خبریں

مغربی بنگال ٹرپل مرڈر کی حقیقت کیا ہے؟

مغربی بنگال کے ضلع مرشد آباد میں  ضیا گنج نامی مقام پر بندھو پرکاش پال، ان کی اہلیہ بیوٹی منڈل پال اور آٹھ سالہ بیٹے کا بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔

فوٹو: سوشل میڈیا

فوٹو: سوشل میڈیا

بی جے پی مہیلا مورچہ سوشل میڈیا  کی نیشنل انچارج پریتی گاندھی نے 10 اکتوبر کو ایک ٹوئٹ کیا جس میں انہوں نے  مغربی بنگال میں ہوئے قتل کے تعلق سے لکھا:

آر ایس ایس کی حمایت کرنے پر بنگال میں ایک ہندو پریوار کا قتل کر دیا گیا ۔ 35 سال کے بندھو پرکاش پال، ان کی 8 مہینے کی حاملہ بیوی اور 8 برس کے  بیٹے کوان کے گھر میں قتل کر دیا گیا ۔ انہوں نے ایک مخصوص فکر کی حمایت کرنے کی قیمت چکائی ہے !

fake 1

پریتی گاندھی کے اس ٹوئٹ میں غالباً یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ آر ایس ایس کی فکر کی حمایت کرنا ممتا بنرجی کے بنگال میں بہت ہمت کا کام ہے،کیوں کہ مغربی بنگال میں صوبائی حکومت اور اس کے تمام انتظامی ادارے آر ایس ایس اور بی جے پی کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ اگر پریتی گاندھی کی ٹوئٹر ٹائم لائن کو سرسری نگاہ سے ہی دیکھا جائے تو قاری کو گزشتہ ہفتے میں کئے گئے ان کے تمام ٹوئٹ سے یہ اندازہ ہو جاۓگاکہ وہ کس طرح آج کل بنگال مخالف بنی ہوئی ہیں!

اسی طرح، فیک نیوز اور پروپیگنڈہ ویب سائٹ پوسٹ کارڈ نیوز کے بانی مدیر مہیش وکرم ہیگڑے نے بھی اپنے ٹوئٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ بندھو پرکاش پال اور ان کے پریوار کو اس لئے قتل کیا گیا کیوں کہ وہ آر ایس ایس کے رکن تھے ! مہیش ہیگڑے کی ٹائم لائن بھی اسی طرح کے ٹوئٹ سے بھری ہوئی ہے جہاں وہ بنگال میں ممتا بنرجی حکومت اور انتظامیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے ایک ٹوئٹ میں  یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ بنگال میں محض چار دن میں آٹھ ہندوؤں کو مار دیا گیا ہے۔ مہیش کو ٹوئٹر پر پرائم منسٹر مودی خود فالو کرتے ہیں!

پروپیگنڈہ ویب سائٹ کے علاوہ ملک کی مین اسٹریم میڈیا نے بھی فیک نیوز کی اشاعت کا موقع ہاتھ سے نکلنے نہیں دیا! ٹائمز ناؤ نے بھگوا پروپیگنڈہ کی حمایت کرتے ہوئے   ایک پروگرام اسی موضوع پر نشر کر ڈالا اور ٹوئٹر پر #RSSWorkerButchered  کا ہیش ٹیگ چلا دیا!

غورطلب ہے کہ مغربی بنگال کے ضلع مرشد آباد میں  ضیا گنج نامی مقام پر بندھو پرکاش پال، ان کی اہلیہ بیوٹی منڈل پال اور آٹھ سالہ بیٹے کا بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ان کا قتل  8 اکتوبر بروز منگل ہوا۔ ان کے قتل کے بعد جب یہ خبر میڈیا میں عام ہوئی تو بھگوا ہنڈلوں اور پروفائلوں سے پروپیگنڈہ شروع کیا گیا  ان کا قتل اس بنا پر کیا گیا کہ وہ آر ایس ایس کے رکن تھے۔

بوم لائیو نے ان دعووں کی حقیقت جاننے کے لئے سہ رخی تحقیق کا سہارا لیا جس میں انہوں نے براہ راست آر ایس ایس، بی جے پی اور ضلع پولیس سے رابطہ قائم کیا۔ جب بوم لائیو نے جنوبی بنگال کے آر ایس ایس پرچار پرمکھ بپلب رائے سے قتل کے تعلق سے گفتگو کی تو راۓنےواضح کیاکہ بندھوپرکاش آرایس ایس کےپرانےکارکن نہیں تھے،وہ ابھی ابھی آرایسایس میں شامل ہوئےتھےاورسنگھ کی چندمیٹنگزکاہی وہ حصہ رہےتھے۔راۓنےکہاکہ بندھوپال بہت جونیئرتھےاورصرف اس بناپرکوئی ان کا قتل کیوں کرےگا؟بہت ممکن ہے کہ ان کو آپسی یا ذاتی رنجش کی بنا پر قتل کیا گیا ہو!

بی جے پی کے صوبائی صدر دلیپ گھوش نے بوم لائیو کو مطلع کیا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مغربی بنگال میں امن و امان کا نظام مکمل طور پر  تباہ ہو چکا ہے لیکن اس بنا پر یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ آر ایس ایس کی کچھ ہی میٹنگز میں حصہ لینے والے کسی نئے کارکن اور اس کے بیوی بچے کو اس لئے قتل کر دیا گیا ہو کیوں کہ وہ آر ایس ایس رفقاء میں سے تھے! دلیپ گھوش کے اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بندھو پال کا قتل سیاسی رنجش کی وجہ سے نہیں ہوا ہے بلکہ بہت ممکن  ہے کہ آپسی رنجش ہی اس کی وجہ ہو !

مرشد آباد پولیس کے ایس پی مکیش کمار نے بوم کو بتایا کہ ہمیں اپنی تحقیق میں ایسا کچھ نہیں حاصل ہوا ہے جس سے یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ بندھو پال کا قتل ان کے سیاسی تعلقات کی وجہ سے ہوا ہے۔ مکیش کمار نے بتایا کہ بندھو پال کے اقارب میں بھی کسی نے اس طرح کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔

لہٰذا، بوم لائیو نے اس بات کا انکشاف بہت اچھے انداز میں کیا کہ مظلوم بندھو پال اور ان کے پریوار کا قتل سیاسی وجوہات کی بنا پر نہیں ہوا ہے۔ بوم کا یہ انکشاف پریتی گاندھی، مہیش ہیگڑے اور ٹائمز ناؤ کے احمقانہ پروپیگنڈہ پر زور دار طماچہ ہے۔

فرقہ وارانہ تشدد عام کرنے کی غرض سے ہی دوسری فیک نیوز کی اشاعت گزشتہ ہفتے کی گئی۔ History of India نامی ٹوئٹر ہینڈل سے  ایک خاتون کی تصویر کو ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا گیا:

آسام میں ایک ہندو خاتون نے  ذاکر حسین نامی شخص سے شادی کرنے کے لئے  اپنے شوہر اور بچے کو چھوڑا اور  روبیہ بن گئی۔ دیکھئے، ذاکر حسین نے شادی کے بعد کیا کیا!

اس انگریزی ٹوئٹ کے علاوہ  متعدد ٹوئٹ ایسے بھی تھے جو ہندی میں تھے اور مختلف ٹویٹر ہینڈلوں پر ان کی عبارت یکساں نظر ائی جس میں دعویٰ کیا گیا:

آسام کی یہ میڈم جی  اپنے شوہر اور بیٹی کو چھوڑکر  ایک کٹ پیس ذاکر حسین  کے ساتھ نکاح کر روبیہ بن گئی تھی۔ اب ذاکر حسین ان کے حور جیسے خوبصورت تھوبڑے پر لاجواب پینٹنگ بنا رہا ہے!

fake 2

اس ٹوئٹ میں ٹوئٹ کرنے والے صارفین کی ‘کٹ پیس’سے مراد مسلمانوں سے تھی۔ ان تمام ٹوئٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ تصویر میں موجود خاتون کو اس کے دوسرے شوہر نے مارا ہے اور ان کا دوسرا شوہر مسلمان ہے۔ الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ واقعہ تقریباً سات برس پرانا ہے اور تصویر میں موجود خاتون کانگریس کی ایم ایل اے  ہیں جن کا نام رومی ناتھ ہے۔

رومی ناتھ کو2012 میں کچھ شر پسندوں کی ایک بھیڑ نے مارا تھا۔ انگریزی اخبار دی ہندو کی خبر کے مطابق رومی ناتھ اور ان کے دوسرے شوہر جیکی ذاکر کو 30 جون 2012 کچھ لوگوں نے  آسام کے جنوبی کریم گنج شہر میں پیٹا تھا جس کی وجہ سے ان کے چہرے پر زخموں کے نشان ہوئے۔ الٹ نیوز نے انڈیا ٹوڈے، انڈین ایکسپریس اور آسام ٹریبیون جیسے اخبارات میں شائع ہوئی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے  واضح کیا کہ یہ معاملہ رومی ناتھ ، ان کے طلاق شدہ شوہر اور  جیکی ذاکر کے درمیان ہے۔ 22مئی کو رومی ناتھ کے شوہر نے پولیس سے شکایات کی کہ ان کی بیوی لا پتہ ہیں، ان کو اغوا کر لیا گیا ہے اور گھر پر واپس نہیں لوٹی ہیں۔ 2 جون کو رومی ناتھ حاضر ہوئیں اور انہوں نے پولیس کو بتایا کہ ان کو اغوا نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہ اگرتلا ایک سفر  پر گئی ہوئی تھیں۔  انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے جیکی ذاکر سے دوسری شادی کر لی ہے اور پہلے شوہر سے ان کی طلاق کے کاغذات تیار ہیں۔

اس کے بعد رومی ناتھ کے پہلے شوہر کی طرف سے ایف ائی آر کرائی گئی کہ رومی کا یہ قدم غلط ہے اور بنا طلاق ہوئے انہوں نے دوسری شادی کر لی! اسی درمیان شر پسندوں کی ایک بھیڑ نے رومی ناتھ اور جیکی ذاکر پر حملہ کر دیا اور مبینہ طور پر رومی کے ساتھ ریپ کرنے کی کوشش کی۔ لہٰذا ان تمام حقائق اور دلائل کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا میں رومی ناتھ کی تصویروں کے ساتھ جو جھوٹ پروسا گیا اس کا مقصد صرف انتشار پھیلانا تھا۔

ہندوستان کی معیشت میں اس وقت غیر یقینی صورت حال بنی ہوئی ہے۔ مہاراشٹر کا پی ایم سی بینک بند ہو جانے سے ہندوستان کے تمام شہریوں میں خوف کے حالات بنے ہوئے ہیں، لوگوں کی خریداری کی طاقت بالکل کم ہو گئی ہے، بےروزگاری کا دور ہے اور صنعتی پیداوار میں1.1فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ ایسی بے اعتباری میں لوگ سہمے ہوئے ہیں اور کسی بھی افواہ کو سچ مان کر اس کو فیک نیوز کی شکل میں عام کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر عام کیا گیا کہ اگلے سال یکم جنوری کو ریزرو بینک آف انڈیا دو ہزار روپے کے تمام کرنسی نوٹ بند کر دےگا اور ایک ہزار روپے کے نئے نوٹ بازار میں جاری کرےگا۔ لہٰذا، شہریوں کو صلاح دی جاتی ہے کہ وہ جلد ہی  دو ہزار روپے کے اپنے تمام نوٹ  بدل لیں۔

یہ افواہ فیس بک، ٹوئٹر اور وہاٹس ایپ پر گردش میں رہی اور عوام میں گمراہی کا سبب بن گیا۔ سوشل میڈیا کے علاوہ  تیلگو زبان کے سورنوچینل نے اس خبر کو نشر بھی کیا۔الٹ نیوز نے ان دعووں کی حقیقت جاننے کے لئے  آر بی آئی کے کمیونی کشن ڈپارٹمنٹ سے رابطہ قائم کیا تو معلوم ہوا کہ ایسے پیغام  مبنی بر افواہ ہیں، آر بی آئی کی آفیشل ویب سائٹ سے اس کو پختہ کیا جا سکتا ہے کہ ایسی کوئی نوٹس یا سرکلر جاری نہیں کی گئی ہے جس میں یہ ہدایت دی گئی ہو کہ دو ہزار روپے کا نوٹ بند کیا جا رہا ہے۔

غور طلب ہے کہ گزشتہ ماہ ستمبر میں بھی یہ افواہ عام کی گئی تھی کہ آر بی آئی ملک کے9 بڑےبینکوں کو بند کر رہا ہے۔ شہریوں کو چاہیے کہ وہ کسی وہاٹس ایپ فارورڈ کی صداقت کو پرکھنے کے لئے سرکاری ویب سائٹوں کی طرف رجوع کیا کریں۔

fake 3

کاجل بین نامی فیس بک یوزر نے گزشتہ ہفتے ایک ویڈیو اپ لوڈ کیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ویڈیو سوامی وویک آنند کے اس تاریخی خطاب کی ہے جو انہوں نے 1893 میں  مذاہب کی عالمی مجلس نامی معروف تقریب میں دیا تھا۔ کاجل کے علاوہ بھی کافی لوگوں نے اس ویڈیو کو شئیر کیا۔

الٹ نیوز نے واضح کیا کہ یہ ویڈیو سوامی وویک آنند کا اصل ویڈیو نہیں ہے بلکہ  2012 میں ریلیز ہوئی فلم سے لی گئی کلپ ہے۔