خبریں

اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا، کشمیر پر ہماری تشویش قائم ہے

  امریکہ میں’سینیٹ انڈیا کاکس’کے کو چیئرمین اور امریکی رکن پارلیامنٹ مارک وارنر نے کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت ہندسے اپیل کی ہے کہ وہ پریس، اطلاعات اور سیاسی شراکت داری کی آزادی دےکر جمہوری‎ اصولوں کی پابندی کرے۔

 (فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی :اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گٹیرس کے ترجمان نےکشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں اقوام متحدہ ایجنسی کے کچھ اہلکار کشمیر میں کام کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ چیف کے ترجمان اسٹیفن ڈوجرک نے منگل کو نامہ نگاروں سے بات چیت میں کہا، ‘ہم کشمیر کی صورتحال پر یقیناً تشویش میں مبتلا ہیں اور یہ تشویش مستقل طور پر قائم ہے۔میرا ماننا ہے کہ ہندوستان میں اقوام متحدہ  ایجنسی کے ہمارے کچھ اہلکار وہاں کام کر پا رہے ہیں۔ ‘انہوں نے کہا کہ ان کو اس پر ابھی اور جانکاری ملنی باقی ہے۔ ترجمان سےنیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے بارے میں پوچھا گیا تھاکہ کشمیر میں پوری طرح سےمواصلات بند ہونے کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کو طبی مدد نہیں مل پا رہی ہے۔ ان حالات میں اقوام متحدہ ضرورت مندوں کی مدد کے لئے کیا کررہی ہے۔

 ایک دن پہلے ہی ‘ نیویارک ٹائمس ‘ کی رپورٹ پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئےجموں و کشمیر کی صورتحال پر، امریکی پارلیامنٹ کی خارجہ امورکی کمیٹی نےکہا تھا کہ ذرائع ابلاغ پر پابندی لگانے سے تباہ کن اثر پڑ رہا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہندوستان ان پابندیوں کو ختم کرے۔وہیں، امریکہ میں’سینیٹ انڈیا کاکس’کے کو چیئرمین ڈیموکریٹک سینیٹرمارک وارنر نے منگل کو کہا کہ وہ جموں و کشمیر میں لوگوں کی آمد ورفت اورذرائع ابلاغ پر لگی’پابندیوں کی وجہ سے پریشان’ہیں۔ وارنر نے حکومت ہند سے اپیل کی کہ وہ پریس، اطلاعات اور سیاسی شراکت داری کی آزادی دےکر جمہوری‎ اصولوں کی پابندی کرے۔

 سینیٹر وارنر نے ٹوئٹ کیا،’میں اس بات کو سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی سکیورٹی  سے متعلق خدشات جائز ہیں، لیکن میں جموں و کشمیر میں ذرائع ابلاغ اور لوگوں کی آمد ورفت پر پابندیوں سے پریشان ہوں۔ ‘انہوں نے کہا، ‘میں امید کرتا ہوں کہ ہندوستان پریس، اطلاعات اور سیاسی شراکت داری کی آزادی دےکر جمہوری‎ اصولوں کی پابندی ے‌گا۔ ‘بتا دیں، جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم کئے جانے اور جموں وکشمیر اور لداخ کو دو یونین ٹریٹری بنانے کا اعلان مرکزی حکومت نے پانچ اگست کو کیا تھا۔ اس کے بعد سے پورے کشمیر میں سخت پابندیاں عائد کردی گئی تھیں۔

 وارنر کا یہ بیان اس لئے اہم ہے کیونکہ وہ کئی سالوں سے دو جماعتی  سینیٹ انڈیا کاکس کے ڈیموکریٹ اسسٹنٹ چیئرمین رہ چکے ہیں۔انڈیا کاکس 15 سال پہلے امریکی سینیٹ میں قائم پہلا ‘خصوصی ملک کاکس’ ہے۔وارنر ہندوستان کے ایک مضبوط حمایتی رہے ہیں اور وہ سینیٹ میں ہندوستان کےحق  میں کئی بل اور تجاویز کو رکھ چکے ہیں۔ سال 2011 اور 2013 میں، انہوں نے دیوالی کی تاریخی اہمیت کو پہچانتے ہوئے سینیٹ میں ایک تجویز پیش کی تھی۔ اس سال مہاتما گاندھی کی 150ویں سالگرہ کے موقع پر سینیٹ میں رکھی جانے والی ایک تجویز کے تین اسپانسر میں سے وہ ایک تھے۔

اپنے اس بیان کے ساتھ ہی وارنر امریکی رکن پارلیامان کی اس بڑھتی ہوئی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں، جنہوں نے ہندوستان سے دو مہینے پرانی پابندیوں کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔ حالانکہ، انہوں نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کو لےکر کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ اس سے پہلے امریکی رکن پارلیامان کریس وان ہولن کشمیر کا جائزہ لینے کے لئے وہاں جانا چاہتے تھے۔ حالانکہ، حکومت ہند نے ان کووہاں جانے کی منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا۔حالانکہ، کشمیر سفر کی منظوری نہ ملنے کے باوجود ہولن ہندوستان آئے اور انہوں نے ماحولیات کے وزیر پرکاش جاویڈکر سمیت ہندوستان کےکئی افسروں اور شہری سماج کے لوگوں سے ملاقات کی تھی۔

وہیں، 26 ستمبر کو،یو ایس سینیٹ کمیٹی آن اپروپریشن کی ذیلی کمیٹی نے محکمہ امور خارجہ اور امور خارجہ کے لئے بین الاقوامی مالی اعانت پرایک اہم قانون والی رپورٹ میں’ کشمیر میں انسانی بحران ‘ کا ذکر کیا تھا۔ رپورٹ میں ہندوستان سےمواصلاتی پابندیوں، حفاظتی پابندیوں کو ختم کرنےاور نظربندکیے گئے لوگوں  کو رہا کرنے کے لئے کہا گیا۔ رپورٹ میں یہ باتیں شامل کرنے کی تجویزڈیموکریٹ رکن پارلیامان لےکر آئے تھے اور اس کو کمیٹی کے تمام ممبروں سے دو فریقی حمایت ملی تھی۔اس سے پہلے گزشتہ مہینے امریکی وزارت خارجہ نے جموں و کشمیر میں سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لینے اور ذرائع ابلاغ پرپابندی لگائے جانے کے بعد بڑی تعدادمیں لوگوں کو حراست میں لینے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان سے انسانی حقوق کے احترام کی اپیل کی تھی۔

 امریکہ نے ہندوستانی افسروں سے ریاست کے مقامی رہنماؤں سے سیاسی بات چیت شروع کرنے اور جلد سے جلد انتخاب کرانے کو بھی کہا تھا۔اس کے بعد وہ، ایک اعلیٰ سطحی پارلیامانی وفد لےکر پاکستان کے قبضےوالے کشمیر کے دورے پر گئے اور پاک مقبوضہ کشمیر کے رہنما سردار مسعود خان اور راجا فاروق حیدر سے ملاقات کی۔واضح ہو کہ،گزشتہ مہینہ امریکی وزارت خارجہ نے جموں و کشمیر میں سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لینے اور مواصلاتی ذرائع پر پابندی لگائے جانے کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لینے پرتشویش کا اظہار  کرتے ہوئے ہندوستان سے انسانی حقوق کی عزت کرنے کی اپیل کی تھی۔امریکہ نے ہندوستانی افسروں سے ریاست کے مقامی رہنماؤں سے سیاسی بات چیت شروع کرنے اور جلد از جلد انتخاب کرانے کو بھی کہاتھا۔

اس کے بعد کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کو لے کر ایک ہندوستانی-امریکی خاتون رکن پارلیامان  پرمیلا جیسوال سمیت دو امریکی رکن پارلیامان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خارجہ مائیک پومپیوسے اپیل کی تھی کہ وہ کشمیر میں مواصلات کے ذرائع کو فوراً بحال کرنے اورحراست میں لیے گئے سبھی لوگوں کو چھوڑنے کے لیے ہندوستانی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔ اس کے ساتھ ہی صدر کے عہدے کے دو ڈیموکریٹ امیدواروں برنی سینڈرس اورالزابیتھ وارین نے بھی کشمیر کی صورتحال اور پابندیوں کو ختم کرنے کی ضرورت کے بارےمیں اپنی تشویش کاا ظہار کیا ہے۔

 ایک دیگر امیدوار کملا ہیرس نے کہا تھا کہ کشمیریوں کو یاد دلانا ضروری ہے کہ وہ دنیا میں اکیلے نہیں ہیں۔ بتا دیں کہ، ہیرسکی ماں ایک ہندوستانی-امریکی تھیں۔

 (خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)