خبریں

شیلا دکشت کے بیٹے نے دہلی کانگریس کے انچارج پی سی چاکو کو ان کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا

اس بارے میں سابق وزیر اعلیٰ شیلا دکشت  کے بیٹے سندیپ دکشت نے دہلی کانگریس کے انچارج پی سی چاکو کو خط لکھا تھا۔ شیلا دکشت کے قریبی رہنماؤں نے پریس کانفرنس کر کے چاکو پر خط لیک کرنے کا الزام لگایا اور ان کو انچارج کے عہدے سے ہٹانے کی مانگ کی ۔

شیلادکشت( فوٹو: پی ٹی آئی)

شیلادکشت( فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی کانگریس انچارج پی سی چاکو کو ایک خط لکھ کر کانگریس رہنما سندیپ دکشت نے انہیں اپنی ماں اور سابق وزیر اعلیٰ شیلا دکشت کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ حالانکہ ،یہ خط فی الحال سامنے نہیں آیا ہے۔خبروں کے مطابق،سندیپ نے اس خط میں لکھا ہے کہ ان کی ماں کے موت کے ذمہ دار وہی چاکو ہیں کیونکہ چاکو کی دی ہوئی  ذہنی اذیت سے ان کی ماں کا انتقال ہوا ہے۔خط میں سندیپ نے مبینہ طور پر یہ بھی کہا کہ اب چاکو اس کے لیے معافی مانگیں یا پھر قانونی کارروائی کے لیے تیار رہیں۔

وہیں، سندیپ دکشت کے ا س خط پر کبھی شیلا دکشت کے قریبی رہے دہلی کانگریس کے رہنماؤں  منگت رام سنگھل ،کرن والیا،رماکانت گوسوامی اورجتیندر کوچر نے جمعہ کو ایک پریس کانفرنس کر کے صحافیوں  سے بات چیت میں چاکو پر خط لیک کرنے کا الزام لگایا اور ان کو انچارج کے عہدےسے ہٹانے کی مانگ کی۔ان رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ بطور انچارج چاکو کے رول کی جانچ کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے۔انہوں نے چاکو پر بدعنوانی کرنے،شیلا دکشت کو ذہنی اذیت دینے سمیت دیگر الزام لگائے۔

ان رہنماؤں نے کہا کہ شیلا دکشت نے زندہ رہتے ہوئے چاکو کی شکایت اور اپنا درد بیاں کرنے والا ایک خط سونیا گاندھی کو بھیجا تھا،جس کو ضرورت پڑنے پر عام کیا جائے گا۔حالانکہ،دکشت کے ذریعہ پارٹی کے  چاکو کولکھے گئے ‘ذاتی خط’ سے جڑے معاملے کو پارٹی صدر سونیا گاندھی نے کانگریس کی ڈسپلنری  کمیٹی کے پاس بھیج دیا ہے۔

حالانکہ چاکو کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ خط لیک نہیں کیا بلکہ سونیا گاندھی کے پاس بھیجا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سونیا نے اس معاملے کو ڈسپلنری کمیٹی کے پاس بھیجا ہے۔سندیپ دکشت نے کہا ،یہ ایک ذاتی خط ہے ۔اس کا نیشنل کانگریس سے کو ئی لینا دینا نہیں ہے۔ میرا دہلی کی کانگریس سے کوئی لینا دینا نہیں،میں دہلی کی سیاست سے 5 سال سے باہر ہوں،دہلی میں کہیں آتا جاتا نہیں ہوں۔ چاکو کو لکھا خط ذاتی ہے ۔ اگر وہ اسے لیک کرتے ہیں تو یہ ان پر ہے ،یہ غلط ہے۔

( خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)