوٹو : رائٹرس)

(فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: غیر محفوظ طریقے سے بچوں کو کھلے میں چھوڑ دینے، دست اور نظام تنفس میں انفیکشن ایسی اہم وجہیں ہیں، جس کی وجہ سے پچھلے تین سال میں گود لینے کے خصوصی اداروں میں 776 بچوں کی موت ہو گئی۔ سینٹرل اڈاپشن ریسورس اتھارٹی (سی اے آر اے) نے یہ بتایا ہے۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کی طرف سے آر ٹی آئی کے تحت مانگی گئی جانکاری کے جواب میں ‘ سی اے آر اے ‘ نے بتایا ہے کہ ریاستی حکومتوں اور این جی او دونوں کے ذریعے چلائے جانے والے اڈاپشن انسٹی ٹیوٹ میں  0-6 عمر گروپ میں بچوں کی موت کی دیگر وجہوں میں قبل از وقت پیدائش کی وجہ سے پیچیدگیاں اور پیدائشی بیماریاں  بھی شامل ہیں۔

اس سال جولائی میں وومین اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ منسٹر اسمرتی ایرانی نے لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ پچھلے تین سال میں گود دینے والے اداروں  میں 776 بچوں کی موت ہو گئی۔ آر ٹی آئی کے تحت پوچھے گئے سوال کے جواب میں دئے گئے اعداد و شمار کے مطابق، مختلف ریاستوں میں 434 اڈاپشن انسٹی ٹیوٹ میں سے 355 کو این جی او اور 79 کو حکومتوں کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔

‘ سی اے آر اے ‘ نے کہا ہے کہ 44 سرکاری اڈاپشن انسٹی ٹیوٹ اور این جی کے ذریعے چلائے جا رہے 283 اڈاپشن سینٹر سے بچوں کی موت کے معاملے سامنے آئے۔ افسر کے مطابق، ان اداروں  میں 7074 بچے ہیں۔ ان میں کچھ یتیم یا بےسہارا ہیں اور کچھ کی فیملی ہیں لیکن ان کو گود دینے والےاداروں  میں رکھا گیا ہے۔

ان اداروں  میں موجود کل بچوں میں 10 فیصد کی موت ہو گئی۔ جواب کے مطابق، ایک اپریل 2016 سے اس سال آٹھ جولائی تک سب سے زیادہ اتر پردیش میں 124 بچوں کی موت ہوئی۔ اس کے بعد بہار میں 107 اور مہاراشٹر میں 81 بچوں کی موت ہو گئی۔ ایک سینئر افسر نے بتایا کہ ان میں سے کچھ معاملوں میں بچوں کواڈاپشن انسٹی ٹیوٹ میں بےحد نازک حالت میں لایا گیا تھا اور ان کے زندہ بچنے کی امید بہت کم تھی۔

افسر نے کہا کہ اگر ان کو وقت پر بھی ان داروں  میں لایا گیا توبھی وہ اتنے بیمار تھے کہ علاج کے باوجود وہ بچ نہیں پائے۔ وسط دلی میں گود دینے والے ادارے میں دیکھ-ریکھ کرنے والے ایک ملازم نے کہا کہ کئی بار ان کو بچے چھوڑے جانے کے 48 گھنٹے بعد ملے۔ ایک بار تو برسات کی رات میں چاروں طرف سے پانی کے درمیان دو دن کا بچہ ملا۔

چائلڈ رائٹس کی کارکن سنیتا کرشنن نے بتایا کہ جب ان بچوں کو اداروں  میں لایا جاتا ہے تو ان کی حالت بہت خراب ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی معاملوں میں ان اداروں  میں مختلف وجوہات سے خاص دیکھ بھال بھی نہیں ہو پاتی ہے۔ مناسب  دیکھ ریکھ کرنے والے ملازم بھی نہیں ہوتے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)