خبریں

کشمیر میں سیاحت وینٹی لیٹر پر ہے، یہ تب بحال ہوگا جب مواصلاتی نظام پر لگی پابندیاں ختم ہوں گی: کاروباری

حکومت نے دو مہینے بعد سیاحوں  کے لیے کشمیر میں  سفر کی پابندیاں ہٹا دی ہیں،لیکن سیاحت سے جڑے کاروباری پرجوش نظر نہیں آرہے ہیں۔ آرٹیکل 370 کو ہٹانے سے پہلے گزشتہ 2  اگست  کو سکیورٹی کے تحت سبھی سیاحوں کو وادی چھوڑنے کا حکم دیا گیا  تھا۔

سرینگر کے ڈل جھیل میں شکارے سے سیر کرتے کچھ سیاح( فوٹو: پی ٹی آئی)

سرینگر کے ڈل جھیل میں شکارے سے سیر کرتے کچھ سیاح( فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سیاحوں کو لے کر جموں و کشمیر حکومت کے ذریعہ2 اگست کو جاری سکیورٹی ایڈوائس  ہٹانے کے بعد کشمیر میں سیاحت سے جڑے لوگ اس علاقہ میں پھر سے رونق لوٹ آنے کو لے کر بہت زیادہ پر جوش نہیں ہیں۔2 اگست کو جاری اس مشورے میں سیاحوں سے وادی کو چھوڑنے کو کہا  گیاتھا۔مرکزی حکومت کے ذریعہ آرٹیکل370 کے دفعات کو ختم کرنے اور جموں وکشمیر کو دو    یونین ٹریٹری میں تقسیم  کے اعلان سے پہلے جاری مشور ےمیں ریاستی حکومت نے سیاحوں  سے وادی میں اپنا سفر ختم کرنے کے لیے کہا تھا۔

مشورہ جاری ہونے کے بعد کشمیر سے بڑی تعداد میں سیاح  باہر نکلنے لگے اور ا س کا سیاحتی سیکٹر پر کافی اثر پڑا ۔جموں و کشمیر کا خاص درجہ 5 اگست کو ختم کرنے کے بعد سیاح کے لیے وادی بند ہو گئی تھی ۔ تب سے وہاں بند جاری ہے اور مواصلاتی ذرائع پر پابندیاں نافذ ہیں۔اس کی وجہ سے عام زندگی متاثرہے۔بازار بند ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ذرائع سڑکوں سے تقریباً ندارد ہیں۔

اس سچویشن میں سیاحت کے موسم میں بھی اس سے جڑے لوگوں کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔اس سےصرف ہوٹل کاروباری،ٹوراینڈٹریول ایجنسی ہی نہیں ہاؤس بوٹ کے مالک،شکارا چلانے والے،ٹیکسی آپریٹر اور سیاح گائیڈ بھی متاثر ہیں۔

ریاستی حکومت نے گزشتہ 9 اکتوبر کواس حکم کو واپس لیتے ہوئے کہا کہ ریاست کے دورے پر آنے کے خواہش مند سیاحوں  کا ضرور ی تعاون اورحمایت دی جائے گی۔بہر حال ،کشمیر میں سیاحت سے جڑے لوگ اس سے خوش نہیں ہیں۔کشمیر کے ہوٹل   بزنس ایسو سی ایشن  کے چئیر مین آصف برج نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ، اس سے تعاون ملے گا لیکن کشمیر میں تب تک سیاحت پوری طرح بحال نہیں ہوگا جب تک کہ مواصلات پر لگی پابندیاں نہیں ہٹا لی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال  اور وادی  میں موبائل اور انٹر نیٹ خدمات بند ہونے کی وجہ سے سیاح کشمیر کا سفر کرنے سے بچیں گے۔مشہور ڈل جھیل میں شکارا کے مالک بلال احمد نے کہا کہ وادی میں سیاحت کےلیے خاص موسم ستمبر اوراکتوبر ہوتا ہے،کیونکہ مختلف ریاستوں اور خاص طور سے مغربی بنگال میں پوجا کی چھٹیوں کی وجہ سے لوگ یہاں آتے ہیں اور سیاحت کا یہ موسم خراب چلا گیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ موجودہ صورتحال کی وجہ سے سیاحوں کے آنے کی امید کم ہے۔

نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر ایک ٹور آپریٹر نے کہا کہ موبائل اور انٹرنیٹ خدمات پر پابندی کی وجہ سے سیاحوں کی بکنگ کرنا اور دیگر ساز -و سامان مہیا کرانا کافی مشکل ہوگا۔انہوں نےکہا ،ہم سیاحوں تک نہیں پہنچ سکتے اور وہ ہم تک نہیں پہنچ پائیں گے،ہم کیسے جانیں گے کہ کس سیاح  نے کشمیر کے لیے بکنگ کی ہے۔ ہوٹلوں کو سیاحوں  کے پہنچنے کے بارے میں کیسے پتہ چلے گا؟ یہ سب ایک سسٹم  میں ہوتا ہے اور موبائل اور انٹر نیٹ خدمات کے نہیں ہونے سے سب کافی مشکل ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحفظ جیسے دیگر معاملے بھی ہیں جس پر حکومت کو دھیان دینا چاہیے۔برج نے کہا ،کشمیر میں سیاحت وینٹی لیٹر پر ہے اور اس  میں  تعاون کی ضرورت ہے۔ حکومت نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ  ان مدعوں پر غور کرے گی۔حکومتی اعداد وشمار کے مطابق جون میں کشمیر میں 1.74   لاکھ سیلانی آئے تھے جب کہ جولائی میں3403 غیر ملکی سمیت 1.52 لاکھ سیاح کشمیر گھومنے آئے تھے۔

( خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)