خبریں

کشمیر میں لگائی گئی پابندیوں اور حراست میں لیے گئے لوگوں کے دستاویز ہمارے پاس نہیں: وزارت داخلہ

آر ٹی آئی کے تحت مانگی گئی جانکاری میں  وزارت داخلہ  نے  کہا ہے کہ اس بارے میں ہمارے پاس کوئی جانکاری نہیں ہے۔یہ جانکاری جموں و کشمیر حکومت کے پاس ہو سکتی ہےلیکن اس درخواست کو وہاں ٹرانسفر نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ سینٹرل آر ٹی آئی قانون وہاں نافذ نہیں ہے۔

سرینگر کی ایک تصویر (فوٹو : رائٹرس)

سرینگر کی ایک تصویر (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ہٹائے تقریباً دو مہینے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے تب سے جموں و کشمیر میں موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ وہاں کے کئی رہنماؤں اور سماجی کارکنوں  کو حراست میں بھی رکھا گیا ہے۔ حالانکہ مرکزی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ ان کے پاس جموں و کشمیر میں لگائی گئی پابندیوں اور حراست میں رکھے گئے لوگوں کے بارے  میں کوئی دستاویز نہیں ہے۔

 آر ٹی آئی کارکن وینکٹیش نایک کے ذریعے دائر کی گئی ایک درخواست کے جواب میں وزارت نے یہ دعویٰ کیا۔ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد سے ہی وہاں کے زیادہ تر علاقوں میں پابندی لگائی گئی ہے۔ حکومت قومی سلامتی کا حوالہ دےکر ان پابندیوں اور حراست کو صحیح ٹھہرا رہی ہے۔گزشتہ دنوں دہلی میں سابق نوکرشاہوں کے ذریعے منعقد ایک پروگرام میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے یہاں تک کہا کہ پابندی جموں و کشمیر میں نہیں، بلکہ لوگوں کے دماغ میں ہے۔ شاہ نے حزب مخالف کے رہنماؤں اور ان لوگوں کو تنقید کا  نشانہ بناتے ہوئے یہ بات کہی جو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بات اٹھا رہے ہیں۔

اب وزارت داخلہ کے جموں و کشمیر معاملوں کے محکمہ نے آر ٹی آئی کے تحت سوالوں کا جواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ریاست میں مواصلاتی ذرائع پر لگائی پابندیوں کے بارے میں ان کے پاس کوئی دستاویز نہیں ہیں۔ وزارت نے بڑی سطح پر ہوئی لوگوں کی گرفتاری اور حراست کے بارے میں بھی کوئی جانکاری نہیں دی۔

وزارت کے سینٹرل پبلک انفارمیشن آفیسر نے کہا، ‘ اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ یہ جانکاری جموں و کشمیر حکومت کے پاس ہو سکتی ہے۔ لیکن اس درخواست کو وہاں ٹرانسفر نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ مرکزی آر ٹی آئی قانون جموں و کشمیر میں نافذ نہیں ہے۔ ‘ نایک نے کہا کہ وزارت داخلہ کا یہ جواب فیکٹ اور حقیقت  پر مبنی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ 19 دسمبر 2018 سے جموں و کشمیر میں صدر راج نافذ ہے۔ ایسی حالت میں ریاستی حکومت کے کام مرکزی حکومت کی صلاح پر گورنر کے ذریعے کرائے جاتے ہیں۔ اس طرح ریاست میں اگر مواصلاتی ذرائع پر پابندی لگانے کا حکم دیا جاتا ہے تو کم سے کم اس کی ایک کاپی وزارت داخلہ کے پاس ضرور بھیجی جائے‌گی، جس میں جموں و کشمیر محکمہ ہے۔ ‘

گزشتہ دنوں خبر آئی تھی کہ ہوم افیئرس  پر بنی پارلیامانی اسٹینڈنگ کمیٹی نے وزارت داخلہ سے جموں و کشمیر میں لگائی گئی پابندیوں، گرفتاریاں اور حراست سے متعلق جانکاری مانگی ہے۔ وزارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ جانکاری پارلیامانی کمیٹی کو مہیا کرائیں جب تک کہ قومی سلامتی کے مفاد میں کمیٹی کو جانکاری نہ دینے کا کوئی دمدار معاملہ بنتا ہو۔

اس پر وینکٹیش نایک نے کہا کہ اگر یہ جانکاری پارلیامانی کمیٹی کو  دی جا سکتی ہے تو مجھے بھی یہ جانکاری مہیا کرائی جانی چاہیے۔ آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 8 (1) (جے) کے اصول کے مطابق اگر کوئی جانکاری پارلیامنٹ  کو دی جا سکتی ہے تو وہ عوام کو بھی دی جانی چاہیے۔ نایک نے کہا، ‘ لوگوں کی آمد ورفت اور مواصلات خدمات پر پابندی  لگانے کے حکم ایسے فیصلے ہیں جو عوام کو بڑے پیمانے پر متاثر کرتے ہیں۔ نہ صرف جموں اور کشمیر میں رہنے والے لوگ، ان کے رشتہ دار اور باہر کے دوست، بلکہ میرے جیسے دیگر لوگ جن کے جموں و کشمیر میں دوست ہے، ایسی پابندیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ ‘

انہوں نے آگے کہا، ‘ اس لئے مرکز کے آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 4 (1) (سی) اور 4 (1) (ڈی) کے تحت ایسے سبھی حقائق کو جاننے کا حق ہے جس کی وجہ سے یہ پابندی لگائی گئی۔ یہ دونوں اہتمام جموں و کشمیر کے آر ٹی آئی قانون میں بھی ہے۔ ‘ وینکٹیش نایک نے کہا کہ وہ اس جواب کے خلاف اپیل دائر کریں‌گے۔ وزارت داخلہ آرٹیکل 370 اور جموں و کشمیر سے جڑے آر ٹی آئی درخواستوں کو قومی سلامتی کا حوالہ دےکر لگاتار خارج کر رہی ہے۔

دی وائر نے آر ٹی آئی کے تحت جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے سے متعلق دستاویز مانگے تھے لیکن وزارت نے آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 8 کا حوالہ دیتے ہوئے جانکاری دینے سے منع کر دیا۔